تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-08-2021

علاج کے بغیر چارہ نہیں

وقت یوں بدلا ہے کہ بہت سے معاملات اپنی اصلیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ کل تک جو کچھ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا وہ نہ صرف یہ کہ ہو رہا ہے بلکہ ہماری نفسی اور حسی ساخت کا تیا پانچا کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ بہت سے معاملات اب اُس منزل میں ہیں جہاں اُن پر قابو پانا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ دنیا اِتنی بدل گئی ہے کہ پہچانی نہیں جاتی؟ یہ سب کچھ بہت سے عوامل کا نتیجہ ہے۔ ہر شعبے میں پیشرفت اس قدر ہے کہ اس سے ہم آہنگ رہنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ہم چاہیں بھی تو ایسا نہیں کرسکتے۔ مشکلیں تو اور بھی بہت ہیں مگر سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ آج کا انسان شدید نوعیت کی بدحواسی کا شکار ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں اپنے حواس کو اِدھر اُدھر سے آنے والی معلومات اور غلط بیانیوں سے محفوظ رکھنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ ہم بہت سی باتوں کو اس قدر عمومی انداز سے لیتے ہیں کہ ان کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ آج ہمارے اپنے حصے کا وقت ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ ہر انسان کو قدرت کی طرف روزانہ چوبیس گھنٹے عطا کیے جاتے ہیں مگر یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اس میں سے دو تین گھنٹے بھی پوری طرح اپنے نہیں۔ انسان بیداری حالت میں بھی پریشان ہے اور نیند میں بھی الجھنیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ انٹرنیٹ کی ''برکت‘‘ سے مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات ہمارے حواس کا تیا پانچا کرنے پر تلی رہتی ہیں۔ ایک دور مین سٹریم میڈیا کا تھا جو ہماری نفسی، فکری اور معاشرتی ساخت پر تازیانے برسانے کے درپے تھے۔ ہمیں بہت سی خرابیوں کا سامنا کرنا پڑا اور یوں ہماری زندگی میں بہت سی ایسی شدید منفی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے پورے معاشرے کو الجھنوں سے بھردیا۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے مین سٹریم میڈیا کے سامنے بہت تیزی سے ہتھیار ڈال دیے۔ مختلف ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے میڈیا کو بروئے کار لایا گیا اور ہم ہدف ہی نہیں، تماشائی بھی تھے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی تباہی اور بربادی سے محظوظ بھی ہوئے! ابھی ہمیں سانس درست کرنے کا موقع بھی نہ ملا تھا کہ سوشل میڈیا نے انٹری دے دی۔ یہ انٹری ہماری زندگی سے بہت کچھ نکال باہر کرنے والی نکلی۔ سوشل میڈیا کی ''مہربانی‘‘ ہے کہ ہم کم و بیش تمام معاملات میں ہدف بھی ہیں اور تماشائی بھی۔ مین سٹریم میڈیا سے بہت حد تک بچاؤ ممکن تھا‘ اب ایسا نہیں ہے۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ سوشل میڈیا چوبیس گھنٹے ہماری زندگی کا حصہ ہیں اور یہ ٹی وی سکرین کا محتاج نہیں۔ سوشل میڈیا تک رسائی سمارٹ فون کے ذریعے ہے اور سمارٹ فون اب ہر دوسرے فرد کے ہاتھ میں دکھائی دیتا ہے۔
یہ تو ہوا سوشل میڈیا کے ہماری زندگی میں در آنے کا معاملہ۔ اب آئیے سوشل میڈیا کے شدید اثرات کی طرف جنہیں ہم بھگت ہی رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے حواس کی رہی سہی قوت کا بھی تیا پانچا کردیا ہے۔ عام آدمی کام کی ہر بات اور ہر معاملے سے دور ہوچکا ہے۔ بیشتر معاملات میں اُس کا اپنی ذات ہی پر بس نہیں چل رہا۔ معاشرتی ڈھانچا اس نوعیت کا ہے کہ لوگ خود بھی لایعنی اور لاحاصل معاملات میں الجھے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ قابلِ رشک مالی حالت میں کیا جاتا ہو۔ جن کی مالی حالت پتلی ہے اور جنہیں دن رات کام کرتے رہنا چاہیے وہ بھی سوشل میڈیا کے ہاتھوں فضولیات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ دیکھ کر الجھن سی ہوتی ہے کہ کوئی اپنے ذاتی مفاد کو بھی کس حد تک نظر انداز کرسکتا ہے! سمارٹ فون کے ذریعے سوشل میڈیا پورٹلز تک انتہائی آسان رسائی نے انتہائی نوعیت کی مشکلات کو جنم دیا ہے۔ دوسرے بہت سے پس ماندہ معاشروں کی طرح ہمارے یہاں بھی لوگ سوشل میڈیا کے ہاتھوں کم و بیش یرغمال ہیں۔ زندگی اس طور گزر رہی ہے کہ اُس پر اپنا کم اور دوسروں کا زیادہ اختیار ہے۔ یہ کیفیت اس قدر وسعت اختیار کرچکی ہے کہ اب پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے اور بہت کچھ ہے جو اب کسی کے اختیار میں نہیں رہا۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جو کچھ ذہن میں داخل ہوتا ہے وہ کچھ نہ کچھ پیدا کرتا ہے، کسی نہ کسی نتیجے کو جنم ضرور دیتا ہے۔ اور یہ نتیجہ ہے کیا؟ دردِ سر، اور کیا؟
سوشل میڈیا کے غیر ضروری استعمال سے مستقل دردِ سر نے جنم لیا ہے۔ یہ دردِ سر سب ایک دوسرے کو دیتے پھررہے ہیں۔ آج کا انسان سوشل میڈیا کے بغیر زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کر پارہا۔ سوشل میڈیا پورٹلز ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہماری نفسی ساخت اُس کے بغیر ادھوری سی رہ جاتی ہے۔ ہماری حِسی صلاحیتوں پر ہر وہ چیز اثر انداز ہو رہی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہے۔ دن رات کارآمد اور فضول ہر دو طرح کی معلومات کی آمد نے حواس کو کچھ کا کچھ کردیا ہے۔ معمولات تبدیل ہوگئے ہیں۔ ترجیحات کا بھی ایسا بُرا حال ہوا ہے کہ اُنہیں نئے سِرے سے ترتیب دینا لازم ہوچکا ہے۔ سوشل میڈیا کی پوسٹس آج ہماری زندگی پر اس قدر چھائی ہوئی ہیں کہ خاطر خواہ توجہ نہ دینے کی صورت میں ان سے نجات کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔
ایک دور تھا کہ کچھ نیا جاننے کا شوق ہوا کرتا تھا۔ یہ شوق جب حد سے بڑھا تو ہر معاملے میں اَپ ڈیٹ کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ جن معاملات سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا ان کے حوالے سے بھی ہم پریشان دکھائی دینے اور الجھے ہوئے رہنے لگے۔ یہ شوق جب تمام منطقی حدود سے پار ہوا تو بیماری میں تبدیل ہو گیا۔ اب حال یہ ہے کہ ہم اِس بیماری کے دلدادہ و اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔ بیماری ہے کہ روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور ہمارا یہ معاملہ ہے کہ علاج شروع کرنا تو دور کا معاملہ ‘ابھی تک اس کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں۔ سوشل میڈیا کے ہاتھوں ہمارے معمولات اور فکری ساخت میں لایعنی باتیں اس حد تک داخل ہوچکی ہیں کہ معقولیت کے لیے گنجائش خطرناک حد تک گھٹ کر رہ گئی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اب اگر کوئی معقولیت کی بات کرتا ہے تو بھری محفل میں تنہا رہ جاتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کے لیے قبولیت برائے نام رہ گئی ہے جو معاملات کو درست کرنے کی بات کریں یا اصلاحِ احوال کے حوالے سے کچھ کرنے پر مائل ہوں۔
وقت تیزی سے گزر ہی نہیں رہا، ضائع بھی ہوتا جارہا ہے۔ صابر ظفر کے بقول ''آج ہر شخص ایسے جمگھٹے میں کھوگیا ہے جس میں اس کے سوا کوئی نہیں ہے‘‘۔ شوق کو بڑھاتے بڑھاتے بیماری میں تبدیل کرنے والوں کا ایسا ہی انجام ہوا کرتا ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم منطقی حدود سے نکل کر بیماری میں تبدیل ہو جانے والے شوق سے نجات پانے کا سوچیں یا کم از کم اتنا ہی کر گزریں کہ اہم معاملات میں خود کو متوازن رکھنا ممکن ہو؟ سوشل میڈیا نے ہمیں خیالی دنیا کے باشندوں میں تبدیل کردیا ہے۔ ہم دن رات زمینی حقیقتوں کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا وہ انداز اختیار کیے ہوئے ہیں جو غیر متعلق اور لایعنی باتوں کو ہماری نفسی و حِسی ساخت کا حصہ بناتے ہوئے وقت کے زیادہ سے زیادہ ضیاع کی راہ ہموار کرتا جارہا ہے۔ تیزی سے گزرتے بلکہ ضائع ہوتے ہوئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم لاحاصل معاملات سے الگ تھلگ رہنے کی مشق کریں اور ہر اُس معاملے سے وابستہ رہنے کی کوشش کریں جو ہمیں بامقصد زندگی کی طرف لے جاتا ہو۔ سوشل میڈیا پورٹلز نے ہمیں بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک پس ماندہ معاشرے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ زندگی جیسی نعمت کو یوں سوچے سمجھے بغیر ضائع کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved