تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     15-08-2021

جبر کانظریہ

جارحیت ایک عادت، دھمکی ایک حربہ، طاقت ایک رویہ اور جبر ایک نظریہ ہے۔ کوئی شخص بھی بھارت میں ہونے والی بربریت سے محفوظ نہیں۔ تنظیموں سے لے کر کارکنان، این جی اوز، میڈیا، کرکٹرز، سپورٹس مین‘ سب کو ایک جیسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ہر سوال اٹھانے والا اور مخالفت کرنے والا توہین، تشدد، دھونس دھمکی کی زد میں آ جاتا ہے۔ ذہنی اور اخلاقی پستی کی انتہا کا تصور کریں۔ جنوبی افریقہ کا کرکٹر، جسے بھارت یا کسی بھی علاقائی کشمکش سے کوئی سروکار نہیں، کو بی سی سی آئی کی طرف سے وارننگ اور دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن وہ کرکٹر مرعوب ہونے کے بجائے سب کچھ منظر عام پر لے آتا ہے۔ وہ ٹویٹ کرتا ہے: ''پاکستان کے سیاسی ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے کے پی ایل ٹی ٹونٹی کھیلنے سے روکنے کی بی سی سی آئی کی کوشش بالکل غیر ضروری ہے۔ اور مجھے یہ دھمکی دینا بھی مضحکہ خیز ہے کہ (اگر میں نے کشمیر پریمیئر لیگ کھیلی تو) وہ مجھے انڈیا میں کسی کرکٹ سرگرمی کے لیے داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔
بھارت کا شرمناک کردار بے نقاب کرنے والا یہ انکشاف اسے پیچھے کی طرف دھکیل سکتا اور اصلاح پر مجبور کر سکتا تھا لیکن انڈیا نے اس کا کوئی اثر نہ لیا۔ بی سی سی آئی کا ردعمل تھا: ''اگر گبز (جنوبی افریقہ کے کھلاڑی ہرشل گبز) کے بیان کو درست مان لیا جائے تو بھی بی سی سی آئی انڈیا میں کرکٹ کے ماحول کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے کا حق رکھتا ہے۔ درحقیقت انڈین کرکٹ دنیا میں سب سے زیادہ مانگ رکھتی ہے۔ پی سی بی کو اس پر حسد محسوس نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ اس بیان کے ایک ایک لفظ سے رعونت ٹپک رہی ہے۔ یہ حکمران جماعت کے ہندوتوا نظریے کا اظہار ہے۔ اس کی جڑیں آر ایس ایس کے احساسِ برتری میں گڑی ہوئی ہیں۔ نئی دہلی میں انہی اقدارکی حکومت ہے۔ بھارت کی پاکستان کو تنہائی کا شکار کرنے، اس پر پابندیاں لگوانے، اسے ایک خوفناک ریاست کے طور پر پیش کرنے کے ہتھکنڈے سیاست کے میدان سے آگے بڑھ کر ثقافت، فن، کاروبار اور حتیٰ کہ کھیل کود کے شعبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ایک واقعے میں مداخلت ممکن ہے کہ بقول گبز‘ احمقانہ دکھائی دیتی ہو لیکن یہ اس ذہنیت کا اظہار ہے جس کی بنیاد مندرجہ ذیل فسطائی نظریات ہیں:
1۔ عدم برداشت کا نظریہ: بھارت کے فادر آف دی نیشن موہن داس گاندھی کے قتل سے بڑھ کر آر ایس ایس کے پُرتشدد نظریے کا اور کیا اظہار ہو سکتا ہے؟ ان کے تشدد کا نشانہ ہر وہ شخص بنتا ہے جو ان کا ہم خیال نہ ہو۔ گاندھی جی عدم تشدد تحریک کے پیروکار تھے۔ آر ایس ایس نہ صرف عدم تشدد پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اس کے پیروکار اُنہیں بھی سزا دیتے ہیں جو عدم تشدد کا پرچار کرتے ہیں۔ گاندھی جی کا قاتل، نتھورام ونایک گوڈسے‘ جس نے ان کے سینے میں تین گولیاں ماری تھیں، آر ایس ایس کا رکن تھا۔ 1925ء میں قائم ہونے والی آر ایس ایس انتہائی دائیں بازو کی جامد اور متعصب نظریات کی انتہاپسند ہندو جماعت ہے۔ گاندھی کے قتل کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی؛ تاہم یہ نیم عسکری جماعت ایک سیاسی جماعت بھارتیہ جانا سنگھ (بی جے ایس) قائم کرتے ہوئے براہ راست سیاست میں آ گئی۔ بی جے ایس بھارتیہ جنتا پارٹی کی پیشرو تھی۔ ایک سو سال بعد بھی اس کے نظریات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی پُرتشدد پس منظر رکھتے ہیں۔ سمجھوتا ایکسپریس، جس میں ایک ہزار کے قریب افراد، زیادہ تر مسلمان، جل کر جاں بحق ہوگئے تھے‘ کو نذر آتش کرنے والے ہندو ہجوم کو نریندر مودی کی ہی درپردہ اشیر باد حاصل تھی۔ 2005ء میں مودی کو امریکی ویزہ فہرست سے امیگریشن نیشنلٹی ایکٹ کے تحت نکال دیا گیا تھا۔ مذکورہ ایکٹ کے مطابق: ''کوئی سرکاری عہدے دار‘ جو کسی بھی وقت مذہبی آزادیوں کی سنگین خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا، امریکی ویزے کے لیے نااہل قرار پائے گا‘‘۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ آر ایس ایس کی قیادت پُرتشدد ذہنیت رکھنے والے راہ نما کرتے ہیں۔
2۔ جبر کا نظریہ : جس طرح ہٹلر کی نازی پارٹی یہودیوں کی دشمن تھی، مودی کی حکومت میں آر ایس ایس دھڑا تمام اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، پر زندگی تنگ کیے ہوئے ہے۔ اس کی نمایاں مثال ریاستِ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا ہے جس پر بھارت نے غیر قانونی قبضہ جما رکھا ہے۔ پانچ اگست 2021ء کو مقبوضہ کشمیر میں جبر، تشدد و بربریت اور کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سفاکانہ کوشش کے دو سال پورے ہو چکے۔ آرٹیکل 370 اور 35A مقبوضہ وادی کو خصوصی حیثیت دیتے اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے لیے الگ ریاستی قوانین کا تعین کرتے تھے، جیسا کہ محدود شہریت، جائیداد کی ملکیت، بنیادی حقوق‘ جو اقوام متحدہ کی استصوابِ رائے کی شرائط کے لیے ضروری ہیں۔ ان آرٹیکلز کی منسوخی نے ہندوئوں اور غیر کشمیریوں کو کشمیر میں آباد کاری کی اجازت دے دی ہے۔ اس کا مقصد کشمیر کے اصل باشندوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے تاکہ اگر‘ یا جب بھی‘ استصوابِ رائے ہو، نتائج مرضی کے مطابق حاصل کیے جا سکیں۔
3۔ بددیانتی کا نظریہ: مورخ جیفری ہرف (Jeffery Herf) کا کہنا ہے کہ جوزف گوبلز اور نازی پارٹی نے وسیع پیمانے پر جھوٹے پروپیگنڈے کی تکنیک استعمال کی تھی۔ اُنہوں نے اسے استعمال کرتے ہوئے یورپ میں بہت سے پرورش پانے والے یہود مخالف جذبات کو وسیع قتل عام میں تبدیل کر دیا۔ ہرف کا مزید کہنا ہے کہ نازی جھوٹ سے تراشا گیا بیانیہ یہ تھا کہ جرمنی بے قصور اور دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، یہ صرف خود پر جبر کرنے والوں پر وار کر رہا ہے۔ وسیع پیمانے پر جھوٹ پھیلانے کا نظریہ یہ ہے کہ اتنا جھوٹ بولیں کہ سچ لگنے لگے۔ مودی کے انڈیا نے اسی اصول کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے استعمال کیا ہے۔ کم و بیش ڈیرھ عشرے سے انڈیا نے پاکستان کے بارے میں جھوٹ پھیلانے کے لیے منظم نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ جس طرح ہٹلر کا یہود مخالف بیانیہ جھوٹ پر مبنی تھا، انڈیا کا پاکستان اور مسلم مخالف پروپیگنڈا بھی من گھڑت اور بے بنیاد معلومات پر مبنی ہے۔ یورپی یونین ڈس انفارمشن لیب نے اپنی رپورٹ میں بھارت کی دروغ گوئی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ پتا چلا کہ انڈیا گزشتہ پندرہ برسوں سے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے اے این آئی اور ایس جی کے تحت سات سو پچاس ویب سائٹس چلا رہا تھا۔ یورپی یونین ڈس انفارمشن لیب کی رپورٹ کہتی ہے ''اس کے پیچھے کارفرما افراد نے دوسروں کے نام استعمال کیے، ریگولر میڈیا‘ جیسا کہ یورپی یونین آبزرور‘ کی نقل کرنے کی کوشش کی، یورپی پارلیمنٹ کا لیٹر ہیڈ استعمال کیا، جعلی فون نمبروں سے ویب سائٹس رجسٹرڈ کرائیں، اقوام متحدہ کو غلط پتا بتایا، اپنے تھنک ٹینک کی کتابیں شائع کرنے کے لیے کمپنیاں قائم کیں۔ تواتر سے دہرائی جانے والی اس سرگرمی میں جھوٹ، جعلی شناختوں اور مرحوم پروفیسروں اور غیر فعال این جی اوز کے نام استعمال کرتے ہوئے ایسا تصور پیش کیا جس میں پاکستان تشدد، دہشت اور خوف کا گڑھ دکھائی دیتا ہے‘‘۔
زوال سے پہلے غرور نقطۂ عروج پر ہوتا ہے۔ جھوٹ‘ جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ جعل سازی کا اثر عارضی ہوتا ہے۔ فروغ پاتی ہوئی مارکیٹ، تعلقات عامہ کی مہارت اور بزنس کی کشش کے ساتھ انڈیا خود کو سیاسی اور معاشی طور پر چین کا مدمقابل سمجھتا ہے لیکن کورونا نے اس کے چمک دار چہرے کا نقاب الٹ دیا۔ اس وبا کی وجہ سے نظام صحت کے مفلوج ہونے سے جو مناظر دیکھنے میں آئے‘ وہ اس سے پہلے صرف خوفناک فلموں میں ہی دیکھے گئے تھے۔ کورونا کے سبب پوری دنیا میں معیشت جمود کا شکار ہوئی اور ترقی کرتی ہوئی معیشت بیٹھ گئی۔ بہت سے ممالک کو اس صورت حال نے غور و فکر کی دعوت دی۔ انسانی اقدار کے حامل رہنمائوں نے اس موقع پر اپنا محاسبہ کرنا بہتر سمجھا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے 1970ء کی دہائی میں بحرالکاہل کے جزائر میں آباد افراد کے خلاف کیے گئے کریک ڈائون پر معذرت کی لیکن مودی یا انڈیا میں ایسی کوئی سوچ پید انہ ہوئی بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ سفاک اور جابر بن گئے، بھارت نژاد برطانوی کرکٹ، مونٹی پناسار کو دی گئی دھمکی سے عیاں ہے۔ اسے خبردار کیا گیا کہ اگر اس نے کشمیر پرئمیر لیگ میں حصہ لیا تو اس پر بھارت میں کرکٹ اور نشریات کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ انڈیا سب کچھ کرکے بچ نکلتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ گیارہ سال تک ہٹلر کا بھی کسی نے بال بیکا تک نہیں کیا تھا۔ آج نازی فلاسفی کا ذکر تک گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہود مخالف بات کرنے کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ مودی کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ لیکن زوال سے پہلے غرور اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتا۔ تاریخ میں اس کی خود احتسابی کی کوئی مثال نہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے‘ تو اس کا نہ صرف سیاسی فرض ہے کہ اس فسطائیت کی مذمت کرے بلکہ نفرت، جبر و تشدد اور غرور پر مبنی اس ذہنیت کے خلاف لڑنا اپنا انسانی اور اخلاقی فرض سمجھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved