تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     16-08-2021

بھارت ‘ افغانستان ‘ اسرائیل گٹھ جوڑ

شباب اور ضعیفی میں کوئی رابطہ ہو سکتا ہے نہ صبح شام سے مل سکتی ہے ۔اجالا رات کے قدموں میں بیٹھ سکتا ہے نہ رات کی سیاہی روشنی کی چوکھٹ پار کرسکتی ہے ۔ بہارساون کی بارش میں نہاسکتی ہے نہ ساون بہار کے رنگوں کو اوڑھ سکتا ہے ۔ یہی حال ہماری حکومت اور اپوزیشن کا بھی ہے ۔ حکومت اپوزیشن کو قائل کرسکتی ہے نہ اپوزیشن حکومت کو اپنے راستے پر لگا سکتی ہے ۔دونوں کی اپنی اپنی سیاست ہے اور اپنے اپنے مقاصد ۔ نجانے کیوں حکومت اور اپوزیشن پھولوں اور کانٹوں سے بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ یہ دونوں ایک ہی ٹہنی پر اُگتے ہیں مگر پھول کانٹوں کی راہ میں آتے ہیں نہ کانٹے پھولوں کے دامن کو زخمی کرتے ہیں ۔ مگر افسوس! حکومت اور اپوزیشن ایک ہی ڈگر پر چلتے ہوئے الگ الگ منزلوں کے خواہاں رہتے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کو پتھر مارتے ہیں اورسیاست کے بدن کو لہو لہان کرتے ہیں ۔اپنی پارٹی کی عزت کا لحاظ نہ ملک کے وقار کی فکر ۔بھارت پاکستان کے درپے ہے اور فکر کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی آقاؤں کو کچھ سمجھ آرہی ہے نہ وہ ترجیحات طے کرپارہے ہیں ۔
پاکستان کو ان دنوں پہاڑ جتنے بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ انسان سوچنے بیٹھے تو حواس مفلوج ہوجائیں اور لب خاموش۔ آنکھیں پتھرا جائیں اور دل دھڑکنا بھول جائے مگر اس سب کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کی '' سنجیدگی ‘‘ دیکھیں تو رونا آتا ہے ۔دنیا بھر کی سیاست کروٹ لے رہی ہے اور ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی اناؤں سے ہی فرصت نہیں ۔ ہم بدلتے وقت کے تیور دیکھ پارہے ہیں اور نہ مستقبل کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔ ہمارے ہمسائے افغانستان میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہاہے ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال گمبھیر ہوتی جارہی ہے ۔جیسے جیسے افغان طالبان کی فتوحات بڑھ رہی ہیں ‘ اقوام عالم کی پریشانی بھی دوچند ہوتی جارہی ہے ۔ہماری حکومت ہے کہ بیانات داغنے کے علاوہ کچھ نہیں کررہی ۔ پارلیمنٹ میں بحث نہ قوم کو اعتماد میں لیا جارہاہے ۔ حکومت کو سوچنا ہوگا کہ افغانستان کا مسئلہ کسی ایک پارٹی یا حکومت کا مسئلہ نہیں ہے ۔ اگر وہاں خانہ جنگی ہوئی تو آگ کے شعلے ہمارے گھروں تک بھی آئیں گے ۔ اس لیے تمام سٹیک ہولڈرز کا اعتماد ضروری ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ موجودہ طالبان ماضی کے طالبان سے مختلف ہیں ۔
افغانستان میں حالات جتنی تیزی سے بدل رہے ہیں ان کو سمجھنے کے لیے افلاطون یاارسطو ہونا ضروری نہیں ۔ طالبان کی اٹھان سے لگتا ہے کہ وہ اب مرضی کے سیاسی حل کے سوا کچھ بھی قبول نہیں کریں گے ۔طالبان کے تیور سے پہلے ہی واضح تھا کہ افغان حکومت بھلے جتنی مرضی آفرز کرے وہ اشرف غنی کے ساتھ اقتدار کاحصہ نہیں بنیں گے ۔وہ طاقت کے زور پر کابل میں داخل ہو سکتے تھے مگر آخری لمحوں پر ہونے والی پیش رفت نے صورتحال کو سنبھالا دیا اور کابل کو فی الحال ایک بار پھر جنگاہ بننے سے بچا لیا ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو علاقائی امن اور معیشت کے لیے اچھا نہیں تھا ۔امریکی انٹیلی جنس اداروں کا کہنا تھا کہ طالبان نوے دنوں کے اندر کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں مگر طالبان کی پیش قدمی نے ان اندازوں کو بھی غلط ثابت کیا اور یہ انٹیلی جنس رپورٹ سامنے آنے کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں طالبان کابل پہنچ گئے۔ طالبان کے کابل پہنچنے کے بعد ابھی تک پیش رفت مثبت انداز سے جاری ہے ‘ طالبان قیادت کا اپنے جنگجوؤں کو دارالحکومت میں داخلے سے ر وکنا اور طاقت سے دارالحکومت کو فتح نہ کرنے کا عندیہ‘ نیز عبوری حکومتی بندوبست کے لیے بات چیت اور طالبان کی جانب سے عام معافی کے اعلان سے یہ ثابت ہے کہ طالبان ماضی سے بہت مختلف ہیں ۔ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ افغانستان کے دروازے ان تمام افراد کے لیے کھلے ہیں جنہوں نے حملہ آوروں کی مدد کی۔سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ افغانستان کے دروازے کرپٹ کابل انتظامیہ کے ساتھ کھڑے افراد کے لیے بھی کھلے ہیں۔طالبان کے ترجمان کا یہ بھی کہنا تھاکہ ہم دعوت دیتے ہیں کہ آئیں مل کر ملک و قوم کی خدمت کریں۔افغانستان کی صورتحال میں یہ ایک نیا آغاز ثابت ہو سکتا ہے‘ مگر کیا واقعی ایسا ہو گا؟ اس بارے حتمی طور پر اور یقین کے ساتھ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ افغانستان جیسی صورتحال میں غیر معمولی تیزی کے ساتھ چیزیں تبدیل ہوتی ہیں۔
