بدعنوان عناصر سے ایک ایک
روپیہ وصول کریں گے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''بدعنوان عناصر سے ایک ایک روپیہ وصول کریں گے‘‘ اور اگر بدعنوانوں کی تعداد ایک کروڑ ہے تو ان سے پورا ایک کروڑروپیہ وصول کر کے ملکی خزانے میں جمع کرائیں گے اور چونکہ ایک ایک قطرہ جمع ہو کر ہی دریا بنتا ہے اس لیے اس دریا میں پانی کے ریلے اب قابل دید ہوں گے اور اس سے وزیراعظم کے اس قول کی بھی تصدیق ہو جائے گی جو بدعنوان سے وصولیوں کے حوالے سے انہوں نے کہہ رکھا ہے جبکہ بدعنوان عناصر کے لیے بھی یہ کوئی مشکل کام نہیں ہوگا بلکہ وہ اسے اپنی کمائی کا ایک معمولی حصہ ہی سمجھیں گے اور ملکی خزانے میں بھی لہر بہر ہو جائے گی جبکہ ملک پہلے ہی معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز یوم آزادی کے موقع پر اپنا پیغام جاری کر رہے تھے۔
نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن
نے ملک کی خدمت کی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن نے ملک کی خدمت کی‘‘ اور اس خدمت کی مقدار اس قدر زیادہ تھی کہ اب ملک کو مزید خدمت کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے اس لیے بھائی صاحب نے لندن میں بسیرا کر لیا ہے تا کہ رہی سہی خدمت کی کسر وہ وہاں بیٹھ کر نکال سکیں کیونکہ ملک کی خدمت کی ان کی یہ عادت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے، تاہم ملک کو تشویش میں مبتلا ہونے کی بجائے حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز یوم آزادی پر قوم کے نام اپنا پیغام نشر کر رہے تھے۔
پاکستان کی سیاست کے اگلے سو دن اہم : شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ''پاکستان کی سیاست کے اگلے سو دن اہم ہوں گے‘‘ کیونکہ ملک کا سارا دار و مدار ہی سیاست پر ہے اس لیے سیاسی خواتین و حضرات کے حوالے سے یہ سو دن اہم ہو سکتے ہیں، جبکہ ان میں سے اکثر کے حوالے سے میں سزایابی کی پیش گوئی بھی کر چکا ہوں کہ ان کی قید کے دن شروع ہونے ہی والے ہیں کیونکہ سو دن تو چٹکی بجانے میں گزر جاتے ہیں اور ہمیں بھی اس شبھ گھڑی کا زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا حالانکہ انتظار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ موت سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے لیکن اس ساعتِ سعید کیلئے ہم ہر تکلیف برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہمارا اپنا دار و مدار بھی ان سزا یابیوں ہی پر ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
ترقی کا جو سفر ن لیگ کی حکومت نے شروع کیا
تھا اسے وہیں سے شروع کریں گے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''ترقی کا جو سفر ن لیگ کی حکومت نے شروع کیا تھا اسے دوبارہ وہیں سے شروع کریں گے‘‘ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس ساری ترقی پر تو پانی پھرتا نظر آ رہا ہے جس کے بحق سرکار ضبط ہونے میں کچھ زیادہ عرصہ نہیں لگے گا اور وہی ترقی بچے گی اور باقی رہ جائے گی جو لندن اور دیگر مقامات پر منتقل کر دی گئی تھی لیکن اس سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بھی اقتدار میں آنا ضروری ہے جس کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے بلکہ اکثر کو تو قید و بند کی صعوبتیں ہی نظر آ رہی ہیں کیونکہ دہرا بیانیہ بھی اپنا کام کر چکا ہے۔ اگرچہ والد صاحب کا بیانیہ الگ اور مختلف ہے لیکن وہ بھی تایا جان کے چنگل سے نکلتے نظر نہیں آ رہے۔ آپ اگلے روز یوم آزادی کے حوالے سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
قائداعظم کا پاکستان آج مضبوط
ہاتھوں میں ہے: فیاض چوہان
وزیر جیل خانہ جات اور ترجمان حکومت پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''قائداعظم کا پاکستان آج مضبوط ہاتھوں میں ہے‘‘ اور اسے ان مضبوط ہاتھوں کی جکڑ بند سے نکالنا اب کسی کے بھی اختیار میں نہیں رہا اور جس کی سب سے بڑی وجہ اپوزیشن کی نا اہلی اور نالائقی ہے جس میں ہمارا بھی کوئی ثانی نہیں ہے لیکن اپوزیشن تو خلاف توقع ہم پر بھی بازی لے گئی ہے اور ایک فضول بھاگ دوڑ کے بعد ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ گئی ہے اور مولانا کی سبز قدمی نے کھوتا ہی کھوہ میں ڈال دیا ہے جنہوں نے ان کی قیادت کا ڈھونگ رچا رکھا تھا اس لیے اب قوم کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ مضبوط ہاتھوں کی اس جکڑ بند ی پر ہی گزارا کرے اور اچھے وقتوں کا انتظار کرے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی کے ایک کالج میں خطاب کر رہے تھے۔
الحمرا
ماہنامہ الحمرا لاہور کا تازہ شمارہ شاہد علی خاں کی زیر ادارت شائع ہو گیا ہے جو سالنامہ نہ ہونے کے باوجود ضخامت کے اعتبار سے سالنامہ ہی لگتا ہے اور جو قابلِ قدر نظم و نثر پاروں پر مشتمل ہے۔ نثر نگاروں میں پروفیسر فتح محمد ملک، محمد اکرام چغتائی، ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر تحسین فراقی، بشریٰ رحمان، جمیل یوسف، ڈاکٹر اے بی اشرف، مسلم شمیم، ڈاکٹر مختار ظفر، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر تنویر حسین، پروفیسر غازی علم الدین، ڈاکٹر خالق تنویر، سلمیٰ اعوان،و حید الرحمن خاں اور امجد اسلام امجد شامل ہیں۔ ڈاکٹر بدر منیر کے لیے گوشہ مختص ہے جبکہ حصۂ نظم میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند، اسلم انصاری، قیصر نجفی، شوکت کاظمی، ڈاکٹر جواز جعفری اور دیگران جبکہ حصۂ غزل میں نذیر قیصر، شوکت کاظمی، اختر شمار، ڈاکٹر سید قاسم جلالی اور کرشن کمار طور نمایاں ہیں۔ سفر نامے، افسانے، آپ بیتی، انشائیے گوشۂ مزاح نگاری اور تبصرے ہیں۔
اور، اب آخر میں اس شمارہ میں شامل نذیر قیصر کی یہ خوبصورت غزل:
دل سے دنیا نکال دی میں نے
آگ کاسے میں ڈال دی میں نے
پیاس چھلکی تھی میری چھاگل سے
آسماں تک اچھال دی میں نے
نقشِ پا ہیں میرے ستاروں پر
وقت کو اپنی چال دی میں نے
تیر ی جنت کے ساتھ دنیا بھی
تیرے قدموں میں ڈال دی میں نے
اور وہ جب پہلے خواب سے جاگی
اس کو پتوں کی شال دی میں نے
جب زمینوں پہ شب اتاری گئی
اس کو صبح وصال دی میں نے
حرف لکھا تھا لوح پر تو نے
حرف میں جان ڈال دی میں نے
شاعروں کی پرانی محبوبہ
شاعری سے نکال دی میں نے
ایک مچھلی جو ہاتھ آئی تھی
پھر سے دریا میں ڈال دی میں نے
لوگ دکھ میں بھی مسکراتے ہیں
اس کو اپنی مثال دی میں نے
آج کا مقطع
اور کسی مہلت کی حاجت نہیں ، ظفرؔ
یہ جینا ہی مرنے کے لیے کافی ہے