بیویوں کو اللہ نے کئی ہُنر بخشتے ہیں۔ اور ہر ہُنر اپنے آپ میں ایک انوکھی دنیا ہے۔ یہ ہُنر کیا کم ہے کہ بیویاں گھر کے سربراہ کی سربراہ بن کر اُنہیں اپنی مرضی کے سائز کی نَکیل ڈالے رہتی ہیں! کائنات کے بارے میں سو نظریات پیش کئے جاچکے ہیں مگر کِس میں ہمت ہے کہ جس سے تصویرِ کائنات میں رنگ ہے اُس کے بارے میں کوئی ایک بھی ٹھوس نظریہ پیش تو کرے۔ ایسا کرنے بیٹھیے تو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں دم بھر میں پانی بھرنے لگتی ہیں، حواس مَختل ہونے لگتے ہیں اور شَعُور دم توڑتا محسوس ہوتا ہے! ہر اِنسان پر ایک ایسا دور بھی گزرتا ہے جو اُسے خوابوں اور خیالوں کی فضاؤں میں اُڑائے پھرتا ہے۔ یہ سُنہرا دور منگنی کے بعد شروع ہوتا ہے اور نکاح کے وقت تین بار ’’قبول ہے‘‘ کہتے ہی ختم ہو جاتا ہے! اِس کے بعد؟ یہ کیفیت ساحرؔ لدھیانوی نے یوں بیان کیا ہے۔ پلٹ کے سُوئے چمن دیکھنے سے کیا ہوگا؟ وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے! جن سُہانے زمانوں کے خواب آنکھوں میں سنجوئے تھے وہ پتا نہیں کون سے خلا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ ٹھوکر کھاکر مُنہ کے بَل گِرنے پر اپنی حماقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آئینہ دیکھیے تو اپنا ہی چہرہ اجنبی سا دِکھائی دیتا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی ہی نے کہا ہے۔ کیا کہوں؟ پہچاننا بھی خود کو مُشکل ہوگیا جب نئی تصویر مُجھ کو میری دِکھلائی گئی! جو شادی کے بعد اَدھ موئی سی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ لاکھ سمجھائیں کہ بھائی! اِس طلسمات میں مُڑ کے مَت دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاؤگے مگر جو شادی کے لیے ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوں وہ سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے یا شاید سمجھنا چاہتے ہی نہیں! منگنی کے بعد جو لوگ شادی اور اُس کے بعد کی زندگی کے خواب آنکھوں میں سَجائے پھرتے ہیں اُن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ہر معاملے میں منگیتر کو رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ بعض تو ایسے سادہ لوح (یعنی احمق اور گھامڑ) ثابت ہوتے ہیں کہ ہونے والی بیوی کو گھر میں داخل ہونے سے پہلے ہی سَر پر بٹھالیتے ہیں یعنی جینیس قرار دے بیٹھتے ہیں! اِسے کہتے ہیں اکھاڑے میں اُترنے سے پہلے ہی حریف کی برتری تسلیم کرلینا۔ جب ہونے والی بیوی کو جینیس سمجھ لیا تو اپنے آپ کو گھسیارا قرار دینے میں کیا کسر باقی رہ گئی؟ ایک نیام میں دو تلواریں اور ایک چَھت کے نیچے دو جینیس کیسے رہ سکتے ہیں! منگنی سے شادی تک کا زمانہ بہت دِل فریب ہوتا ہے۔ فریقِ ثانی کا ہر عیب بے مثال خوبی جیسا دِکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ آنکھوں دیکھی مَکّھی نِگلنے کا کچھ اپنا ہی، الگ سا مزا ہوتا ہے! اِس عہدِ زرّیں میں ساون کے اندھوں کو ہر طرف ہرا ہی ہرا سُوجھ رہا ہوتا ہے۔ رات بھر کے پیکیج پر باتیں کرنے کا زمانہ گزرتا ہے اور دورِ سَحر میں آنکھ کھلتی ہے یعنی تین بار اقرار کرکے منگیتر کو قبول کیا جاتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا! اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا کہ اِن میں کیسے کیسے خواب تھے! اُس عہدِ زرّیں کے ہر خواب کی بھیانک تعبیر سامنے آتی ہے تو دِل پر قیامت سی گزر جاتی ہے۔ یعنی آئینہ دیکھ اپنا سا مُنہ لے کے رہ گئے! غور کیجیے تو اِنسان پر دراصل دو ہی زمانے گزرتے ہیں۔ ایک شادی سے پہلے کا اور دوسرا شادی کے بعد کا! اِنسان کا وجود اِن دونوں زمانوں میں بٹ کر کچھ اِتنا گِھس گِھسا جاتا ہے کہ کِسی تیسرے دور کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اب جو تیسرا دور ممکن ہے وہ محشر میں حساب کتاب کے بعد جنت یا پھر جہنم میں شروع ہوگا! کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد جو کچھ گزرتی ہے وہ شادی سے پہلے کے زمانے کو ذہن کی تختی سے یکسر صاف کر ڈالتی ہے! بیشتر کیسز میں ہوتا یہ ہے کہ انسان شادی سے پہلے کی حسین یادوں کے ذریعے اُن دُکھوں کا ازالہ کرتا ہے جو شادی کے بعد مِلتے ہیں! گرہستی چلانے کے نام پر گھن چَکّر ہو جانے والے مظلوم مَردوں پر قُدرت اِسی طور مہربان ہوا کرتی ہے! بیشتر مَرد ازواجی زندگی اِس یقین کے ساتھ بسر کرتے ہیں کہ اللہ نے حساب کتاب سے پہلے ہی سزا دے ڈالی ہے! ایسی سوچ رکھنے والے مظلوم شوہروں کے جذبات کی ترجمانی شعریؔ بھوپالی مرحوم نے یوں کی ہے۔ تصدّق تیری رحمت کے، جزا دے ہم کو محشر میں سزا کا جو زمانہ تھا وہ دُنیا میں گزار آئے! زمانہ لائن پر آچکا ہے یعنی ہم آن لائن زمانے میں جی رہے ہیں۔ انٹرنیٹ نے بہت سی مُشکلات آسان کردی ہیں اور دوسری بہت سی مشکلات اچھی خاصی تعداد میں پیدا کرکے ہمیں سوچنے کی زحمت سے نجات دِلا دی ہے! سیمابؔ اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے۔ دُعا دِل سے جو نِکلے کار گر ہو یہاں دِل ہی نہیں، دِل سے دُعا کیا! انٹرنیٹ پر کچھ تلاش کرنا ہے تو سرچ انجن حاضر ہیں یعنی چند الفاظ ٹائپ کیجیے اور مطلوبہ معلومات اُسی طرح آپ کے قدموں میں آ گِرتی ہیں جس طرح مستند عاملوں کی نگرانی میں اُلّو کے ایک ہی عمل سے سنگ دِل محبوب قدموں میں آ گِرتا ہے! ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ انٹرنیٹ کمپنیوں نے سرچ انجن کا آئیڈیا بیویوں کے ’’طریقِ واردات‘‘ سے کشید کیا ہے! سرچ انجن کون سا نیا اور انوکھا کام کر رہے ہیں؟ بیویاں یہ کام ہزاروں سال سے کرتی آرہی ہیں اور کبھی بُھول کر بھی غرور نہیں کیا! سچ تو یہ ہے کہ معلومات فراہم کرنے کے معاملے میں بیویاں سرچ انجن سے ایک قدم آگے ہیں یعنی شوہر کے ایک سوال کے جواب میں مطلوبہ ہی نہیں، غیر مطلوبہ معلومات بھی فراہم کرتی ہیں! (آپ مانیں یا نہ مانیں، اصل مزا تو غیر مطلوبہ معلومات میں پوشیدہ ہے!) ’’گوگل وائف‘‘ تو ایسی ہی ہوتی ہیں جناب! سرچ انجنز کو اِس معاملے میں اپ ڈیٹنگ، بلکہ اپ گریڈنگ کی ضرورت ہے! کائنات کا کون سا معاملہ اور مسئلہ ہے جو گوگل وائف کے ذہنی راڈار سے بچ سکتا ہے؟ عمدہ معلومات کشید کرنے کے لیے لازم ہے کہ سوال سیخ پا کرنے والا ہو۔ یعنی ایسا ہو کہ سُنتے ہی مُحترمہ تن بدن میں آگ لگ جائے۔ اِس سِلسِلے میں تیر بہ ہدف نُسخہ یہ ہے کہ بیوی کے میکے والوں میں کوئی معمولی سی خرابی (یعنی جو اُن کے لیے معمول کا درجہ رکھتی ہو!) تلاش کرکے سب سے کم شِدّت والی ہرزہ سَرائی کی جائے۔ دِیا سَلائی دِکھانے کی دیر ہے، پھر دیکھیے چراغ سے چراغ کیسے جلتے ہیں! لاشعور کے دُور افتادہ کونوں میں چُھپی ہوئی جو باتیں سگمنڈ فرائڈ تو کیا اُس کے باپ دادا بھی کُرید کر نکال نہیں سکتے تھے وہ باتیں بھی ایسی حالت میں اچانک زبان پر آ جاتی ہیں! گویا خزانے کا مُنہ کُھل جاتا ہے، دریائے نغز گوئی بہنے لگتا ہے! اِس کے بعد تو جناب وہ پینڈورا بکس کُھلتا ہے جو سیاست دانوں کے بیانات، حُکّام کے انتباہ اور جج صاحبان کے ریمارکس میں صرف مذکور ہوتا ہے، کبھی دِکھائی نہیں دیتا! اور پینڈورا بکس کھولنے والیوں کوبھی کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ اِس میں کون کون سے لعل و جواہر چُھپے ہوئے ہیں۔ جو جھیلے وہ جانے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved