تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     14-08-2021

آزادی اور جشنِ آزادی

ان دنوں ہر طرف جشن کا سماں ہے۔ پاکستان اور بھارت اپنی اپنی آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔ یہ جشن گزشتہ چوہتر سالوں سے باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جوش و خروش میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ جشن آزادی بالکل بجا، مگر یہ جشن مناتے ہوئے دونوں ملکوں میں اس بات پر بھی غور ہونا چاہیے کہ ہم جس آزادی کا جشن منا رہے ہیں‘ وہ کیا واقعی ہمیں حاصل ہے؟ اور ظاہر ہے اس سے پہلے اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ آزادی ہوتی کیا ہے؟ کیا آزادی کا مطلب صرف غیر ملکی قبضے کا خاتمہ ہے؟ یعنی انگریزوں کے بر صغیر سے نکل جانے اور اقتدار کی باگ ڈور پاکستان و بھارت کے مقامی حکمرانوں کو منتقل ہونے کے عمل کو آزادی کہا جا سکتا ہے؟ میرے خیال میں کسی بھی ملک سے غیر ملکی قبضے کے خاتمے کو اس ملک کے عوام کی آزادی نہیں کہا جا سکتا۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جب غیر ملکی تسلط کے خاتمے کے بعد مقامی قوتوں نے عوام پر ایسے نظام مسلط کیے، جو غیر ملکی تسلط سے کہیں زیادہ، ظالمانہ یا وحشیانہ تھے؛ چنانچہ کسی ملک کا کسی غیر ملکی تسلط سے چھٹکارا ہی آزادی نہیں، بلکہ اس ملک کے عوام کے معاشی، سیاسی، سماجی اور فکری طور پر اپنی مرضی اور پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے اختیار کو آزادی کہا جا سکتا ہے۔ کیا بر صغیر سے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد یہاں کے عوام کو یہ اختیار مل گیا؟ کوئی ذی شعور شخص اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دے سکتا۔ نہ بھارت میں، نہ پاکستان میں۔
ایک آزاد ملک اور آزاد سماج میں ایک آزاد اور پُر مسرت زندگی گزارنے کی کچھ بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں پہلی شرط یہ ہے کہ انسان معاشی طور پر آزاد ہو۔ معاشی طور پر آزاد ہوئے بغیر انسان سیاسی اور فکری طور پر آزاد نہیں ہو سکتا‘ اور ایک منصفانہ معاشی نظام قائم کیے بغیر عوام معاشی طور پر آزاد نہیں ہو سکتے۔ صرف ایک منصفانہ معاشی نظام ہی عوام کو بلا رشوت، سفارش‘ لالچ اور خوف کے روزگار کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اس ضمانت کے بعد انسان محتاجی سے باہر نکلتا ہے‘ اپنے پائوں کے نیچے زمین محسوس کر سکتا ہے‘ اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ معاشی طور پر آزاد ہونے کے بعد انسان سیاسی طور پر آزاد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر اور پسند کے مطابق ووٹ دیتا ہے۔ کوئی اسے دھونس، دھاندلی‘ جبر یا لالچ کے ذریعے ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اس آزادی کے اظہار کے نتیجے میں سماج میں سیاسی آزادیاں آتی ہیں۔ شہری آزادیاں آتی ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ ملتا ہے۔ جبر سے پاک ایک آزاد سیاسی نظام قائم ہوتا ہے۔ معاشی اور سیاسی آزادیوں کے بعد انسان فکری طور پر آزاد ہوتا ہے۔ وہ خوف اور لالچ سے نکل کر آزادانہ طور پر سوچنا شروع کرتا ہے۔ اپنی فکر کا آزادانہ اظہار کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ سیاست اور فلسفے پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔ اسے یہ خوف نہیں رہتا کہ الگ طریقے سے سوچنے کی پاداش میں اسے گرفتار یا قید کر لیا جائے گا۔ زندیق یا غدار قرار دے دیا جائے گا‘ یا پھر اسے قتل کر دیا جائے گا۔ چنانچہ معاشی، سیاسی اور فکری آزادی کے بغیر آزادی کا کوئی تصور نہیں۔
پاکستان اور بھارت میں بے شک جمہوریت ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں‘ مگر ان ممالک میں ابھی تک منصفانہ معاشی نظام نہیں ہے۔ عوام کی ایک غالب اکثریت غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ سماج میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہے۔ رشوت اور اقربا پروری ہے۔ دھونس اور دھاندلی کا چلن عام ہے۔ ظلم و نا انصافی ہے۔ طبقاتی تقسیم اور لوٹ کھسوٹ ہے۔ ایسے سماج میں عام آدمی اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی مرضی سے ووٹ نہیں دے سکتا۔ اپنی مرضی کے سیاسی فیصلے نہیں کر سکتا۔ اس کے پائوں میں خوف و لالچ کی ان دیکھی بیڑیاں اور زنجیریں ہوتی ہیں‘ اور جب تک یہ عام آدمی آزاد نہیں ہو جاتا، اس وقت تک آزادی کا جشن بے معنی ہے؛ چنانچہ آزادی کا جشن منانے والوں کو یہ جشن مناتے وقت اپنے ملکوں میں معاشی و سماجی انصاف کی بات بھی کرنی چاہیے۔ عام آدمی کو اس جشن میں شامل کرنے کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ عام آدمی جشنِ آزادی کے جلوس میں کھڑا تالیاں تو بجا رہا ہے، نعرے بھی لگا رہا ہے‘ مگر آزادی کے ثمرات اور برکات اس تک نہیں پہنچ رہے۔
معاشی اور سیاسی آزادی کے لیے علمی و فکری آزادی بنیادی شرط ہے۔ فکری آزادی کے بغیر کسی بھی سماج میں معاشی خوش حالی اور سیاسی آزادیاں ممکن نہیں ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے سماجوں میں علمی و فکری آزادیوں کی ابھی شروعات بھی نہیں ہوئی ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجز میں علمی اور فکری سطح پر بحث مباحثے یا مکالمے کی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔ اکیڈیمیا کی اس باب میں واضح پالیسی علمی و فلسفیانہ بحثوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور حتی المقدور ان کو روکنا ہے۔ اگر اکیڈیمیا میں ایسا ہے، تو اس سے باہر عام زندگی میں فکری آزادی یا فلسفیانہ مباحث کا تصور ہی خارج از امکان ہے۔ سماج میں اس طرح کے پبلک فورمز اور پلیٹ فارمز موجود ہی نہیں ہیں، جن پر عوامی سطح پر فکری اور علمی سطح پر مکالمے یا بحث کی گنجائش ہو۔
اظہارِ رائے کی آزادی کبھی بھی ہمارے سماج میں ایک تسلیم شدہ حق نہیں رہا ہے۔ اگر کبھی تھوڑا بہت اظہارِ رائے کی آزادی رہی بھی تو یہ حق کے بجائے رعایت کے طور پر عطا ہوتی رہی ہے‘ لیکن جو کچھ بھی تھوڑا بہت اظہار رائے کی آزادی رہی ہے، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک مثال میڈیا کی صورت حال ہے۔ اس وقت میڈیا پر اظہارِ رائے کی آزادی کی حالت قابل رحم اور افسوسناک ہے۔ میڈیا کو قابو کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے حکمران اشرافیہ نے سنسرشپ کے روایتی طریقوں سے ذرا آگے بڑھ کر جدید سائنسی اور نفسیاتی طریقے اختیار کر لیے ہیں۔ دبائو ڈالنے اور مجبور کرنے کے فرسودہ روایتی طریقوں کے بجائے نئے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ جن باتوں پر شاید حکمران اشرافیہ کو اعتراض نہ ہو ان پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے۔ وہ اشرافیہ کے عتاب سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ان کو اپنا روزگار چھن جانے کا خوف رہتا ہے۔ تنگ دستی کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشانی ہوتی ہے۔ یہ میڈیا کی بات ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو زندگی کے ہر شعبے میں یہ تصویر نظر آتی ہے۔ ان حالات میں آزادی کا جشن ضرور منانا چاہیے، مگر اس کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور فکری آزادی پر غور و فکر بھی ہونا چاہیے‘ اور یہ سوچنا چاہیے کہ حقیقی آزادی اور سچی جمہوریت کے راستے سے رکاوٹیں کیسے ہٹائی جا سکتی ہیں۔ آزادی کی برکات عام آدمی تک کیسے پہنچائی جا سکتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved