کون نہیں جانتا کہ پاک افغان بارڈر آج سے نہیں‘ گزشتہ بیس برسوں سے پاکستان میں موت بانٹنے کا کام کر رہا ہے۔ اسے مضبوط اور مکمل آہنی باڑوں سے بند کرنا انتہائی ضروری ہو چکا تھا۔ جنوری 2007ء میں بھی میں نے صدر پرویز مشرف کی آرمی ہائوس کے آڈیٹوریم میں ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے پُرہجوم اجتماع سے کی جانے والی اس واضح گفتگو کے تناظر میں لکھے اپنے کالم میں سرحد پر آہنی باڑ نصب کرنے اور شام پانچ بجے کے بعد ان میں برقی رو دوڑانے اور فلڈ لائٹس کے استعمال کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ صدر پرویز مشرف نے امریکا اور یورپ سے پاک افغان سرحدی علاقے کو دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی آماجگاہ بننے سے روکنے اور ان کی آمد و رفت ختم کرنے کیلئے آہنی باڑ کی تنصیب کیلئے پاکستان کی مدد کی اپیل بھی کی تھی۔
اس وقت باڑ لگانے کا تقریباً 98 فیصد تک کام مکمل ہو چکا ہے لیکن اس دوران اس کام میں رخنے ڈالنے کا کام پوری طرح جاری رہا۔ ٹی ٹی پی اور اس سے علیحدہ ہونے والے دوسرے گروپس‘ جن کی کمان انڈین فوج اور اس کی ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہے‘ بلوچستان، وزیرستان سمیت کچھ قبائلی علا قوں میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر حملے کرتے رہے۔ ان کی گوریلا کارروائیوں‘ جن میں بارودی سرنگیں اور بم دھماکے بھی شامل ہیں‘ میں باڑ کے کام کے ساتھ ساتھ تیزی آتی گئی اور جوں جوں یہ کام آگے بڑھتا رہا‘ کسی نہ کسی طریقے سے یہ اپنے ایجنٹ پاکستان میں داخل کرنے میں مصروف رہے۔
ملک کے سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور افسران کا تحفظ ہماری اولین ذمہ داری ہونا چاہیے۔ اس میں تو کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں اور ان کے سلیپر سیلز کیلئے گولا بارود سمیت ہر قسم کی کمک افغانستان سے پہنچتی رہی۔ دہشت گردوں کی آمد و رفت کو روکنے کیلئے جب چند روز کیلئے پاک افغان بارڈر بند کیا گیا تو چاروں جانب ایک ہاہاکار مچ گئی، جس میں امریکا یہ کہتے ہوئے پیش پیش تھا کہ ترکی اور پاکستان کو اپنی سرحدیں مہاجرین کیلئے بند نہیں کرنی چاہئیں۔ اس وقت ترکی میں 35 لاکھ سے زائد جبکہ پاکستان میں‘ چالیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں۔ اب کچھ اندازوں میں ان کی تعداد میں کسی قدر کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کیا پاکستان اپنی سکیورٹی کے فیصلے کسی اور کی مرضی سے کرنے چاہئیں؟
کون نہیں جانتا کہ بھارت اور افغان ایجنسیوں کی طرف سے ہر ایک لاکھ مہاجرین میں ایک ہزار انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد بھی پاکستان میں داخل کر دیے جاتے ہیں۔ پرویز مشرف اور ان کے بعد جنرل راحیل شریف نے ملکی سلامتی کے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے کھل کر کہا تھا کہ افغانستان سے متصل سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کو آہنی باڑ لگانے کا اہم قدم اٹھانا ہی پڑے گا‘ جسے اب جنرل قمر جاوید باجوہ پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ یاد رکھیے کہ اگر اس کام میں ذرا سی بھی سستی کی جاتی یا بیرونی پریشر سے گھبرا کر کام ادھورا چھوڑ دیا جاتا تو افغانستان کے چپے چپے میں بکھرے ہوئے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں‘ جنہوں نے اب تک دس ہزار سے زائد پولیس، ایف سی اور فوج کے جوانوں اور افسروں کو شہید کیا ہے‘ کی جانب سے پاکستان کو اپنا سافٹ ٹارگٹ بنانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہنی تھی۔ یہ وہی سدھائے ہوئے لوگ ہیں جن کے بارے میں سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اپنے دورۂ اسلام آباد کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا '' افغان فوج کی تربیت کے لیے بھارتی فوج کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں‘‘۔ اور پھر امریکی چھتری کے نیچے حامد کرزئی کے دس سالہ دور میں بھارتی فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھوں ان کی یہی تربیت ہوتی رہی کہ کس طرح پاکستان میں عام شہریوں اور سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانا ہے۔ دوسری جانب بھارت افغانستان کی فوج، سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کا ہم راز بننے کے ساتھ ساتھ کرزئی اور پھر اشرف غنی ٹولے کا دم ساز بھی بن گیا اور انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے لگا۔
مارچ2017 میں 2640 کلومیٹر طویل مغربی سرحد پر آہنی باڑ لگانے کا مشن شروع کیا گیا تھا اور دہری باڑ لگائی گئی ہے جس میں دو فٹ کا فاصلہ رکھا گیا ہے۔ وہ باڑ جو پاکستان کی طرف ہے‘ اس کی اونچائی 3.6 میٹر جبکہ افغانستان کی جانب باڑ کی اونچائی چار فٹ رکھی گئی ہے اور اب یہ کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اس باڑ کے ساتھ ساتھ ایک ہزار قلعہ نما فوجی مراکز جبکہ قانونی آمد ورفت کو کنٹرول کرنے کیلئے 16 کراسنگ پوائنٹس بھی رکھے گئے ہیں۔ اس طویل آہنی باڑ کے ساتھ علیحدہ سے انفراریڈ ڈِٹیکٹرز بھی نصب کیے گئے ہیں تاکہ دہشت گردوں کی آمد و رفت پر قابو پایا جا سکے۔ افغانستان میں بے چینی اور قتل و غارت سے سینکڑوں میل دور بیٹھا بھارت خود کو محفوظ سمجھ کر اس اطمینان میں ہے کہ اسے کوئی نقصان نہیں ہو رہا، اس کی تو کوئی عمارت تباہ نہیں ہو رہی، اس کے تو افسر‘ جوان یا پولیس والے نہیں مارے جا رہے، اس کا تو کوئی شہری دہشت گردی کا شکار نہیں، اصل نقصان تو افغانستان اور پاکستان کا ہو رہا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو گمراہ کیے گئے یا ڈالرز کے بدلے اپنے ہی لوگوں پر ہتھیار اٹھانے والے بھارت کے حامیوں کو بھی سوچنی چاہئے۔ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے اور سوال اس وقت باڑ گرانے یا مزید افغان مہاجرین کو آنے کی اجازت دینے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ بھارت نواز تحریک طالبان پاکستان اور دہشت گردی سے اپنے لیے ڈالر کھرے کرنے والے دوسروں گروپوں کے ایجنٹوں کو پاکستان میں تباہی و بربادی پھیلانے کی کھلی چھوٹ دینے کے بجائے ہم دودھ کے جلے ہوئوں کو اب چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینا ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ چند ماہ قبل صوبہ بلوچستان میں افغانستان سے متصل سرحدی ضلع قلعہ عبد اللہ میں پاکستانی سرحدی فورسز نے افغان فوج سے جھڑپوں کے بعد ایک امریکی ساختہ ہموی گاڑی کو بھی تحویل میں لیا۔ اس کے علاوہ اس باڑ کی تنصیب کے دوران سرحد پار سے ہمارے جوانوں پر جتنے حملے ہوئے‘ ان کا تو شمار بھی مشکل ہے۔ فوج کے درجنوں‘ سینکڑوں جوانوں نے اپنے خون کا نذرانہ صرف اس لیے پیش کیا تاکہ ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنا کر دہشت گردوں کی آمد و رفت پر روک لگائی جا سکے اور اہلِ وطن چین سے اپنے گھروں میں سو سکیں۔
پاک افغان سرحدی باڑ کے منصوبے پر اعتراضات کرنے والوں کو اسرائیلی وزیراعظم کی جنرل اسمبلی کے 70ویں اجلاس میں کی جانے والی اس تقریر کو یاد کرنا ہو گا جس میں اسرائیل نے غزہ پر باڑ لگانے کے ناجائز اقدام کی مخالفت پر کہا تھا کہ وہ ایسی تمام تنقید کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا ہے۔ ہم تو کسی متنازع علاقے کے بجائے اپنے ملک کی سرحد کو‘ اپنی مٹی اور اس میں بسنے والی عوام کو محفوظ بنانے کے لیے یہ اقدام کر رہے ہیں، ہمیں اپنی مٹی اور اس کے عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر نا ہو گا۔ افغان سر زمین پر بیٹھ کر‘ افغان فوج اور کرائے کے دہشت گردوں کے ہاتھوں‘ بھارت کی برسائی جانے والی گولیوں اور بم دھماکوں کا ہمیں نوک دار پتھروں سے جواب دینا ہوگا۔ اگر میکسیکو اور امریکا کے درمیان باڑ لگ سکتی ہے تو پاک افغان سرحد پر کیوں نہیں؟ اگر بھارت 32 سال قبل‘ پنجاب کی سینکڑوں کلومیٹر طویل سرحد پر آہنی باڑ لگا سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ دسمبر 2006ء اور جنوری 2007ء میں جب صدر مشرف نے باڑ لگانے کی بات کی تھی تو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کے چند رہنمائوں نے شور مچا دیا تھا کہ دونوں طرف ہم پشتونوں کی رشتہ داریاں ہیں‘ ہم یہ باڑ برداشت نہیں کریں گے۔ انہیں کون سمجھائے کہ ملک کی سلامتی تمام رشتوں سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ خود بھارت بھی کئی برس پہلے اپنے ''دوست‘‘ نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کو کئی مقامات سے آہنی باڑ لگا کر بند کر چکا ہے۔