25 جولائی کو آزاد کشمیر میں تبدیلی آ گئی۔ تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر پونچھ سے ممبر اسمبلی منتخب ہونے والے عبدالقیوم نیازی وزیراعظم آزاد کشمیر کے طور پر حلف اٹھا کر اپنی حکومت قائم کرچکے ہیں۔ اس کے بعد سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں بھی تحریک انصاف نے میدان مارلیا اور مسلم لیگ (ن) سے ان کی پکی سیٹ چھین لی۔ ان دو کامیابیوں کے بعد عمران خان اور ان کی ٹیم کا سیاسی مورال کافی بلند نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کے موڈ کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کا پاور پلے شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دوسری طرف اگر اپوزیشن کی بات کی جائے‘ جو کبھی پی ڈی ایم کی صورت میں کسی حد تک متحد تھی‘ تو اس کا شیرازہ اب بکھرا نظر آرہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا نہ صرف حصہ تھی بلکہ اگر اس کو اپوزیشن اتحاد کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ہی پی ڈی ایم کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ پھر مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات اتنے بڑھے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے ہی نکال دیا گیا۔ اس ساری صورتحال میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ اپوزیشن کرنے کیلئے ان کی جماعت اکیلی ہی کافی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی بات کریں تو سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کا ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں ووٹروں کو رام نہیں کرسکا۔ مسلم لیگ (ن) میں مفاہمت کا بیانیہ چلے گا یا مزاحمت کا‘ ابھی تک یہی طے نہیں ہو پا رہا۔ اس صورتحال میں اس جماعت کا ووٹر ہی نہیں بلکہ اس کے سپورٹرز اور ٹکٹ ہولڈرز بھی پریشان ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی سیاسی محاذ پر کچھ خاص سرگرم نہیں۔ اپوزیشن کی حالیہ کارکردگی دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے وہ اگلے مورچے چھوڑ کر پسپائی اختیار کرچکی ہے۔ اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے میدان سیاست میں پیش قدمی کا فیصلہ کیا ہے۔ کپتان اور ان کی ٹیم‘ دونوں فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنے کی مکمل تیاری کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس بات کے اشارے حالیہ کچھ ملاقاتوں اور بیانات سے بھی واضح ہیں۔
پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ہر جگہ تحریک انصاف اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑچکی۔ اپوزیشن اگرچہ تحریک انصاف کی ان کامیابیوں کے ڈانڈے کہیں اور ملاتی ہے؛ تاہم اگر آن گرائونڈ سیاسی منظرنامے پر نگاہ ڈالیں تو تحریک انصاف کیلئے صرف ایک محاذ فتح کرنا ہی باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے سندھ کا۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابی پر تحریک انصاف نے جہاں جیت کی خوشی میں شادیانے بجائے وہاں کپتان نے سندھ کیلئے بھی طبل جنگ بجادیا۔ وزیراعظم متعدد بار واضح کرچکے ہیں کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اگرچہ اپنے اس نعرے اور دعوے کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام ہیں پھر بھی وہ مسلسل یہی بیانیہ اپنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنی ٹیم کو ٹاسک دیا ہے کہ سندھ حکومت کی بیڈگورننس اور کرپشن کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ سندھ کے سیاسی محاذ کو فتح کرنے کیلئے اس بار انہوں نے ارباب غلام رحیم کو بھی بطور اوپننگ بیٹسمین اپنی ٹیم میں سلیکٹ کرلیا ہے۔ ناقدین اگرچہ اس کھلاڑی کو ایک چلا ہوا کارتوس قرار دیتے ہیں؛ تاہم کپتان اس کھلاڑی سے اتنے متاثر نظر آتے ہیں کہ ٹیم میں جگہ بنتے ہی ارباب غلام رحیم کو اپنا معاون خصوصی بھی بنا لیا۔ اب یہ حکمت عملی میں اسی تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ کپتان کے کھلاڑیوں نے کورونا ویکسی نیشن اور لاک ڈاؤن کے معاملے پر سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تحریک انصاف کی اتحادی ایم کیو ایم بھی کراچی میں لاک ڈاؤن کے مقابلے پر تاجروں کے ساتھ کھڑی سندھ حکومت پر تنقید میں مصروف ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ سندھ حکومت گورننس میں ناکام ہو چکی‘ صوبے میں 2008ء کے بعد سے مسلسل حکومت کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی‘ عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام رہی۔ سندھ کے عوام کو صحت کی سہولیات میسر ہیں نہ معیاری تعلیم‘ روزگار کے مواقع بھی نہیں۔ تحریک انصاف کا سندھ میں متوقع بیانیہ بھی ان باتوں پر ہی مشتمل ہوگا‘ جبکہ ان کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم اور صوبے میں دیگر حلیف شہری اور دیہی سندھ کی سیاست میں فرق کو بنیاد بناکر پیپلز پارٹی کو نشانے پر رکھنا چاہیں گے۔ ''ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کے نعروں میں پیپلز پارٹی کو یہ لڑائی اکیلے ہی لڑنا ہے۔ سابق آصف علی زرداری ماضی میں ملکی سیاست کے اہم مواقع پر اکثر خود کو بھاری ثابت کر بھی چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت کا دفاع کرنے اور اگلے عام انتخابات میں وفاق اور خصوصاً جنوبی پنجاب میں اپنی جگہ بنانے کیلئے ان کے ترکش میں کتنے تیر باقی ہیں۔ کیا وہ مقتدرہ کے ساتھ کوئی ڈیل کر چکے ہیں یا پھر وہ بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں ایک اچھا متبادل تیار کررہے ہیں؟ آنے والے چھ ماہ اس حوالے سے نہایت اہم ہوں گے۔
اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے واپس آتے ہیں مسلم لیگ (ن) کی طرف۔ مریم نواز شریف جلسوں اور ریلیوں میں یقینا عوام کی بڑی تعداد کو باہر نکالنے میں تو کامیاب رہی ہیں لیکن محض مزاحمت کا بیانیہ آنے والے وقت میں ان کی جماعت کو کتنا آگے لے کر جاسکتا ہے‘ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ یہی سوال اب مسلم لیگ (ن) میں ان کی جماعت کے مختلف حلقوں کی طرف سے کیا جانے لگا ہے۔ شہباز شریف ہمیشہ سے مفاہمت کے قائل رہے ہیں۔ وہ ہر مشکل وقت میں پارٹی کی بڑی تعداد کو نہایت کامیابی کے ساتھ اپنا ہم خیال بنا کر رکھنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ اپنی انہی خوبیوں اور ماضی کی کارکردگی کے باعث ان کو طاقتور حلقوں تک رسائی بھی حاصل ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق میاں شہباز شریف ہی وہ شخصیت ہیں جو اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی غیر موجودگی میں اپنے مفاہمتی بیانیے کے ساتھ سب کیلئے قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید شاید اسی صورتحال کی بنا پر ایک عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ ن میں سے ش نکلے گی۔ دوسری جانب مریم نواز جب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتی ہیں تو حکومتی حلقے سوال اٹھاتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرنے والے انتخابی اصلاحات کی طرف کیوں نہیں آتے؟ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا نظام لایا جائے۔ ووٹ کو عزت دو کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ اپوزیشن حکومت کی ان انتخابی اصلاحات کو مستقبل میں ممکنہ دھاندلی کا پروگرام قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے۔ اب وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ انہوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ نواز شریف‘ مولانافضل الرحمن اور مریم نواز غیر منتخب نمائندے ہیں۔ حکومت انتخابی اصلاحات پر صرف پارلیمان میں موجود نمائندوں سے بات کرے گی۔ حکومت نے انتخابی اصلاحات کیلئے 49 تجاویز پیش کی ہیں جو حتمی نہیں‘ ان پر بات ہوگی۔ فواد چودھری کا یہ پیغام پہلے سے منتشر اور منقسم اپوزیشن کو یقینا مزید تقسیم کرتا نظر آرہا ہے۔ سیاسی منظرنامے پر تحریک انصاف کی نئی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے تو سیاسی طور پر اسے چیلنج کرنے والا بظاہر کوئی حریف باقی نہیں رہے گا؛ تاہم تحریک انصاف کیلئے اصل چیلنج اپنی جگہ باقی ہیں جن میں معیشت کی بہتری‘ تعلیم اور صحت کی مناسب سہولیات کی دستیابی اور عام آدمی کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہیں۔ سیاسی مخالفین کو شکست دینا یقینا تحریک انصاف کی بڑی کامیابی ہے؛ تاہم اصل تبدیلی تب آئے گی جب تبدیلی سرکار عوام کو ڈلیور کرنے میں بھی کامیاب ہو گی۔ عوام تین سال بعد بھی اس تبدیلی کے منتظر ہیں۔