تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     17-08-2021

مزار شریف دیکھنے کی خواہش

سارے اندازے‘ سارے خدشے اور سارے وسوسے غلط ثابت ہوئے اور طالبان کو افغانستان میں فتح مبین حاصل ہوچکی ہے۔ طالبان اور پاکستان کو دھمکیاں اور گیدڑ بھبھکیاں دینے والے مغرور افغان صدر اشرف غنی اپنی فوج اور حکومت کو بے آسرا چھوڑ کر تاجکستان مفرور ہوچکے ہیں۔ بعض طالبان قائدین نہایت عجزو انکسار کے ساتھ کابل کے صدارتی محل میں داخل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی کامیابی پر رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا اور عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ طالبان قیادت نے مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کیا ہے جسے امن پسند دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔
خانہ جنگی کے بھیانک مناظر دکھانے والے دانشور‘ تجزیہ کار اور سیاستدان منقار زیرِ پر ہیں کیونکہ طالبان نے کابل میں ہی نہیں سارے افغانستان میں امن و امان قائم کردیا ہے۔ بیس برس تک افغانستان پر آتش و آہن کی بارش کرنے والا امریکہ بھی یہاں عزت گنوا کر‘ اپنے ہزاروں فوجی مروا کر‘ ایک لاکھ سے اوپر افغان شہریوں کو شہادت کے منصب پر فائز کرکے اور کھربوں ڈالر لٹا کر یہاں سے اُسی طرح خائب و خاسر لوٹ گیا ہے جیسے وہ ویتنام سے بھاگا تھا۔ وقتِ رخصت افغان حکومت کیلئے امریکہ کا پیغام یہ تھا کہ یہ ملک تمہارا ہے‘ لوگ تمہارے ہیں، ہم نے تمہارے ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کو جدید ترین اسلحے کے ساتھ دورِ جدید کی بہترین تربیت دے دی ہے۔ بعض عسکری تجزیہ کاروں کا یہ خیال تھا کہ تربیت یافتہ افغان فوج زیادہ نہیں تو کم از کم تین برس تک تو طالبان کے ساتھ نبردآزما رہ سکتی ہے۔ مگر یہ تجزیہ راکھ کا ڈھیر ثابت ہوا۔ سپرپاور روس ہو یا امریکہ‘ اسلحہ جذبے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ 14 اگست بروز ہفتہ افغان فوج کی کمر اس وقت ٹوٹ گئی تھی جب شمالی افغانستان کے اہم شہر مزار شریف پر طالبان کا قبضہ ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ ہی کابل حکومت کی نبضیں ڈوبنے لگی تھیں۔
مزار شریف اور دیگر کئی اہم شہروں پر قبضے کے بعد کابل میں افراتفری مچ گئی تھی اور لوگ اپنی رقوم نکلوانے کے لیے بینکوں کے باہر قطاروں میں جمع ہوگئے تھے۔ کئی بینکوں میں کیش ختم ہوگیا جس سے شہریوں میں بہت اضطراب پیدا ہوگیا تھا؛ تاہم اب طالبان نے ہر چیز کو کنٹرول کرلیا ہے۔ طالبان کے قائدین نے جرائم پیشہ لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ لوٹ مار سے مکمل طور پر اجتناب کریں اور کسی شہری کو کوئی گزند نہ پہنچائیں۔ قارئین یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے کالم کے ٹائٹل میں مزار شریف دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیوں کیا ہے؟ یہ خواہش بچپن سے میرے شعور اور لاشعور کا حصہ ہے۔ پراچگانِ بھیرہ کا ایک خاندان کابل میں تجارت کرتا تھا۔ اسی نسبت سے یہ لوگ کابلی کہلاتے تھے جبکہ میرے دادا جان حاجی عبدالمجید پراچہ کا کاروبار مزار شریف اور شبرغان میں پھیلا ہوا تھا۔ میرے دادا محترم اپنی دینداری‘ وضعداری اور معاملہ فہمی کی بنا پر اپنے ہمعصروں میں بہت منفردو ممتاز تھے۔ قیامِ پاکستان سے تقریباً دو اڑھائی دہائیاں پہلے وہ بسلسلہ تجارت افغانستان تشریف لے گئے تھے جہاں کابل ومزار شریف میں جلد اُن کی تجارتی ساکھ قائم ہوگئی تھی اور معززین شہر سے اُن کے احترامِ باہمی کی بنیاد پر نہایت خوشگوار تعلقات استوار ہوگئے تھے۔ سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچنے والی خبروں کے مطابق میرے دادا جان کا مزار شریف میں کپڑے اور دیگر اشیائے صرف کا تھوک کا کاروبار تھا۔ دادا مرحوم میرے بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے؛ تاہم ان کے ساتھ مزار شریف میں کام کرنے والے میرے چچا عبدالقیوم وہاں کے لوگوں کے تجارتی لین دین اور آپس کے خوشگوار تعلقات اور پُربہار معاشرتی مجالس کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ میری دادی محترمہ بھی اپنے اہل خاندان کے ہمراہ مزار شریف اور شبرغان آتی جاتی رہتی تھیں۔ وہ افغانستان کے اس پہاڑی علاقے کی معتدل آب و ہوا‘ وسیع و عریض گھروں میں لگے پھلدار پودوں‘ بادام و اخروٹ کے درختوں اور وہاں کے لوگوں کی دلکش کہانیاں سناتی رہتی تھیں۔ میرے چچا محترم پندرہ سولہ برس کی عمر میں تن تنہا کپڑے کا ٹرک لے کر ازبکستان چلے جاتے اور اسے منافع پر فروخت کرکے وہاں سے ٹوپیوں کے لیے پوست کا ٹرک بھر کر لاتے اور اسے مزار شریف اور شبرغان میں فروخت کر دیا کرتے تھے۔ اس تجارتی آمدورفت سے اندازہ لگائیے کہ اس وقت افغانستان میں کتنا امن و امان تھا۔میرے دادا محترم نے 1937ء میں اپنے تینوں صاحبزادگان کیلئے فارسی زبان میں ایک یادگاری منظوم دعائیہ قالین مزار شریف سے بنوایا تھا جو ان کی خوش ذوقی کا ایک ثبوت ہے۔ اس قالین میں دادا جان نے اپنے بچوں کیلئے خوش بختی‘ دولت و فرخندگی‘ کشادگی رزق‘ مسرت و شادمانی‘ فتح و نصرت اور مہمانوں کی کثرت کی دعا مانگی ہے۔ یہ ہے وہ خاندانی و تجارتی پس منظر جس کیلئے بچپن سے میرے دل میں مزار شریف دیکھنے کی آرزو موجود ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ مزار شریف اور افغانستان کے چپے چپے کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
افغانستان کا سابقہ منظرنامہ ذرا ذہن میں تازہ کر لیجئے۔ 1978ء میں سوویت یونین کی شہ پر افغانستان میں نور محمد ترکئی کی کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تھی۔ 1979ء میں حفیظ اللہ امین نے ترکئی کا تختہ الٹا اور خود برسراقتدار آگئے۔ حفیظ اللہ امین اسلامی خیالات کی بنا پر اس وقت کے روسی کمیونسٹ ماڈل پر پورے نہ اترتے تھے لہٰذا دسمبر 1979ء میں روسی افواج ٹینکوں اور ٹرکوں پر سوار ہوکر افغانستان پر حملہ آور ہوگئی۔ غاصب کمیونسٹ فوج کے خلاف افغانوں نے جہادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ پاکستان‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ چین اور کئی مسلم ممالک نے مجاہدین کی حتی المقدور مدد کی تھی۔افغانوں کی حریت پسندی اور مجاہدین کی قوت و نصرت کا اندازہ لگانے میں روسی حکومت کو دس برس لگے اور فروری 1989ء میں سوویت فوج کا آخری سپاہی بھی افغانستان سے نکل گیا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس کے بعد مجاہدین کی حکومت اور متحارب گروہ آپس میں دست و گریباں ہوگئے۔ مارچ 1993ء کے رمضان المبارک میں افغان صدر برہان الدین ربانی اور دیگر مجاہدین تنظیموں کے سربراہ اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کے ہمراہ مکۃ المکرمہ پہنچے جہاں شاہ فہد بن عبدالعزیز نے اُن کا خیرمقدم کیا اور تمام تنظیموں نے حرم مکی میں ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ جمعۃ المبارک کا روزِ سعید تھا جب خطبۂ جمعہ میں شیخ عبدالرحمن بن السدیس نے مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے نہایت دلسوزی کے ساتھ کہا کہ آپ لوگ باہمی چپقلش کے نتیجے میں آگ کے کنارے پہنچ چکے تھے مگر اب اللہ کی رحمت سے ایک بار پھر بھائی بھائی ہوگئے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر یہ فقیر بھی ایک نمازی کی حیثیت سے حرمِ مکی میں موجود تھا۔ مجاہدین کے درمیان صلح کے اس معاہدے پر ساری امت مسلمہ بہت خوش تھی مگر افسوس کہ واپس افغانستان پہنچ کر مجاہدین ایک بار پھر دست و گریباں ہوگئے جس کے نتیجے میں طالبان کی شکل میں نئی جہادی قوت نمودار ہوئی۔
امریکہ نے 2001ء میں لائو لشکر اور جدید ترین اسلحے سمیت افغانستان پر حملہ کیا۔ روس نے جو بات دس برس میں سمجھ لی تھی امریکہ نے اس حقیقت تک پہنچنے میں 20 برس لگائے۔ گزشتہ 20 برس کے دوران جہاں طالبان نے اپنی جنگی مہارت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے وہاں انہوں نے اپنے مسلک اور علاقے سے بلند ہوکر مختلف مسالک اور قبائل کے ساتھ وسیع تر اتحاد قائم کرلیا ہے۔ اب افغان طالبان کے خیالات و نظریات میں کافی لچک پیدا ہوچکی ہے۔ طالبان اور بچی کھچی افغان حکومت کے درمیان جو مفاہمت کی فضا دیکھنے میں آئی ہے اللہ کرے یہ قائم و دائم رہے۔ ہمارے افغان بھائیوں نے صلح جوئی کا جو راستہ منتخب کیا ہے وہ انہیں مبارک ہو۔ ہماری یہ بھی دعا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو۔ اب مجھے قوی امید ہے کہ ان شاء اللہ میں اپنی دیرینہ خواہش پوری کر لوں گا اور افغانستان میں امن قائم ہوتے ہی مزار شریف کی زیارت کے لیے جا سکوں گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved