ملٹری سکیورٹی بیرونی فوجی خطرات کے خلاف قومی سلامتی کو مضبوط بنانے کا ایک تسلیم شدہ طریقہ ہے۔ اس میں مکمل یا جزوی بیرونی جنگ کے خلاف ریاست کی علاقائی حدود کی حفاظت کے ساتھ ساتھ زمانۂ امن میں سرحدوں کے آرپار لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت کی انتظام کاری بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومیں ہمیشہ پیشہ ور اور تربیت یافتہ فوج بنانے کو اولین ترجیح دیتی ہیں جو ایک خاص وقت پر معیاری ہتھیاروں کے نظام سے مکمل طور پر لیس ہو۔ ہتھیاروں کی اپ گریڈیشن اور تکنیکی ترقی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کو سکیورٹی کے روایتی تصور کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ تصور ایک پیشہ ور اور مضبوط ملٹری فورس کے قیام کو سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ پیشہ ورانہ طور پر مضبوط فورس دورانِ سروس ٹریننگ اور حوصلہ افزائی پر توجہ دینے سے ہی برقرار رہتی ہے۔ تربیت اور حوصلہ افزائی سے فوجی اہلکاروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے جو مشکل ترین حالات کا سامنا کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ملٹری سکیورٹی آج بھی ریاستی سلامتی کے نظام کی پہچان ہے؛ تاہم، قومی سلامتی ملٹری سکیورٹی تک محدود نہیں۔ کئی دوسرے عوامل بھی براہ راست اور بالواسطہ قومی سلامتی کو متاثر کرتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر قومی سلامتی کا تصور وسیع تر ہو چکا ہے۔ اب ہم سکیورٹی کے بارے میں ایک جامع نقطہ نظر اپناتے ہیں جس میں فوجی اور غیرعسکری عوامل شامل ہیں۔ کسی ملک کی نان ملٹری قومی سلامتی کی پہلی بڑی توجہ سماجی و سیاسی صورتحال پر ہوتی ہے۔ سیاسی و سماجی ہم آہنگی یا تنازع کی نوعیت کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ سیاسی اور سماجی ماحول عام طور پر پُرامن اور ہم آہنگ ہے یا ملک نسلی، مذہبی اور سیاسی تنازعات کا شکار ہے۔ یہ سب عوامل قومی سلامتی کے لیے مضمرات رکھتے ہیں کیونکہ داخلی سلامتی اتنی ہی اہم ہے جتنی بیرونی سلامتی۔
ملک کی اصل طاقت اندرونی ہم آہنگی اور معاشرتی امن سے آتی ہے۔ اس بات سے کہ اگر کسی معاشرے کو نسلی، علاقائی یا کسی اور قسم کے تنازعات کا سامنا ہے تو ان تنازعات کو پرامن طریقے سے قابو میں رکھنے اور حل کرنے کی اس کی صلاحیت کیا ہے؟ یہ جانچ بھی کی جاتی ہے کہ آیا قانون کی حکمرانی مکمل طور پر قائم ہے، اور عدالتیں سماجی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے آزادانہ کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح سیاست کی نوعیت بھی بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی ریاست کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن کے مابین تعلقات انتہائی تلخ اور جمہوری شائستگی سے خالی ہوں تو داخلی سیاسی تنازعات شدت اختیار کر جاتے ہیں اور سیاست اقتدار کے حصول کیلئے ایک وحشیانہ جدوجہد بن جاتی ہے۔ اس طرح کی پریشان کن سیاست گورننس اور سیاسی انتظام پر منفی اثر ڈالتی اور سیاسی غیر یقینی کی صورتحال پیدا کرتی ہے۔ پاکستان کی داخلی سیاست قومی استحکام اور اچھی حکمرانی کیلئے غیرسازگار ہے۔ اپوزیشن اور پی ٹی آئی حکومت‘ دونوں کسی بھی قیمت پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسی صورتحال حکومت کے سماجی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کو کم کرتی ہے اور معاشرے کو بیرونی مداخلت کیلئے سازگار بنا دیتی ہے۔
ہمارے ملک میں سیاسی پولرائزیشن کی ایک اور منفی جہت ہے جو بیرون ملک پاکستان کے امیج کو متاثر کر رہی ہے۔ کچھ اپوزیشن گروپ حکومت کے ساتھ اپنی سیاسی لڑائی کو بین الاقوامی سطح تک لے گئے ہیں۔ وہ بیرونی ممالک میں پاکستانی حکومت کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ یہاں نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی قانون کی حکمرانی‘ اور یہ کہ پاکستان میں اظہارِ رائے اور عدل کی بھی آزادی نہیں۔ یہ کہ پاکستان پی ٹی آئی کی حکومت کے تحت ایک جابرانہ ریاست بن چکا ہے۔ بیرون ملک کچھ پاکستانی گروپوں کی طرف سے پھیلائے گئے اپوزیشن کے یہ دلائل پاکستان کے مخالفین‘ جیسے بھارت‘ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف اپنی منفی مہم پاکستان کے اندر تک محدود رکھے۔ داخلی سیاسی لڑائیوں کو بین الاقوامی سطح پر لے جانا ریاست کی ساکھ اور امیج کو خراب کرتا ہے۔ ریاست کے مفادات کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔
قومی سلامتی کی ایک اور داخلی جہت معیشت ہے۔ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار غیرملکی ذرائع پر ہے، یعنی قرضے اور گرانٹس، بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر اور بانڈز کی فروخت کے ذریعے فنڈز اکٹھے کرنا۔ پاکستان کا تجارتی توازن ملک کے حق میں نہیں ہے۔ خوراک کے طورپر استعمال ہونے والی اشیا کی درآمد میں اضافہ ہوا ہے، حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ معیشت کی ایک اور جہت انسانی فلاح اور انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ دونوں شعبوں میں ہماری کارکردگی خراب رہی ہے۔ داخلی سیاسی تضادات اور معاشی کمزوریاں ریاست کو بیرونی مداخلت کا شکار بنا دیتی ہیں۔ دوسروں پر معاشی انحصار کسی ملک کی خارجہ پالیسی‘ اور قومی سلامتی کے اختیارات کو محدود کرتا ہے۔
مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجیز میں تیزی سے ترقی، خاص طور پر انٹرنیٹ پر مبنی مواصلاتی نظام، قومی سلامتی کیلئے نئے چیلنجز کھڑے کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مبنی مواصلاتی نظام‘ دونوں کسی ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈے کیلئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ہمارے مخالفین بیرونِ ملک پاکستان کا امیج خراب کرنے کیلئے جعلی خبریں اور مسخ شدہ معلومات پھیلاتے ہیں۔ ایسے کافی شواہد دستیاب ہیں جو بتاتے ہیں کہ بھارت اور افغانستان میں قائم سائبر نیٹ ورکس سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے امیج اور ساکھ کو مجروح کرنے کے مقصد کے تحت جھوٹی اور بے بنیاد کہانیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ایسی ویب سائٹس اور معلومات کو مختلف انٹرنیٹ پلیٹ فارمز پر بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ بیرون ملک پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنا بھی وقت کا تقاضا ہے۔ ہر پاکستانی جو جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سمجھتا ہے‘ اسے پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگرکرنے کیلئے اسے استعمال کرنا چاہئے۔ یہ عمل قومی سلامتی کو مضبوط بنانے میں معاون ہوگا۔
آج کے بین الاقوامی نظام میں، عالمی سطح پر پاکستان کی سافٹ امیج بلڈنگ سفارتکاری میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور قومی سلامتی کے تقاضے پورے کر سکتی ہے۔ یہ نرم امیج پاکستانی ثقافتوں کے تنوع و کثرت، اہمیت کے حامل ورثے جیسے وادیٔ سندھ کی تہذیب، مہر گڑھ ورثہ، فن اور فنِ تعمیر اور دیگر انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں اجاگر کرنے سے بن سکتا ہے۔ پاکستان کو مذہبی اور ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ بدھ مت اور سکھ مت کے اہم ورثے پاکستان میں ہیں۔ کچھ اہم ہندو مندر پنجاب اور سندھ میں ہیں۔ ان کی پروجیکشن پاکستان کا سافٹ امیج بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ کرتارپور راہداری، جس کا 2019 میں افتتاح کیا گیا، نے بیرون ملک پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں مدد دی۔ پاکستان کا امیج اس وقت بری طرح متاثر ہوتا ہے جب یہاں اقلیتوں کو کسی بھی حوالے سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کے دشمن ایسے واقعات کو بنیاد بناکر ہمارے ملک کو ایک عدم برداشت والے معاشرے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
آج، قومی سلامتی ایک پیچیدہ معاملہ بن چکی ہے اور اس کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جس میں ریاستی ادارے اور سرکاری اور غیر سرکاری عمل شامل ہوں۔ روایتی ملٹری سکیورٹی کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور سویلین عمل کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہر شہری، عمر، جنس اور پیشے سے قطع نظر قومی سلامتی سے متعلق ہے۔