پاکستان ماشاء اللہ 75ویں سال میں قدم رکھ چکا، گویا آنے والا سال اس کا ڈائمنڈ جوبلی سال ہو گا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی یوم آزادی کی تقریب میں برادرم شاہد رشید نے یہ مطالبہ کیا کہ حکومت اِس سال کو ڈائمنڈ جوبلی سال ڈکلیئر کرے تاکہ سارا سال تقریبات منعقد ہوں، اور سود و زیاں کا حساب ہو۔ جو کچھ حاصل کر لیا گیا، اس پر سجدہ ہائے شکر بجا لائے جائیں، اور جو کچھ حاصل کرنا ہے، اس کا واضح تعین کیا جائے، ہدف ہر شخص کے سامنے ہو، اور وہ اسے حاصل کرنے کی تدبیریں سوچے، اور تجویزیں پیش کرے۔ اپنے اپنے دائرے میں اپنے اپنے حصے کا کام کیا جائے، اور یوں سب مل کر وہاں پہنچ جائیں، جہاں پہنچنا ہر ایک کی دلی خواہش ہے۔
پاکستان قائم ہوا تو اس خطے کی آبادی تین کروڑ سے کچھ اوپر تھی، آج یہ بائیس کروڑ کو چھو رہی ہے۔ گویا آبادی میں کم و بیش سات گنا اضافہ ہوا ہے۔ حصولِ آزادی کے وقت ہمارے پاس اپنی پوری آبادی کا پیٹ بھرنے کے وسائل نہیں تھے۔ گندم امریکہ سے درآمد کرنا پڑتی تھی، اور اس کی اہمیت اِس قدر تھی کہ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے خود بندرگاہ پر جا کر گندم لانے والے جہازوں کا ''خیرمقدم‘‘ کیا تھا، اور بوریاں بھر کر شہر پہنچانے والی اونٹ گاڑیوں پر ''تھینک یو امریکہ‘‘ کی تختیاں لٹکا دی گئی تھیں یا یہ کہیے کہ اونٹوں کے گلے پر انہیں باندھ دیا گیا تھا۔ آج ہم اپنی ضرورت کی گندم، گنا اور دوسری اجناس پیدا کرتے ہیں، کبھی بے تدبیری کی وجہ سے کچھ درآمد کرنا پڑ سکتا ہے لیکن سات گنا آبادی کا پیٹ بھرنے کا سامان کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کے زرعی امور کے پُرجوش معاونِ خصوصی جمشید چیمہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئندہ چند برسوں میں پیداوار میں اتنا اضافہ کر لیا جائے گا کہ اجناس کو برآمد کرنا پڑے گا۔
پاکستان نے صنعتی، تجارتی، ایٹمی اور طبی شعبوں میں بہت برق رفتاری سے قدم آگے بڑھائے ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی آبادی مسائل پر قابو پانے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد کسی نے خاندانی منصوبہ بندی کی طرف توجہ نہیں دی، آبادی میں اضافے کے لیے طرح طرح کے نعرے ایجاد کرکے قوم کو ورغلایا جاتا رہا۔ افغانستان سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں تو دیواریں یہ لکھ لکھ کر سیاہ کر ڈالی گئی تھیں کہ: بڑا خاندان، جہاد آسان... یعنی زیادہ بچے پیدا کرکے ان کے ایک حصے کو جہادی سرگرمیوں میں لگا دیجیے، اگر شہادت نصیب ہوگئی تو بھی والدین باقی ماندہ سے کام چلا لیں گے، گھر بے چراغ نہیں ہو گا۔ بعض مذہبی رہنمائوں کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا تھا، اور جگہ جگہ دیواروں پر لکھا ملتا تھا کہ ''ایک بچہ دو ہاتھ اور ایک منہ لے کر پیدا ہوتا ہے‘‘... گویا وہ کھانے سے زیادہ کما سکتا ہے۔ ایک بار ایک اعلیٰ سطحی چینی وفد پاکستان آیا تو اس کے سربراہ نے اس سلوگن کا ذکر کیا کہ چین میں بھی اسے لگانے والے کسی نہ کسی حد تک موجود تھے۔ چینی رہنما کا کہنا تھا کہ کوئی ان نعرے بازوں سے پوچھے کہ منہ تو پیدا ہوتے ہی چلنا شروع ہو جاتا ہے، جبکہ ہاتھوں کو کچھ کمانے کے قابل ہونے کے لیے کم از کم بیس بائیس سال لگتے ہیں۔ چین نے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے ایک بچے کی پابندی لگا دی، اب یہ بڑی حد تک نرم ہو چکی ہے، اور دو بچوں کی گنجائش پیدا کر لی گئی ہے، لیکن اگر یہ فیصلہ نہ ہوتا توچین کبھی غربت پر قابو نہ پا سکتا۔ اس کے کمانے والے ہاتھ کھانے والے مونہوں کے مقابلے میں کہیں کم پڑ جاتے۔ پاکستان چین نہیں ہے، لیکن ترغیب و تلقین سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ''بچے دو ہی اچھے‘‘ کے نعرے کو قبول عام مل رہا تھا کہ اس کی ابتدا کرنے والے ہی غائب ہو گئے۔ بنگلہ دیش 1971ء میں پاکستان سے الگ ہوا، تو اس کی آبادی (مغربی) پاکستان سے زیادہ تھی، لیکن آج وہ کہیں کم ہے۔ پندرہ، سولہ کروڑ افراد کے ساتھ وہ چوکڑیاں بھر رہا ہے۔ پاکستان جب تک بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہیں پائے گا، ترقی کے خواب ادھورے رہیں گے۔ آبادی بم، ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہے، اور اِس وقت ہماری (کم از کم) ایک چوتھائی، بلکہ ایک تہائی آبادی ایسی ہے، جس کے لیے نہ سکول ہیں، نہ روزگار، نہ تعلیم ہے، نہ تربیت ہمارے پالیسی ساز لمبی تان کر سورہے ہیں، غیر تعلیم یافتہ اور اَن گھڑت افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ اَن گھڑت کوئی بھی جرم کر سکتے ہیں اور پاکستان کی سماجی زندگی کو تہ و بالا کر سکتے ہیں، بلکہ کر رہے ہیں۔ 15اگست سے شروع ہونے والے سال کو پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کا سال قرار دیا جانا چاہئے، اور اس کا مرکزی نکتہ اگر خاندانی منصوبہ بندی ہو تو ہمارے مستقبل پر خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
پاکستان جب قائم ہوا تو اس کے پاس وسائل کا فقدان تھا۔ بھارتی نیتائوں اور دانشوروں کا خیال تھا کہ چند ماہ میں یہ نیا ملک گھٹنے ٹیک دے گا، اورانڈین یونین میں واپسی کیلئے کوشاں ہو جائے گا، لیکن پاکستان نے حیرت انگیز رفتار سے ترقی کی، اور چند ہی سال کے اندر اندر اپنے وسائل کو منظم کرکے مسائل میں کمی کرکے دکھا دی۔ قومی معیشت کی شرح نمو مثالی ہوگئی، اور بھارت کے مقابلے میں پاکستانی معاشرہ کہیں خوشحال اور باوقار نظر آنے لگا۔ پوری دنیا اس اسلامی جمہوریہ کی کارکردگی کو بنظرِ تحسین دیکھ رہی تھی، اور پاکستان عالمِ اسلام کیلئے مشعلِ راہ بن رہا تھا۔ پاکستان نے مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کو استاد، ڈاکٹر، انجینئر اور معاشی امور کے ماہر فراہم کئے، اس کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے طلبہ اور طالبات پورے عالمِ اسلام اور ترقی پذیر دنیا سے سے آ رہے تھے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا ''لندن‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے مسلم ممالک کی بڑی تعداد کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے، اور اپنے مالیاتی اور کاروباری ادارے کھڑے کرنے میں مدد دی، خود پاکستان بھی اپنے دفاع میں خود کفیل بننے کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول پر مجبور ہوا۔ اس نے اسے حاصل کر کے معجزہ برپا کر دیا، اور دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور، سوویت یونین نے جب افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں تو یہ پوری قوت سے افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ سوویت یونین کو نہ صرف فوجیں واپس بلانا پڑیں، بلکہ اس کا اپنا وجود بھی تحلیل ہو گیا، اس کا وفاق اپنی اکائیوں کو آزاد ہونے سے نہ روک سکا۔
آج جب ہم مستقبل پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں، جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کس سے کہاں، کیا غلطی ہوئی کہ ہم معاشی طور پر وہ کچھ حاصل نہیں کرسکے، جو بہ آسانی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ پوری قوم کو اپنی توانائی اس نکتے پر لگانی چاہئے۔ ہمارے سارے اداروں کو بھی اس پر فوکس کرنا چاہیے، کہ ہم ''ڈی ریل‘‘ کیسے ہوئے، اس کے ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا ہماری گاڑی پٹڑی پر چڑھ چکی ہے، یا ہم ابھی تک ٹامک ٹوئیاں مارنے میں مصروف ہیں۔ سڑک کے بغیر بس اور پٹڑی کے بغیر گاڑی چلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ سوال ہر پاکستانی کو ہر پاکستانی سے، اور اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہئے کہ اسی کے جواب پر ہمارے آئندہ سفر کا انحصار ہے، ہم بگٹٹ دوڑتے رہیں گے، یا واویلا کرتے کرتے ہی سانس پھول جائے گی؟ پاکستان کے دفاعی، عدالتی، احتسابی، انتظامی اور قانون ساز اداروں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک آمدنی اخراجات کے مطابق نہیں ہو گی، مستقبل محفوظ نہیں ہو گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اورروزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)