اس دوران پاکستان کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر جن چیلنجز کا سامنا ہے وہ بھی خطرناک اور حساس ہیں ۔ کچھ دوست ممالک بھی ہم سے نالاں ہیں اور دشمن بھی خائف ۔ امریکہ جیسا ملک ہم سے بات کرنے کوتیار ہے نہ برطانیہ ہماری باتوں کو سنجیدگی سے لے رہاہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان کا بیان بہت اہم ہے کہ اب خطے میں امریکہ کا سٹریٹجک پارٹنر بھارت ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستان کے ساتھ مختلف سلوک کیا جارہاہے ۔بقول ان کے امریکہ کی خواہش ہے کہ '' پاکستان افغانستان میں اس کا بیس سال کا کچرا صاف کرے ۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی مرضی ہے مجھے کال کریں یانہ کریں ۔ ایسا نہیں کہ میں ان کی کال کا انتظار کررہا ہوں‘‘ ۔حکومت کو سوچنا ہوگا کہ یہ سار ابھارت کا کیا دھرا ہے یا امریکہ کی خصلت ہی ایسی ہے؟ وہ ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے دوست بناتا ہے اور اپنے جنون کو پورا کرنے کے لیے دشمن ۔حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت ‘ امریکہ ‘ اسرائیل اور افغانستان مل کر پاکستان اور چین کے خلاف کیا کر رہے ہیں ۔ وہ پاکستان میں ایک بار پھر بدامنی کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ لاہور کے جوہر ٹاؤن دھماکے سے لے کر داسو بس حملے تک کے تانے بانے این ڈی ایس اور راء سے ملتے ہیں ۔ دشمن ہمارے خلاف کھل کر کارروائیاں کررہا ہے اور ہم ہیں کہ آپس میں جھگڑ رہے ہیں ۔ ہمیں حالات کی نزاکت کا احسا س ہی نہیں۔
خارجہ پالیسی کا محاذ ہی نہیں ‘ پاکستان کو سوشل میڈیا پر بھی وار کا سامنا ہے۔ ہمیں بدنام کرنے کے لیے خطرناک ترین ٹرینڈز چلائے جارہے ہیں۔وفاقی حکومت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ایسے ٹرینڈز کے ذریعے پاکستان کے بارے میں پوری دنیا میں جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں اور دل کھول کر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ۔ بھارت ‘ افغانستان اور اسرائیل ان سوشل میڈیا ٹرینڈز کے پیچھے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں ۔ یہ تینوں ممالک اربوں روپے پاکستان کے مفادات کے خلاف خرچ کررہے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے اپنے کچھ شہری بھی دشمن کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ پاکستان دشمن ممالک نے ''سینکشن پاکستان ‘‘کے نام سے ٹرینڈ چلایا اور آٹھ لاکھ پاکستانیوں نے اسے ٹویٹ کیا ۔ یہی نہیں سی پیک کے خلاف ٹرینڈز ہوں یافیٹف بارے‘ذلفی بخاری کے حوالے سے ٹرینڈہو یا یا فرقہ وارانہ ٹرینڈز ۔ان میں بھارت ‘ افغانستان اور اسرائیل کے ساتھ کچھ نادان پاکستانی بھی شامل ہوتے ہیں ۔ کتنے دکھ کی بات ہے‘ بھلا کوئی اپنی دھرتی کو بھی خود بدنام کرتا ہے ؟ بھلا کوئی اپنے ملک کے خلاف بھی دشمن کا سہولت کار بنتا ہے ؟اور تو اور نور مقدم کیس پر بھارت نے ٹرینڈچلایا کہ پاکستان خواتین کے لیے محفو ظ ملک نہیں ہے ۔یہ ٹرینڈوہ ملک چلا رہا تھا جس کا دارالحکومت دہلی ریپ کیپٹل کے نام سے پوری دنیا میں بدنام ہے ۔ جہاں روزا نہ کتنی ہی معصوم بچیوں اور عورتوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔نجانے کیوں ایسے ٹرینڈز چلانے سے پہلے یہ لوگ اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے ‘ شاید انہیں تھوڑی غیرت آجائے ‘ شایدان کی گردنیں شرم سے جھک جائیں ۔
خدارا حکومت ہوش کے ناخن لے اور مسلسل آنکھیں کھلی رکھے۔ اپوزیشن کی جان چھوڑ کر بھارت ‘ افغانستان اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرے اور سدِباب بھی ۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved