تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-08-2021

تلوار کی دھار

ایک زمانے سے سنتے آئے تھے اور پھر ریاضی کے اصولوں کے مطابق دیکھ بھی لیا کہ منفی اور منفی مل کر مثبت بن جاتے ہیں۔ اے کاش کہ یہ اصول ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی پر بھی اطلاق پذیر ہوتا۔ اگر ایسا ہوا کرتا تو دو خرابیاں مل کر ایک خوبی بن جاتیں اور زندگی آسان ہو جاتی۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہر برائی اور خرابی کے بطن سے مزید برائیاں اور خرابیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ الجھنوں کا مینا بازار لگا ہوا ہے۔ معاملات انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں ہی سطحوں پر اس قدر پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ زندگی کو تباہی سے بچانے کا عمل انتہائی جاں گُسل ہوچکا ہے۔ ایک طرف پاکستان کے معاملات خرابی کا شکار ہیں اور دوسری طرف افغانستان میں بھی مزید خرابیوں کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ ریاضی کے اصول کی بنیاد پر تو دونوں ممالک کی خرابیوں کو مل کر مثبت نتائج پیدا کرنے چاہئیں مگر صاحب! ہمارے ایسے نصیب کہاں؟ ہماری قسمت میں تو یہی کچھ لکھا ہے۔ دل چاہے کہ نہ چاہے‘ جو کچھ ہے اور ہو رہا ہے وہ تو جھیلنا ہی پڑے گا۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے‘ وہ مزید الجھانے والا ہے۔ وہاں کی بدلتی ہوئی صورتِ حال ہمارے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہم اِس گھنٹی کی آواز سُن رہے ہیں مگر اصلاحِ احوال پر متوجہ ہونے کے بجائے محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
افغانستان ایک زمانے سے کھیل کا میدان ہے۔ اب ایک بار پھر اس میدان کو سجایا جارہا ہے۔ چار عشروں سے زیادہ مدت ہونے کو آئی ہے کہ اس ملک کے حالات نے پورے خطے کو شدید الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ افغانستان کے ہاتھوں پریشانیاں تو خطے میں سبھی کے حصے میں آئی ہیں مگر پاکستان اس معاملے میں بازی لے گیا! ہم چار عشروں سے بھی زائد مدت سے افغانستان کی صورتِ حال کے ہاتھوں کسی نہ کسی شکل میں پریشانی جھیل رہے ہیں۔ سوویت لشکر کشی کے بعد افغانسان میں مزاحمت شروع ہوئی تو اُس کے لیے ہماری سرزمین استعمال کی گئی۔ پاکستان نے سوویت قبضے کے دوران افغانستان میں مجاہدین کی بھرپور حمایت و مدد کی اور وہاں سے آنے والے تیس لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کی میزبانی بھی کی۔ یہ میزبانی ہمیں کتنی مہنگی پڑی ہے‘ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں۔ افغانستان کے معاملات میں (خواہ نہ چاہتے ہوئے بھی) ملوث ہونے پر پاکستان کو معاشی اور معاشرتی اعتبار سے انتہائی نوعیت کا نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے سوویت یونین سے انتقام لینے کے لیے پاکستان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ سوویت یونین کو گرم پانیوں تک رسائی درکار تھی۔ افغانستان پر لشکر کشی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ پاکستان کو استعمال کرکے مغربی طاقتوں نے سوویت یونین کی پیش قدمی کامیابی سے روکی۔ پاکستان کو بیس کیمپ کے طور پر بروئے کار لا کر مغربی طاقتوں نے سوویت یونین کو شکست دی اور پھر یہ سپر پاور شکست و ریخت کے مرحلے سے بھی گزری۔ کئی عشروں سے کیفیت یہ ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی حاشیہ بردار جب چاہتے ہیں، پاکستان کو اپنی مفادات کی تکمیل و تحفظ کے لیے استعمال کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں اور بعد میں پاکستان سے یوں منہ موڑ لیتے ہیں کہ جیسے کبھی آشنائی ہی نہ تھی۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں جو ڈرامہ رچایا گیا‘ اُس نے ایک بار پھر ہمیں شدید نوعیت کی الجھنوں سے دوچار کیا۔ افغانستان میں جو کچھ کیا جارہا تھا ہم چونکہ اُس میں سہولت کار تھے اس لیے حالات کی خرابی کا خمیازہ ہمیں بھی بھگتنا پڑا۔ افغانستان تباہ ہوا تو دہشت گردی کی لہر پاکستان تک بھی پہنچی۔ مغربی اتحاد کا ساتھ دینے کی پاداش میں شدید ردِعمل کا ہمیں بھی سامنا کرنا پڑا۔
اب پھر افغانستان کو زیادہ جوش و خروش اور تیاریوں کے ساتھ وار تھیٹر بنایا جارہا ہے۔ امریکا یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ افغانستان سے جان چھڑا رہا ہے مگر در حقیقت وہ مزید خرابیوں کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ پاکستان تو اس عمل میں اب کوئی فعال کردار ادا نہیں کرسکتا۔ ایسے میں بھارت کو ساتھ ملاکر کچھ نیا اور زیادہ تباہ کن کرنے کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ بھارت ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے افغانستان میں قدم جمانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کی قیادت اس حقیقت کے ادراک سے قاصر ہے کہ افغانستان اس کے بس کی بات ہی نہیں۔ طالبان کے حوالے سے کوئی کچھ کہے‘ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ انہوں نے مغربی قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے سینہ سپر ہونے کو ترجیح دی ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ طالبان بھارت کو کیوں خاطر میں لائیں گے۔ افغانستان میں طالبان نے غیر معمولی تیزی سے بہت سی فتوحات حاصل کی ہیں۔ یہ فتوحات انتہائی حیرت انگیز ہیں۔ یہ سب کیسے ہوگیا، اس کے حوالے سے کوئی بھی درست اندازہ لگانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں کوئی ایسا کھیل شروع کیا جارہا ہے جو پورے خطے کے لیے زیادہ بڑا دردِ سر بن سکتا ہے۔ بھارت کا اس پورے قضیے میں ملوث ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ یہ اطلاعات آتی رہی ہیں کہ بھارت نے افغانستان کے کئی علاقوں میں اپنے حاشیہ برداروں کو اسلحہ دیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی بھارتی قیادت نے افغانستان کے حوالے سے سفارتی و عسکری مہم جُوئی ترک نہ کی تو خطے میں کوئی نئی اور بڑی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اب افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر کسی حملے میں بھارتی کردار ثابت ہوگیا تو کیا ہوگا۔ ایسے میں پاکستان کے پاس کون سا آپشن بچے گا؟ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ انخلا مکمل کرنے کے بعد بھی افغانستان کے لیے امریکی عسکری کردار کیا ہوگا اور وہ بھارت کو کس حد تک اپنے ساتھ رکھے گا۔ البتہ امریکا اور بھارت کے رابطے نمایاں ہیں۔ اس کے جواب میں طالبان نے بھی چین اور روس سے رابطہ کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ ترکی پہلے ہی افغانستان کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ترک قیادت اس حوالے سے واضح اشارے دے چکی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی پیچیدہ صورتِ حال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ پاکستان کے لیے آپشنز کم ہیں۔ افغانستان میں ''تزویراتی گہرائی‘‘ پیدا کرنے کی ہماری کوششیں کبھی کامیاب رہی ہیں اور کبھی ناکام۔ یہ پالیسی بہت سے خرابیوں کی راہ ہموار کرنے کا سبب بھی بنی ہے۔ اب ایسا کچھ بھی کرنے کی کچھ خاص گنجائش نہیں۔ طالبان کے حوالے سے بھی دنیا ہمیں ایک خاص نظر سے دیکھتی ہے اور ہم اب تک اس حوالے سے دنیا میں اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکے ہیں۔ اب اس معاملے میں ہمیں مزید احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی اور سٹریٹیجی تیار کرنے کے حوالے سے یہ پاکستان کے لیے بہت نازک وقت ہے۔ افغانستان کی صورتحال تلوار کی دھار پر چلنے جیسا معاملہ بن چکی ہے۔ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو کچھ بھی کرنا ہے پورے تحمل اور احتیاط کے ساتھ کرنا ہے۔ افغانستان کی صورتحال خطے کے تمام ممالک کیلئے مشکلات پیدا کر رہی ہے مگر ہمارا معاملہ زیادہ الجھا ہوا ہے۔ ہمیں ایک طرف امریکا سے معاملات درست رکھنے ہیں، دوسری طرف چین کا بھی خیال رکھنا ہے اور تیسری طرف ''مہا راج‘‘ کے لیے بھی تیار رہنا ہے۔ افغانستان کی آگ میں بھارتی قیادت کسی جواز کے بغیر کود رہی ہے۔ جواز تو امریکا کے پاس بھی نہیں تھا مگر وہ اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا تھا۔ وہ بڑی چھلانگیں لگاسکتا ہے۔ بھارت تو ابھی پھدکنے کی منزل میں ہے۔ اُس کی روش خطرناک ہے کیونکہ کوئی معمولی سی مہم جُوئی بھی معاملات کو کچھ کا کچھ بناسکتی ہے۔ پاکستان کو تلوار کی دھار پر چلنا ہے اور کامیابی سے چلنا ہے۔ ملکی قیادت کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری سے کماحقہٗ عہدہ برآ ہونا لازم ہے۔ قوم علاقائی مناقشوں کا مزید خمیازہ نہیں بھگت سکتی۔ یہ وقت مکمل ہوش و حواس کے ساتھ فیصلے کرنے کا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved