تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     13-08-2021

چلو جاپان کی سیر تو ہوگئی

22 کروڑ جیتے جاگتے انسانوں میں سے 10 بہترین کھلاڑی ٹوکیو اولمپکس میں اپنی اپنی ''شاندار‘‘ کارکردگی دکھانے کے بعد واپس آچکے ہیں۔ اِس علامتی دستے سے غیر معمولی کارکردگی کی توقع بالکل بھی نہیں تھی لیکن اتنی بری کارکردگی کا بھی اندازہ نہیں تھا۔ اِس کارکردگی کے تناظر میں اولمپک ایسوسی ایشن کے کام کا اندازہ خود ہی لگا لیجئے گا۔ ایک صاحب گزشتہ سترہ سالوں سے اِس ایسوسی ایشن کی مسندِ صدارت پر براجمان ہیں لیکن کارکردگی... اندازہ تھا کہ اتنے عرصے سے دعوے ہورہے ہیں تو کچھ نہ کچھ ہمارے کھلاڑی کر گزریں گے لیکن افسوس کہ کوئی ایک توقع بھی پوری نہ ہوسکی۔ ہانپتے کانپتے اِس دس رکنی دستے میں سے صرف چار کھلاڑی ہی اپنی قابلیت کی بنا پر اولمپکس مقابلوں کا حصہ بنے تھے جبکہ باقی چھ کی انٹری ''وائلڈ کارڈ‘‘ کی مرہونِ منت تھی۔ ہمارے جوڈو کے کھلاڑی شاہ حسین شاہ صرف تین منٹ نوسیکنڈز میں اپنے حریف مصر کے رمضان درویش کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ ہمیں بھی یہ مقابلہ دیکھنے کا موقع ملا جسے دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی کہ شاہ حسین شاہ دس سال کا تجربہ رکھنے کے باوجود مسلسل فاؤل کرتے رہے۔ اُمید تو تھی کہ وہ اپنے والد محترم حسین شاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کچھ کر دکھائیں گے اور ملک کے لیے میڈل جیت کر لائیں گے لیکن یہ توقع سراب ہی ثابت ہوئی۔ واضح رہے کہ شاہ حسین شاہ کے والد باکسر حسین شاہ نے 1988ء کے سیول اولمپکس میں باکسنگ میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ پہلی مرتبہ بیڈمنٹن مقابلوں میں شریک ہونے والی ماحورشہزاد مسلسل دو میچز ہار کر مقابلوں سے باہر ہوگئیں۔ حسیب طارق سو میٹر فری سٹائل کی ہیٹ ٹومیں 72تیراکوں میں سے 62ویں نمبر پر رہے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ وہ آخری نمبر پر نہیں رہے۔ اِن مقابلوں کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں میں سے جیولین تھرو میں ارشد ندیم نے ہی اہلِ وطن کی خوشی کا کچھ سامان کیا۔ یہ نوجوان میڈل تو نہ جیت سکا لیکن اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے پانچویں نمبر پر رہا۔ ویسے ہم اپنا موازنہ امریکا، چین یا جاپان سے تو نہیں کرسکتے لیکن یہ بھی دیکھئے کہ شام جیسے شدید خانہ جنگی کا شکار ملک بھی کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہا۔ شام کے ویٹ لفٹر مان اسد نے کانسی کا تمغہ جیت کر جہاں اپنے اہل وطن کی خوش کا سامان کی وہیں شاید ہمیں بھی آئینہ دکھایا ہے۔ قطر، اردن، بحرین اور کویت جیسے خلیجی ممالک کے علاوہ گھانا، نمیبیا، منگولیا، نائیجیریا،مراکو ، تیونس، رومانیہ اور کوسوو جیسے ممالک بھی میڈلز ٹیبل میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ تین سونے، دو چاندی اور دو کانسی کے میڈلز کے ساتھ ایران 33ویں نمبر پر رہا۔
ماضی میں ایک ہاکی کا کھیل ایسا تھا جس میں میڈل کی توقع ہوا کرتی تھی اور اب تو ہاکی کے عروج کا زمانہ بھی لد چکا۔ ہماری ٹیم مسلسل دوسری بار اولمپکس مقابلوں کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرسکی۔ ہمارے کھلاڑی اور ہاکی فیڈریشن کے عہدیدار دوسری ٹیموں کے مقابلے دیکھ کر تالیاں پیٹتے رہتے ہیں اور ہمیشہ یہی جواب ان کی طرف سے سننے کو ملتا ہے کہ ہماری نظر آئندہ مقابلوں پر ہے۔ یہ ہے کھیلوں میں ٹرپل پی ایچ ڈی کے حامل وزیراعظم کے ملک کے کھلاڑیوں کی حالت۔ کوئی ایک بھی کھیل ایسا نہیں بچا کہ جس میں ہم اپنی کارکردگی پر فخر محسوس کرسکیں۔ عرصہ ہوا کہ کرکٹ تمام کھیلوں کو کھا چکی ہے۔ ہمارے زمانۂ طالب علمی کے زمانے میں فٹبال مقبول ترین کھیل ہوا کرتا تھا۔ تعلیمی اداروں کی ٹیموں کے کھلاڑی بھی بہت اعلیٰ معیار کا کھیل پیش کرتے تھے، پھر ہمیں کرکٹ کا بخار ہونا شروع ہوا تو فٹبال کا کھیل کہیں پیچھے چھپ گیا۔ آج فٹ بال فیڈریشن میں عہدوں کی کھینچا تانی کے درمیان یہ کھیل خود فٹ بال بن چکا ہے۔ یہ ہے ہماری کھیلوں میں دلچسپی کا عالم! کبڈی، بیڈمنٹن اور دیگر کھیلوں کو تو ایک طرف رکھیں یہاں تو سکواش جیسا کھیل بھی دم توڑ چکا۔ عنقریب ہماری نئی نسلیں ہاشم خان، جہانگیر خان اور جان شیرخان جیسے ناموں سے بالکل ہی ناواقف ہوجائیں گی۔ اُنہیں اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ ہمارے سکواش کے نامور کھلاڑیوں نے پوری دنیا کو تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا۔ یہ کھلاڑی سکواش کورٹ میں بعد میں قدم رکھتے تھے اور اِن کی جیت کا اعلان پہلے سے ہو جاتا تھا۔ آج سکواش کے میدانوں میں پاکستانی کھلاڑی دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔
اِن تمام کھیلوں کی فیڈریشنز کے عہدیداروں سے بات کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُن سے زیادہ درد دل رکھنے والا شخص روئے زمین پر موجود نہیں۔ وہ ہمیشہ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ جیسے وہ اپنی اپنی فیلڈ کے کھیلوں کی ترویج کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے‘ یہ سب صرف لپ سروس ہے۔آج بھی ہمارے ہاں چھوٹے بڑے تقریباً 40 کھیل کھیلے جاتے ہیں لیکن اِن میں سے سوائے کرکٹ کے‘ کسی ایک میں بھی ہم ٹاپ ٹین میں شامل نہیں ہیں۔ سچی بات ہے کہ اب تو کرکٹ کی حالت دیکھ کر بھی دل دہل رہا ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے زمانے میں ایک شاندار کھلاڑی رہنے والے وزیراعظم کے دور میں دوسرے کھیل تو رہے ایک طرف کرکٹ کی بھی یہ حالت ہوجائے گی۔ معلوم نہیں کہ ان کے اتنے تجربے اور اتنی تعلیم کا کھیلوں کو کوئی فائدہ کیوں نہیں ہوپارہا؟حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کھیلوں کے میدان میں اس زبوں حالی کا ذمہ دار بھی سابقہ حکومتوں کو قرار دے کر اِس میں بھی بری الذمہ ہوگئے ہیں۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ اُنہوں نے تسلیم کیا ہے کہ دراصل وہ کھیلوں کو اُتنا وقت نہیں دے پائے جتنا دینا چاہیے تھا شاید اِسی باعث اب کرکٹ کا کھیل بھی مسلسل زوال پذیر دکھائی دیتا ہے۔
اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کا موقف تھا کہ محکمانہ ٹیموں کے بجائے علاقائی ٹیمیں ہونی چاہئیں کہ اس سے کھیل میں جوش اور جذبہ بڑھتا ہے، اقتدار میں آنے کے بعد یہ سب کیا بھی گیا، علاقائی ٹیمیں تشکیل دی گئیں، ایک طرف محکمانہ ٹیمیں ختم ہونے سے بے شمار کھلاڑی بے روز گار ہوئے اور دوسری طرف ٹیلنٹ کے نیچے سے اوپر آنے کا سلسلہ ختم ہوکر رہ گیا۔ یہ اقدام کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی یہ نہیں سوچا گیا کہ اِس سے ہزاروں کھلاڑی بے روزگار ہوجائیں گے۔ جب ہمارے کھیلوں کے ساتھ ایسے رویے ہوں گے تو پھر اولمپکس مقابلوں میں سامنے آنے والی کارکردگی پر زیادہ بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اب تو ہم کھیلوں میں اپنے اُس حریف سے بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں جس کے ساتھ ہم ہمیشہ سے اپنا موازنہ کرتے آئے ہیں۔ بھارت کی خواتین اور مردوں‘ دونوں ہاکی ٹیموں کی طرف سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ معلوم نہیں کون سا ایسا جادو ہے کہ ہاکی کے میدانوں میں اُس کی ٹیمیں اب اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگی ہیں۔ بقول بھارتی ہاکی فیڈریشن کے عہدیدار کلدیپ لعل کے‘ ہاکی کے کھلاڑیوں کو حکومت کی مکمل اشیر باد حاصل ہے اور حکومتی سطح پر بہت اچھی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ اُن کی ٹیم تواتر سے دوسری ٹیموں کے ساتھ میچز کھیلتی ہے جس کے باعث کارکردگی میں مسلسل نکھار آتا چلا جارہا ہے۔ ویسے جادو کے یہ دونوں چراغ ہمارے پاس بھی موجود ہیں لیکن معلوم نہیں ہم اِن کو رگڑ کیوں نہیں رہے۔ اِس حوالے سے تجاویز تو بہت ہیں لیکن سب باتوں کی تان یہیں پر آکر ٹوٹتی ہے کہ فنڈز میں اضافہ کردیں۔ یہ اضافہ ہو بھی جائے تو سمجھ نہیں آتی کہ فنڈز خرچ کہاں ہوئے ہیں۔ بات بہت سیدھی اور صاف ہے کہ اپنوں کو نوازنے کے رویے نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کھیلوں میں یہ صورتحال بدرجہ اتم دکھائی دے رہی ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ صورتحال میں تبدیلی کے دوردور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ہمارے بہت سے نامور کھلاڑیوں کو بھی مختلف فیڈریشنز میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کا موقع ملا لیکن وہ بھی نمک کی کان میں نمک ہو کر ہی رہ گئے۔ اِس سب کے باوجود دعا ہے کہ ہماری حکومت دیگر مسائل حل کرنے کے ساتھ کھیلوں کے لیے بھی کچھ وقت نکالے ورنہ تو ہم اِسی طرح نمائشی طور پر اولمپکس مقابلوں میں شرکت کے بہانے سیرسپاٹے کرتے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved