تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     14-08-2021

اسلوبِ خود کفالت

دل نے کیا کچھ نہیں سہا۔ مدتوں قوم اور ملک کا درد پالا۔ انقلاب کے خواب دیکھتے تھے اور مطالعہ بھی خوب زوروں سے ہوتا تھا۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے، قوم اور ملک کا درد دل سے اُٹھتا گیا اور اب تو یوں لگتا ہے کہ اِس بخار سے مکمل چھٹکارا حاصل ہو گیا ہے۔ اِسی کیفیت کے نتیجے میں فضول کے سیاسی بیانات پہ کان دھرنے کو جی نہیں چاہتا‘ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آس پاس کے واقعات سے تقریباً بے نیاز ہو چکے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور اب مہینوں کی بات نہیں ہفتوں کی لگتی ہے کہ وہ کابل کو پھر سے فتح کرلیں گے اور اُن کی حکمرانی پورے افغانستان پہ قائم ہو جائے گی۔ لیکن کرلیں کابل کو فتح ہماری صحت پہ کیا اثرپڑے گا؟ اشرف غنی تھے تو ہمارا کیا ہوا، وہ چلے جائیں گے تو ہمارا کیا بگڑے گا؟ طالبان کے بارے میں بس ایک ہی فکر ہے کہ یہاں مذہبی جنون میں کہیں شدت نہ آجائے۔ پہلے ہی اِس قسم کے جنون کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔ اِس میں اضافے کے بغیر ہی ہم بہتر ہیں۔ ہلکا سا خدشہ یہ بھی ہے کہ کہیں دہشت گردی اپنا سر پھر سے نہ اُٹھائے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ہم بہت کچھ سہہ چکے ہیں۔ اِس ضمن میں مزید تجربات کے متحمل نہیں۔ اِس کے علاوہ طالبان جو کرتے ہیں کرتے رہیں۔ خواتین کو پھر سے اُنہوں نے گھروں میں بند کرنا ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ہرقوم کی اپنی تقدیر ہوتی ہے۔ افغانستان کے برے دن شروع ہوئے تو ختم ہونے کانام نہیں لے رہے۔ لیکن اِس کا ہم کیا کریں؟ برے دن آتے ہیں تو سوات جیسی خوبصورت سرزمین پہ بھی آ جاتے ہیں۔ سوات کا حسن خدا کا عطاکردہ ہے۔ کیا اِس حسن کو ملا فضل اللہ کی شکل میں کوئی انعام ملنا چاہئے تھا؟ لیکن ایسا ہوا اور سوات میں خونیں چوک بنے اور اُن میں لوگوں کو لٹکتے بھی دیکھا گیا۔ بس طالبان وہیں رہیں جہاں کے ہیں۔ کچھ تو اثر اُن کا یہاں آئے گا لیکن دعا یہی ہے کہ زیادہ نہ آئے۔ ہم ویسے بھی اپنا بہت کچھ بگاڑ چکے ہیں۔ مزید بگاڑ کی سکت نہیں رکھتے۔
بہرحال ذاتی خواہشات ہماری محدود نہیں ہوئیں۔ صرف اِتنا ہے کہ اُن میں کچھ عقل آگئی ہے اور ترجیحات اپنی بہتر ہو گئی ہیں۔ مثال کے طور پہ سفرِ لاہور کے ارادے اب تقریباً ترک کردیئے ہیں۔ کوشش اب یہی رہتی ہے کہ جن چیزوں کیلئے لاہور جاتے تھے وہ یہیں چکوال میں دستیاب ہو جائیں۔ البتہ ایک چیز ہے جس کی یہاں کمی واقع ہے اور وہ اِس لئے کہ ہم نے اپنے ملک میں وعظ و نصیحت کے نام پر خواہ مخواہ کی مشکلات پیدا کی ہوئی ہیں۔ جو معاشرے تھوڑے سے عقل پہ چلتے ہیں اُن میں اور مشکلات تو ہو سکتی ہیں لیکن یہ عام قسم کی مشکلات نہیں ہوتیں۔ ہماری یہ بدبختی ہی سمجھی جانی چاہئے کہ اپنے لئے جو مسائل ہم نے 1977ء میں پیدا کئے اُن کو اب تک حل نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر لاہور خود نہیں جاتے تو کسی کو بھیجنا پڑتا ہے۔ خیر تھوڑی بہت دانائی کے استعمال سے کون سی ضرورت ہے جو پوری نہیں ہو سکتی۔
اناج ہمارا گھر کا ہوتا ہے۔ سال بھر کی ضرورت کا انتظام ہو جاتا ہے۔ چھوٹا سا ڈیری فارم بنانے کا ارادہ ختم کردیا ہے۔ جو ہماری یہاں منتظم ہوا کرتی ہے اُس نے سمجھایا کہ روزمرہ کے استعمال کیلئے دودھ تھوڑا سا چاہئے ہوتا ہے۔ وہ پڑوس سے آجاتا ہے، اُسی میں سے کچھ کو جاگ لگا کے ضرورت کا دہی مہیا ہو جاتا ہے۔ دیسی گھی کوئی دے جاتا ہے یا خرید لیا جاتا ہے۔ تو پھر بھینسیں پالنے کا جھمیلا سر پہ کیوں اٹھایا جائے۔ مشورہ مفید تھا اِس لئے ماننا پڑا۔ نہ صرف جھنجھٹ سے بچ گئے بلکہ اچھے خاصے ماہانہ خرچے سے بھی۔ اِسے کہتے ہیں ترجیحات کا درست ہونا۔
معمول یوں ہے کہ صبح کچھ انٹرنیٹ پہ خبریں دیکھ لیتے ہیں کچھ اخبارات کا مطالعہ ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اور پڑوس میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ اُس کے بعد ساتھ ہی جو ڈیرا ہے وہاں کا رخ ہوتا ہے۔ پھل دار پودوں کا باغ لگانے کا ارادہ تھا لیکن سوچاکہ ہم نے کہاں مالٹے سنگترے بیچنے ہیں۔ اپنی ضرورت کیلئے کینوں اور مالٹوں کے پودے موجود ہیں۔ ساری سردیوں اُنہی میں سے جوس نکال کے استعمال ہوتا ہے۔ اِس لئے یہی سوچا کہ کھیت کا نظارا اچھا ہونا چاہئے وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ چیڑ کے پودے کچھ لگائے ہوئے ہیں۔ محکمہ جنگلات سے ایک مہربان تھے انہوں نے خاصی تعداد میں پودے بھیجے تھے۔ اُن میں بیشتر خوبصورت انداز سے لگ چکے ہیں اور بڑے ہو رہے ہیں۔ اِن میں سے دو سال کے جو پودے ہیں نہایت دلکش نظر آتے ہیں۔ چند روز پہلے اسلام آباد میں ایک مہربان سے فرمائش کی کہ چنار کے کچھ پودے چاہئیں۔ چھ سات فٹ کے بیس پودے ہمارے منتظر ہیں، بس اُنہیں لانے کی دیر ہے۔ کچھ ہی روز میں آجائیں گے اور لگ بھی جائیں گے۔ ایک ہمارے جاننے والے ہیں جو لاہور میں باغبانی کا کام کرتے ہیں۔ کبھی کبھار آتے ہیں اور ہماری باغبانی میں جو کمی واقع ہو اُسے پورا کردیتے ہیں۔ کمال ہنر ہے اُن کے ہاتھوں میں۔ کسی کیاری کو تیارکریں تو خوبصورتی پیدا ہو جاتی ہے۔
باہر سے لوٹنا ہوتا ہے تو اہتمامِ شب کا وقت آن پہنچتا ہے۔ ساون کا مہینہ ختم ہونے کو ہے۔ دن بھر نمی اور تپش بھی ہو تو شامیں اچھی ہو جاتی ہیں۔ ایک دو روز میں بھادوں کا مہینہ شروع ہو جائے گا۔ اِس مہینے کے پہلے دس دن گرمی کے ہوتے ہیں۔ سورج نکلے تو کہاوت ہے کہ تپش بہت سخت ہوتی ہے لیکن آدھے بھادوں کے بعد شامیں اچھی ہونے لگتی ہیں۔ کوئی منصف ہو جو انصاف کرے۔ ایسے میں فکرِ شب ہو یا افغانستان کی فکر؟ ہمارے جیتے ہمارے اپنے ملک کا ماحول یہی رہنا ہے۔ دیگر ملکوں میں کیا ہونا ہے ایسی تشویش میں مبتلا ہونے کا کیا فائدہ؟
دیہاتی ماحول میں رسم و رواج کا خیال ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن اپنی خوش قسمتی ہی سمجھیں گے کہ اِس لحاظ سے بھی آزاد ہو چکے ہیں۔ حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ شادیوں میں جانے سے پرہیز کیا جائے۔ دعوتی کارڈ آتے ہیں ایک طرف رکھ دیئے جاتے ہیں۔ فاتحہ خوانی کبھی کبھار کرنی پڑ جاتی ہے۔ جنازوں کا البتہ دوسرا معاملہ ہے۔ اپنے جنازے میں تو شریک ہونا پڑے گا لیکن کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کے جنازوں میں نہ ہی جانا پڑے۔ کاندھا دینے کیلئے کتنے لوگ درکار ہوتے ہیں؟ جب اپنا وقت آئے گا اِتنے تو ہو ہی جائیں گے۔ لوگوں کی یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ فلاں کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ دفنائے گئے کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اُس کا جنازہ چھوٹا تھا یا بڑا؟ میں نے سیاست دانوں کو دیکھا ہے جن کا کام ہی یہی ہے کہ شادیوں اور جنازوں پر حاضریاں دیتے پھرتے ہیں۔ چار شادیوں کی دعوت ہو گی‘ چاروں پہ جائیں گے۔ جنازہ ہو گا وہاں پہنچے ہوں گے۔ ہماری سیاست میں ایسی مشقت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ جب باقاعدہ سیاست میں تھے تو کچھ نہ کچھ ایسی روٹین پوری کرنی پڑتی تھی لیکن باقاعدہ سیاست سے نکلے تو اِن مجبوریوں سے بھی آزاد ہوئے۔
کچھ سامانِ باغبانی، کچھ اہتمامِ راحتِ شب، زیادہ نہیں کچھ ذخیرۂ کتب، پسندیدہ موسیقی، کچھ صحبتِ یاراں تاکہ ہر روز نہ سہی کبھی کبھی تنہائی کا احساس ہلکا ہو سکے۔ اور اِن سب سے اہم یہ کہ ڈاکٹروں کے پاس نہ جانا پڑے۔ تو پھر سمجھئے کہ رازِ کفالت پا لیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved