14 اگست کے دن بہت خیال آتا ہے کہ کاش ٹائم مشین ہوتی تو بہت سے زہریلے پروپیگنڈوں، شبہات اور جھوٹے دعووں کے جواب زبانی نہیں عملی طور پر دئیے جاتے۔ زمان اور مکان سائنس دانوں کے خاص موضوعات رہے ہیں۔ خیال آتا ہے کہ ٹائم مشین محض خوابی دنیا کی ایک لذیذ چیز سہی، اس کا وجود محض دماغ، کاغذ اور چاندی کی سکرین پر سہی لیکن جی کے بہلانے کیلئے ایک نہایت عمدہ خیال ہے۔ وقت کے بُعد کو مسخر کرلینے والا گھوڑا۔ آپ ماضی اور مستقبل میں جہاں جانا چاہیں چشم زدن میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ مشین وجود رکھتی تو زمانے کے کتنے ہی اختلافات نمٹ چکے ہوتے۔ آج 14 اگست کے دن جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں، میرا اسی سفر پر جانے کا ارادہ ہے۔ آپ بھی تخیل کی ٹائم مشین پر میرے ساتھ جم کر بیٹھئے۔ مشاہدے کیلئے آنکھیں ہیں، سوچنے کیلئے دماغ اور محسوس کرنے کیلئے دل۔ یہ زاد راہ بہت کافی ہے۔
یہ 1947 کا پاکستان ہے۔ نومولود مملکت کا ابھی نظم سنبھالا ہی جارہا ہے۔ آغازِ سفر میں بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔ ہر مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ لٹے پٹے اور کٹے پھٹے مہاجرین کا ایک سیلاب پنجاب کے میدانوں اور سندھ کے ریگستانوں سے ملک میں مسلسل داخل ہورہا ہے۔ ہر ریل گاڑی اور ہر قافلے کے ہاتھوں میں لاشیں ہیں۔ جو کسی طرح پہنچ گئے ہیں ان کو ٹھکانہ بھی چاہیے اور آب و دانہ بھی۔ ایک سیلاب ہے جو شہروں قصبوں اور دیہات میں کہیں نہ کہیں گھر کرنا چاہتا ہے۔
گورنر جنرل قائد اعظم ہیں اور وزیرِ اعظم لیاقت علی خان۔ کمانڈر انچیف ایک برٹش گورا جنرل گریسی ہے جو گورنر جنرل اور وزیرِ اعظم کی طرف نہیں بلکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف دیکھتا ہے۔ مسلح افواج کے لیے مسلح ایک مبالغہ آمیز لفظ ہے۔ اسلحہ ساز فیکٹریاں توکجا، اسلحہ ہی نہیں ہے۔ جو ریاست کے حصے کا اسلحہ ہے وہ بھارت میں ہے سو وہ آکر نہیں دے رہا۔ اکثر افسران اور فوجی دوسری جنگِ عظیم کے پروردہ ہیں۔ اعلیٰ افسران سینڈ ہرسٹ کے تعلیم یافتہ ہیں۔ پاکستان کے اندر کمیشنڈ افسر صفر بٹا صفر ہیں۔ خزانہ خالی ہے۔ تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں۔ جو پیسہ ملک کے حصے میں آیا تھا وہ بھارت کے قبضے میں ہے اور وہ آہی نہیں چکتا تھا۔ حتیٰ کہ گاندھی جی کو اس کے لیے مرن برت رکھنا پڑجاتا ہے۔ صنعتیں برصغیر کے اس حصے میں نہ ہونے کے برابر تھیں اس لیے ہر چیز کی کمی بلکہ قحط ہے۔ پھل تک باہر سے آتے ہیں۔ سنگترا ناگ پور سے، لیچی دہرہ دون سے اور آم یوپی کے دیگر شہروں سے آتے ہیں۔ دفتروں میں کاغذات نتھی کرنے کے لیے کیکر، ببول کے کانٹے استعمال ہورہے ہیں کیونکہ کامن پن موجود نہیں ہے۔ کپڑا اور سگریٹ ولایت اور دساور سے آتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کی نجی ایئرلائن اوریئنٹ ایئرویز ترقی پاکر پی آئی اے بننے والی ہے۔ کھڑکھڑاتے وائی کاؤنٹ طیارے اس کی قیمتی ترین متاع ہیں۔ جونا گڑھ، حیدرآباد اور کشمیر پر بھارت کی نظریں ہیں۔ ملک کے مشرقی اور مغربی بازو میں ایک ہزار میل کا فاصلہ حائل ہے لیکن یہ فاصلہ ہے‘ بعد میں پیدا ہونے والی خلیج نہیں۔
یورپ، خلیجی ممالک، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں ابھی پاکستانیوں نے بستیاں بسانی شروع نہیں کیں؛ چنانچہ اس ضمن میں باہر سے آنے والا زرِ مبادلہ صفر ہے۔ مرکزی قائدین ابھی زندہ ہیں سو سیاسی‘ عسکری اور تجارتی طالع آزماؤں نے ابھی پاؤں پھیلانے شروع نہیں کیے۔ کراچی کی سڑکوں پر ٹرام چلتی ہے اور وکٹوریہ اور بگھیاں دوڑتی ہیں۔ لاہور میں تانگے چلتے ہیں یا اپنی ٹانگوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ خال خال کوئی موٹرکار مال روڈ پر نظر آجاتی ہے۔ ساہیوال ابھی منٹگمری ہے۔ لائل پور ابھی فیصل آباد نہیں بنا اور اٹک ہنوز کیمبلپور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سب اچھا تو صرف بہشت میں ہوتا ہے یہ ملک بہرحال بہشت نہیں ہے۔ پھر بھی ایک جذبۂ تعمیر دیکھنے کیلئے کسی خاص عینک کی ضرورت نہیں۔ یہ 1947کا پاکستان ہے۔
شاید آپ تھک گئے ہیں۔ تو چلیے واپس اپنے زمانے کی طرف چلتے ہیں۔ یہ 2021 کا پاکستان ہے۔ ملک بہت سے سانحوں کے بعد مشرقی بازو کھو چکا ہے۔ کئی جنگوں اور آزمائشوں سے گزر کر بہت سے تلخ تجربے حاصل ہوچکے ہیں۔ ملک کو ایٹمی طاقت بنے چونتیس سال اور ایٹمی دھماکے کیے 23 سال ہوچکے ہیں۔ مسلح افواج دنیا کی بہترین تربیت یافتہ عسکری قوتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ اسلحہ اور گولہ بارود میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ برآمد کرتا ہے۔ جوہری میزائلوں سمیت دس کلومیٹر سے لیکر سات ہزار میل تک رسا ہونیوالے ہر طرح کے میزائلوں کا کامیاب تجربہ کرچکا ہے۔ ایف سیون تھنڈر طیارہ اور مشاق طیاروں میں خود کفیل ہونے کے بعد بہت سے ممالک کے آرڈرز پورے کیے جارہے ہیں۔ افواج کے سربراہ اور اعلیٰ افسران اب بہت سالوں سے ان نسلوں پر مشتمل ہیں جنہوں نے پاکستان میں آنکھ کھولی اور پاکستان ہی میں کمیشن حاصل کیا۔ اب انکی اعلیٰ تربیت کیلئے بھی یہیں بیشتر انتظام ہے۔ تعمیر جاری ہے۔ غالب کے الفاظ میں اس تعمیر میں خرابی کی ایک نہیں کئی صورتیں مضمر ہیں اور چوہتر سال کے سفر میں بہت سی منفی تبدیلیاں بھی آچکی ہیں لیکن یہ الگ موضوع ہے۔ ایک علیحدہ تحریر اس کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے آج نگہ مثبت رخ پر رکھتے ہیں۔
سی پیک کا کامیابی سے آغاز ہوچکا ہے۔ کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور کئی آخری مراحل میں ہیں۔ دنیا کی نگاہیں اس پرمرکوز ہیں۔ دوردراز علاقوں تک بل کھاتی سڑکیں اب پہنچ چکی ہیں اور تیز رفتار سفر کیلئے کئی شاہراہیں وجود میں آچکی ہیں۔ اگلے چند سالوں میں یہ کام بہت آگے بڑھ چکا ہوگا۔ پاکستانی ڈاکٹروں‘ انجینئروں نے یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت ہر جگہ اپنے ہنر کو منوا کر نمایاں جگہیں حاصل کرلی ہیں۔ ہنرمندوں، کاریگروں اور مزدوروں نے خلیجی ممالک کی ریت سے سبزہ زار اگائے ہیں۔ یہ سب مل کر پاکستان میں لگ بھگ سالانہ پندرہ ارب ڈالرز کا زرِمبادلہ بھیجتے ہیں۔ ملک سالانہ چالیس ارب ڈالر کے لگ بھگ برآمدات کرتا ہے۔ شرح خواندگی اوپر آئی ہے اور افلاس کی سطح (poverty line) بین الاقوامی معیار کے مطابق پہلے سے کم رہ گئی ہے۔ شہروں میں فٹ پاتھ پرمستقل بسیرا کرنے والے نہیں ملتے اور ایسے لوگ ہمسایہ ملک کی نسبت کم کم ہیں جو رات کو بھوکے سوتے ہوں۔ یہ قوم دنیا کی مخیّر ترین قوموں میں گنی جاتی ہے۔ خوش رہنے والی قوموں کی درجہ بندی میں اپنے ہمسایوں سے بہت بہتر ہے۔
پاکستانی باسمتی چاول اپنی خوشبو اور ذائقے کے باعث دنیا بھرمیں منفرد اور مقبول ہے۔ ثمر بہشت‘ چونسہ اور انور رٹول نامی آم دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ پاکستانی کنّو روس، یورپ، خلیجی ممالک اور ایران میں اپنا کوئی مدمقابل نہیں رکھتا۔ کپاس، سوت، دھاگے سے بنی ہوئی اشیا ڈھیروں ڈھیر برآمد ہوتی ہیں۔ لباس کی مختلف اقسام پوری دنیا میں بھیجی جارہی ہیں۔ پاکستانی فٹبال دنیا بھرکے ممالک میں گھومتا پھرتا ہے اور دیگر کھیلوں کا سامان بھی اس کی ہمسفری میں ہے۔ مشینری، فرنیچر، ہینڈی کرافٹ، سنگِ مرمر کا معیار بلند ہے۔ شکرساز کارخانے...
لیکن ٹھہریے۔ ایک ٹی وی چینل پر مباحثے میں شریک ایک بزرجمہر زورشور سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے۔ ایک اخباری دانشور نے لکھا ہے کہ ہم آزادی کے وقت جہاں کھڑے تھے وہاں سے ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکے۔ ایک سقراطِ وقت کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ اور اجتماعی عمل ناکامی سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک بقراطِ عہد... ان سے بحث کیا کرنی۔ اتنا فالتو وقت کہاں سے لائیں۔ کیا ایسا نہ کریں کہ کچھ دن کے لیے انہیں اپنی ٹائم مشین ادھار دے دیں۔ یقین جانیے ان ایک انچ آگے نہ بڑھ سکنے والے ناکام دانشوروں کو اس کی شدید ضرورت ہے۔