تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-08-2021

’’اپنوں‘‘ کی تلاش

کم و بیش ہر انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُسے اپنی مرضی کے لوگوں کا ساتھ نصیب نہیں ہوتا۔ ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ اس حوالے سے پوری سنجیدگی کے ساتھ شعوری کوشش نہیں کرتا۔ کسی بھی باغ میں کیاریوں کو توجہ نہ ملے تو اُن میں گھاس اُگ آتی ہے جو پھولوں کے پودوں کی نشو و نما پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر پھولوں کے پودوں کو سلامت رکھنا ہو تو مالی کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں یا خود یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کا معاملہ بھی تو ایسا ہی ہے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو فضولیات سے بچنا لازم ہے۔ یہ کام خود بخود نہیں ہوتا‘ کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ زندگی کو زیادہ معنویت کے ساتھ بسر کرنا چاہتے ہیں اور مقصدیت کو ہمیشہ اولیت دیتے ہیں وہ اس بات کا بھی اہتمام کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی وہ کرنا چاہتے ہیں وہ ڈھنگ سے انجام کو پہنچے۔
کم ہی لوگ اس نکتے پر متوجہ ہونے کی زحمت گوارا کرتے ہیں کہ بھرپور اور کامیاب زندگی بسر کرنے کے لیے ایسے لوگوں کا ساتھ ناگزیر ہے جو خود بھی کامیابی پر یقین رکھتے ہوں اور زندگی میں زیادہ سے زیادہ معنویت تلاش کرتے ہوں۔ ہر انسان کو رشتہ دار خود بخود ملتے ہیں۔ انسان جن لوگوں میں پیدا ہوتا ہے اُن سے اپنا رشتہ ختم نہیں کرسکتا۔ خونی رشتہ دار اچھے ملیں یا بُرے‘ اُن سے نبھاتے ہی بنتی ہے کیونکہ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ رشتوں کو سرد خانے میں تو ڈالا جاسکتا ہے‘ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر اپنا ماحول یعنی خونی رشتہ دار اور اُن کے متعلقین بھرپور زندگی بسر کرنے اور کسی بھی شعبے میں فقید المثال کامیابی یقینی بنانے میں معاون ثابت نہ ہوں تو انسان کیا کرے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا درست جواب تلاش کرنا کم و بیش ہر انسان پر لازم ہے۔
شخصی ارتقا سے متعلق امور پر سوچنے اور لکھنے والوں نے کامیابی یقینی بنانے اور بھرپور زندگی بسر کرنے کے قابل ہونے کے موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ بازار میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں دستیاب ہیں۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ جو لوگ اپنے ماحول سے بیزار یا مایوس ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ شخصی ارتقا سے متعلق موضوعات پر پڑھتے رہتے ہیں۔ یہ مطالعہ اُن میں کچھ کرنے کی حقیقی لگن پیدا کرتا ہے۔ کوئی ایک انسان بھی ایسا نہ ملے گا جو اپنے ہم مزاج لوگوں کی صحبت پانے اور اُن کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارنے کا خواہش مند نہ ہو۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ ہمیں ہر ماحول میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں ملتے ہیں جو رشتوں اور تعلقات سے مایوس و بیزار دکھائی دیتے ہیں؟ حالات کے ہاتھوں ستائے ہوئے بہت سے لوگ منفی انداز سے سوچنے کی طرف چل دیتے ہیں۔ ذہن میں الجھنیں بڑھ جائیں تو لوگ ڈھنگ سے سوچ نہیں پاتے اور پھر وہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ ایسی حالت میں وقت‘ صلاحیت اور سکت تینوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ یہ کیفیت انسان کو مزید جھنجھلاہٹ میں مبتلا کرتی ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بیزار کے گڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے۔
وہ لوگ خوش نصیب گردانے جاتے ہیں جنہیں قریب ترین لوگوں میں اچھائیاں ملیں‘ زندگی معیاری انداز سے بسر کرنے میں مدد دینے والوں کا ساتھ نصیب ہو۔ ہر انسان کے معاملے میں ایسا نہیں۔ شخصی ارتقا اور مثبت سوچ کے حوالے سے لکھنے والوں میں ڈیل کارنیگی بہت نمایاں رہے ہیں۔ انہوں نے ایک پوری کتاب اس موضوع پر لکھی ہے کہ دوست خود بخود نہیں بنتے‘ بنائے بلکہ جیتے جاتے ہیں۔ خونی رشتے کسی کاوش کے بغیر ملتے ہیں مگر دوستی تو جیتنی پڑتی ہے۔ اچھا دوست اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ انسان رشتہ داروں یا قرابت داروں سے وہ نہیں پاتا جو دوستوں سے پاتا ہے۔ اس تعلق میں عجیب ہی سُرور ہے۔ اچھے دوستوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ مخلص دوست انسان کو کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے اور گامزن رہنے میں مدد دیتے ہیں۔ اُن کی طرف سے ملنے والا فیڈ بیک زندگی کو نئی معنویت عطا کرتا ہے۔ جو لوگ زندگی کے لیے کوئی ایک بڑا مقصد یا چند چھوٹے مقاصد طے کرتے ہیں وہ اپنے عزائم میں زیادہ اور آسانی سے اُسی وقت کامیاب ہو پاتے ہیں جب اُنہیں مخلص دوست میسر ہوں۔
مثبت سوچ کے جادو کے حوالے سے ذہن واضح کرنے والے مصنفین میں نپولین ہل بھی نمایاں ہیں۔ ان کی کتاب ''تِھنک اینڈ گرو رِچ‘‘ نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو بہتر زندگی بسر کرنے کی طرف مائل ہونے میں غیر معمولی مدد دی ہے۔ نپولین ہل نے اس کتاب میں کامیابی کے بنیادی اصولوں پر بحث کی ہے۔ اُن کے نزدیک کامیاب زندگی کے لیے لازم ہے کہ انسان کا ایک ماسٹر مائنڈ گروپ ہو اور وہ اس گروپ کا فعال رکن ہو۔ ماسٹر مائنڈ گروپ سے نپولین ہل کی مراد ہم خیال اور ہم مزاج لوگ ہیں جو کسی خاص مقصد کے مشترک ہونے کی صورت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ فارسی یہ معروف شعر آپ نے بھی ضرور سُنا ہوگا ؎
کُند ہر جنس با ہم جنس پرواز / کبوتر با کبوتر‘ باز با باز
یعنی ہر جاندار اپنی جنس میں جیتا ہے۔ آپ کبوتروں کو بازوں کے ساتھ یا بازوں کو کبوتروں کے ساتھ اُڑتا نہیں پائیں گے۔ آپ کو سڑکوں پر کتوں کے غول دکھائی دیں گے تو اُن میں کوئی بِلّی نہیں ملے گی۔ اسی طور بلّیوں کے ساتھ کوئی کتا کھیلتا ہوا نہیں ملے گا۔ نپولین ہل لکھتے ہیں کہ انسان اگر کچھ کرنا چاہتا ہے تو ایسے لوگوں کو تلاش کرے جو وہی کرنا چاہتے ہوں جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر کسی کو مصنف بننے کا شوق ہے اور اس شعبے کو زندگی بھر کے لیے اپنانے کا ارادہ ہے تو لازم ہے کہ وہ سوچنے اور لکھنے والوں میں بیٹھے۔ ہم خیال لوگوں میں بیٹھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے فیڈ بیک ملتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے زیادہ اور کچھ بہتر کرنے کی تحریک ملتی رہتی ہے۔
ہم عمومی سطح پر بہت سی خواہشات کے حامل رہتے ہیں۔ بہت کچھ کرنے کی تمنادل میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے مگر ہم سے کچھ خاص ہو نہیں پاتا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم ہم مزاج و ہم خیال لوگوں کو تلاش نہیں کرتے اور اگر تلاش کرلیں تو اُن کا حصہ نہیں بنتے۔ پہلے درجے میں تو ہمیں وہ لوگ تلاش کرنے ہیں جو ہماری ہی سطح کے جوش و خروش کے حامل ہوں اور متعلقہ شعبے میں ہماری ہی طرح کچھ نیا اور زیادہ کرنے کے متمنّی ہوں۔ ایسے لوگوں کا ساتھ مل جائے تو انسان کو اپنی صلاحیتوں کا گراف بلند کرنے کی تحریک ملتی ہے اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہنے سے کام کرنے کی لگن بھی جوان رہتی ہے۔ بالی وڈ میں بڑے فلم ساز ادارے کسی ایک مصنف سے کہانی‘ منظر نامہ اور مکالمے لکھوانے کے بجائے سکرین رائٹنگ کا شعبہ قائم کرتے ہیں۔ اس شعبے میں ہم خیال افراد مل کر کام کرتے ہیں۔ اُن کی مشترکہ کاوشیں رنگ لاتی ہیں اور اچھی فلم تیار کرنے میں نمایاں مدد ملتی ہے۔
کسی خاص شعبے میں نام کمانے کی تمنا رکھنے والے نوجوانوں کو سب سے پہلے ''اپنے‘‘ تلاش کرنے چاہئیں تاکہ اپنائیت کا ماحول پیدا ہو۔ ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کا ساتھ ملنے پر انسان زیادہ لگن اور توانائی کے ساتھ کامیابی کے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ شعوری کوششوں کے ذریعے بنائے ہوئے ''اپنوں‘‘ کی طرف سے ملنے والے فیڈ بیک کی مدد سے ہم اپنا کام بہتر طریقے سے انجام تک پہنچاتے ہیں اور کامیابی کے ساتھ ساتھ داد بھی پاتے ہیں۔ گھر یا خاندان کے افراد مخلص ہوں تو ہوں‘ لازمی طور پر ہم مزاج نہیں ہوتے۔ ایسے میں لازم ہے کہ بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے ایسے لوگوں کو تلاش کرکے اپنایا جائے جو آپ کے مزاج کو سمجھتے بھی ہوں اور پورے خلوص کے ساتھ آپ کی کامیابی کے خواہش مند بھی ہوں۔ تھوڑی سی توجہ دینے پر آپ اپنے ماحول سے ہٹ کر ''اپنوں‘‘ کو تلاش کرسکتے ہیں اور یوں آپ کے لیے بھی کامیابی کی راہ پر گامزن ہونا ممکن ہوسکتا ہے۔ محض خوش فہمیوں میں مبتلا رہنے کے بجائے مخلص دوست‘ بلکہ رفیقِ کار تلاش کرنے سے کامیابی کی راہ پر گامزن رہنا زیادہ آسان اور پُرلطف ہو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved