وزیراعظم نے قوم کو دایاں ہاتھ
دکھا کر بایاں دے مارا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عمران خان نے قوم کو دایاں ہاتھ دکھا کر بایاں دے مارا‘‘ جو کہ محاورے کا سراسر غلط استعمال ہے کیونکہ بایاں دکھا کر دایاں مارتے ہیں اور جو قوم اپنے محاوروں کا صحیح استعمال نہیں کر سکتی وہ ترقی کے میدان میں ہمیشہ پیچھے رہ جاتی ہے، اول تو یہ محاورہ بجائے خود محلِ نظر ہے کیونکہ دایاں دکھا کر بایاں مارا جائے یا بایاں دکھا کر دایاں ، ضرب ایک ہی جتنی پڑتی ہے اور دوسرے یہ کہ دایاں اور بایاں دونوں صاف نظر آ رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی پوشیدہ نہیں ہوتا، اس لیے دونوں کا فرق ہی بے معنی ہے، محاورے بنانے والوں کو کچھ تو سوچنا چاہیے۔ آپ اگلے روز منصورہ میں یوتھ ڈے پر خطاب کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم چوں چوں کا مربہ
اجلاس بے وقت کی راگنی: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم چوں چوں کا مربہ، اجلاس بے وقت کی راگنی ہے‘‘ اور میں محاوروں کا استعمال بہت کم کرتا ہوں لیکن آج بیک وقت دو محاورے استعمال کر کے ڈر رہا ہوں کہ کہیں میرا ہاضمہ خراب نہ ہو جائے جبکہ اہلِ سیاست کا اور کچھ نہیں تو کم از کم ہاضمہ ضرور ٹھیک ہونا چاہیے بلکہ لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم ہونا چاہیے کیونکہ کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کس وقت کیا کھانا پڑ جائے جبکہ گاجر اور سیب کا مربہ تو مشہور ہیں، ہو سکتا ہے چوں چوں بھی کوئی ایسی ہی چیز ہو حتیٰ کہ کوئی راگنی بھی بے وقت کی نہیں ہوتی کیونکہ جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں نئے وارڈ کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کو شاہد خاقان عباسی نے خراب کیا: کائرہ
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کو شاہد خاقان عباسی نے خراب کیا‘‘ اور یہ مولانا کی سراسر حق تلفی ہے کیونکہ پی ڈی ایم کو اس حالت تک صاحبِ موصوف ہی نے پہنچایا ہے، اس لیے اس کا کریڈٹ کسی اور کو دینا سراسر زیادتی ہے اور یہ ان کی ساری محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے؛ تاہم عباسی صاحب کی اس ضمن میں خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایک طرف دو بیانیوں کے بوجھ سے ان کی کمر دُہری ہو رہی تھی اور دوسری طرف انہیں یہ فریضہ بھی سر انجام دینا پڑ رہا تھا، حتیٰ کہ خود نواز لیگ کو اس حالت تک پہنچانے میں بھی ان کا کردار قابلِ فراموش نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
سیاستدانوں نے ایس او پیز کی
زیادہ خلاف ورزی کی: اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''سیاستدانوں نے ایس او پیز کی زیادہ خلاف ورزی کی‘‘ اور خدا کا شکر ہے کہ اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا اور جو لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے‘ وہ بھی چار دن قرنطینہ کی بہاریں دیکھ کر پھر ہٹے کٹے ہو گئے جبکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا نے بھی یہاں لحاظ داری سے کام لیا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو اپنی توجہ سے محروم رکھا ہے اور یہ کوئی انصاف نہیں ہے کیونکہ سیاستدان حضرات و خواتین کافی عوامی ہوتے ہیں اور ان سے سلوک بھی عوام سے مختلف نہیں ہونا چاہیے، اس دہرے معیار پر کورونا کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کر رہے تھے۔
اپوزیشن حکومت گرانا چاہتی ہے تو
سب کو مل کر چلنا ہوگا: سحر کامران
پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن حکومت گرانا چاہتی ہے تو سب کو مل کر چلنا ہوگا‘‘ حالانکہ ایک طویل عرصے تک مل کر بھی چلتے رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی کیونکہ سب کی اپنی اپنی مجبوریاں تھیں مثلاً ہم نے کچھ دے دلا کر حکومت کو برف میں لگا دیا تھا تو ادھر نواز لیگ بھی مفاہمت کے چکروں میں پڑی ہوئی تھی اور اب تک وہی صورتحال چل رہی ہے اس لیے اکٹھے ہو کر چلنا تو درکنار، یہ دونوں پارٹیاں ایک ساتھ بیٹھنے سے بھی معذور ہیں اور ایک دوسرے پر مسلسل گولہ باری بھی کرتی رہتی ہیں اس لیے دونوں کا مل کر چلنا ایک خواب ہی ہو سکتا ہے اور خواب دیکھنے پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
اپنی مرضی سے کبھی ہم نے اٹھائی نہیں تھی
ایک گٹھڑی جو کہیں سر سے اتاری نہیں تھی
وہی ہم کو لیے پھرتی رہی آگے پیچھے
ایک وہ لہر جو دل سے کبھی اٹھی نہیں تھی
دوسروں کو بڑی تاکید سے سمجھاتے رہے
تھی کوئی بات جو ہم نے کبھی سمجھی نہیں تھی
اور، ہم خواہ مخواہ آپ کی دنیا میں چلے آئے
جگہ حالانکہ وہاں اتنی نکلتی نہیں تھی
ہم تو اس بات پہ قائم ہیں جو کی تھی ہم نے
تم بھی قائم رہو اس پر جو کبھی کی نہیں تھی
جس میں برپا نہیں تھا شور شرابا تیرا
رات آئی بھی تو ہم نے وہ گزاری نہیں تھی
کیا وہ اِک بار کا ملنا تھا کہ جس کی اکثر
یاد آتی نہیں، آ جائے تو جاتی نہیں تھی
ہے کسی گزرے ہوئے خواب کی خوشبوئے رواں
جو تمہاری بھی نہیں، صرف ہماری نہیں تھی
مستیاں کرتے کبھی اس کے اندھیروں میں، ظفرؔ
رات ایسی کوئی ہم پر کبھی آئی نہیں تھی
آج کا مقطع
اِک فصیلِ کفر تھی گھیرے ہوئے ہم کو، ظفرؔ
اور اُس دیوار میں محراب تھے چاروں طرف