تحریر : محمد اعجاز الحق تاریخ اشاعت     14-08-2021

یومِ آزادی، تجدیدِ عہد کا دن

وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 74ویں یوم آزادی کا سورج پاکستان کی نئی امنگوں کے ساتھ ابھرا ہے۔ امسال پاکستانی قوم یومِ آزادی منفرد انداز میں منا رہی ہے۔ 2 سال قبل بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے کشمیر کی میسر خصوصی استثنا ختم کر دیا تھا جس سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت متاثر ہوئی۔ آج پاکستان کے یوم آزادی پر کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی کیا جائے گا جبکہ کل پورے کشمیر میں 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔ آج یوم آزادی بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کے وژن کے مطابق مادرِ وطن کو امن‘ ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے پختہ عزم کی تجدید کے ساتھ قومی و ملی جوش و جذبے سے منایا جائے گا۔ملک بھر میں مختلف مقامات پر پرچم کشائی کی تقریبات منعقد کی جائیں گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ض) کے کارکن ملک بھر میں کورونا کے خدشات کے پیش نظر مکمل احتیاط ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنی اپنی جگہ پر تقریبات منعقد کریں گے اور ایس او پیز کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔ گھروں کی چھتوں پر قومی پرچم لہرائے جائیں گے اور چراغاں بھی کیا جائے گا۔ ہر عام پاکستانی کیلئے قومی پرچم لہرانے اور سجانے کی یہ خوبصورت رسم اور روایت کا آغاز بھی شہید صدر ضیاء الحق نے کیا تھا وگرنہ اس سے قبل ایسا کوئی تصور تک نہ تھا۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے قریباً 114خطابات اور تقریروں میں واشگاف الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا تو انہوں نے فرمایا کہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں، ہمارا دستور وہی ہے جو قرآنِ مجید کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ساڑھے تیرہ سو سال قبل ہمیں عطا کر دیا تھا۔ حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم پاکستان محض ایک خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپنا سکیں۔ جب تک قوم بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ محمد اقبالؒ کے خواب کی تعبیر نہیں پائے گی‘ قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صرف جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے دور میں ہی یہ روایت ڈالی گئی تھی کہ یوم آزادی قومی، ملی اور مکمل یکجہتی کے ساتھ منایا جائے، یہ پاکستان اور اسلام کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار تھا۔
یہ حقیقت تاریخ میں محفوظ ہو چکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرکے اور انہیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دے کر دو قومی نظریے کی بنیاد خود رکھی جو بعد میں تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی‘ جس میں قائداعظمؒ کی بے بدل قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خود مختار پاکستان کا تصور متعین ہوا‘ جس میں مسلمانوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی بلکہ انہیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی ہندو بنیے کی ذہنیت اور انگریز کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے استحصال سے بھی نجات ملے گی اور اس خطے کے مغلوب مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہونے والی اس مملکت خداداد میں خلقِ خدا کے راج کا تصور بھی عملی قالب میں ڈھل جائے گا۔ قیام پاکستان کے مقاصد‘ اس کے نظریے اور نظام کے حوالے سے قائداعظم کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا؛ چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ لوگ جو نظریۂ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں‘ انہیں اسلامیہ کالج پشاور میں قائداعظم کی 13 جنوری 1948ء کی تقریر کے یہ الفاظ ذہن نشین کر لینے چاہئیں ''ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا‘ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے‘ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔ بدقسمتی سے قائد کی رحلت کے بعدکھوٹے سکوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ ان لو گوں نے اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے اپنے مفادات اور مسائل کی آماجگاہ بنا دیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ض) ہمیشہ کی طرح آج بھی ان لوگوں کی راہ میں مزاحم ہے، پاکستان کو طویل عرصہ سے دہشت گردی کے ناسور کا سامنا رہا جسے پاک فوج نے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دشمن کی سازشوں کو ٹھوس حکمت عملی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
2 سال قبل بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاستِ کشمیر پر شب خون مارا تھا۔ ریاستِ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیری شعلہ جوالہ بن گئے‘ بھارتی سفاک سپاہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بری طرح پامال کر رہی ہے‘ مقبوضہ وادی میں بھارت کی سفاکیت سے انسانی المیہ بدترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ عالمی برادری اس پر تشویش کا اظہار تو کرتی ہے مگر بھارت کے ظلم کا ہاتھ روکنے میں تساہل سے کام لیتی ہے۔ اسے آخری کشمیری کی موت کا انتظار کیو ں ہے؟ پلوامہ کا ڈرامہ رچا کر بھارت نے جنگی صورتحال پیدا کر دی تھی‘ اس کی طرف سے جارحانہ اقدامات کا ارتکاب کیا گیا جس کا پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا۔ دہشت گردی کی بھارتی کوشش کو ناکام بنایا گیا، اب بھارت کی طرف سے سائبر حملے کے شواہد سامنے آئے ہیں‘ ہمارے قومی سلامتی کے ادارے نے بھارتی انٹیلی جنس اداروں کے پاکستان پر ایک سائبر حملے کا سراغ لگا کر اسے ناکام بنایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف منصوبے بنائے۔ بھارتی شرارتوں سے نمٹنے کیلئے ہمیں اس وقت قائداعظم کے وژن پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل نہیں ہوسکتا لہٰذا استصوابِ رائے پر بہرصورت عمل کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے قوم کا وسیع تر اتحاد و اتفاق ناگزیر ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ ہے، سوا کروڑ لوگوں کو ان کے گھروں میں قید کر رکھا ہے۔ تمنائے آزادی اور جذبۂ حریت کو بندوق و بارود سے نابود کرنا ممکن ہوتا تو تحریک آزادی کشمیر کب کی دم توڑ چکی ہوتی اور بھارتی فوج کے بے پناہ انسانیت سوز مظالم کے سامنے کشمیری سرنگوں ہو جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عشاقِ آزادی قافلہ در قافلہ سوئے مقتل رواں دواں ہیں۔ شہیدوں کا خون ہمیشہ تحریکوں کو سیراب کرتا ہے اور ان کیلئے پیغام زندگی بنتا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں اور چین سمیت بہت سے ممالک نے مذکورہ بھارتی اقدام کو واپس لینے کا مطالبہ کیا مگر آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ یہ موقع ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے آگے بڑھے تاکہ خطے کو تباہ کن جنگ سے بچایا جا سکے۔ پاکستان نے اس بار بھی اپنے یومِ آزادی کو کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر منانے اور قومی پرچم کے ساتھ کشمیرکا جھنڈا لہرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت کے یوم آزادی کو جموں و کشمیر اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔ قوم کو پاکستان کی اساس سے جوڑنا اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرانا دینی و سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری ہے۔ قومیں اپنے نظریات کی بنا پر زندہ رہتی ہیں، اپنے اسلاف کے طے کردہ نشاناتِ منزل کو گم کر دینے اور اپنے نظریات کو فراموش کر بیٹھنے والوں کا وجود کائنات زیادہ دیر برداشت نہیں کرتی اور وہ حرفِ غلط کی طرح مٹا دیے جاتے ہیں۔ پاکستان اپنے نظریے کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم! قومی سوچ اور حب الوطنی کے جذ بات کو پروان چڑھانے میں 14اگست کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آئندہ نسلوں کو قیام پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداداد کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے پاکستان کے حصول کیلئے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved