تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     17-08-2021

بھٹو کی پھانسی اور چڑیا

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے حال ہی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی موجودہ حکومت کے دور میں تیسری ممکنہ گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ''ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ایک چڑیا بھی نہیں پھڑکی تھی‘‘۔
شیخ صاحب ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ چشم دید گواہوں کا بیان ہے کہ 4 اپریل 1979ء کی صبح کو جب اخبارات کے خصوصی ضمیموں اور سرکاری ذرائع سے لوگوں پر آشکار ہوا کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے تو لاہور کی سڑکیں‘ گلیاں اور چوک‘ سب یکلخت سنسان ہو گئے تھے۔ انار کلی میں ریڑھی بانوں نے اپنی ریڑھیاں عجلت اور خوف کے عالم میں گھسیٹ کر بازار سے غائب کر دی تھیں۔ کسی موڑ پر چند اشخاص‘ جو حسبِ معمول تازہ ہوا خوری کے لیے ہر صبح اپنے گھروں سے نکل کر خالی سڑکوں پر چہل قدمی کرتے تھے‘ حیرانی اور تجسس کی حالت میں ایک دوسرے کے قریب آ کر کھسر پھسر کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر پھیلی ہوئی حیرانی اور پریشانی کی وجہ ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ پاکستان میں کوئی بھی شخص توقع نہیں رکھتا تھا کہ اس حد تک جایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ فروری 1979ء میں ڈیلی ٹیلی گراف کے ساتھ ایک انٹرویو میں بھٹو صاحب کہہ چکے تھے کہ ان کی جان بخشی کی کوئی امید اگر باقی تھی تو وہ ایران میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ اس طرح مخالفین کے پروپیگنڈے کے برعکس بھٹو کو پورا یقین تھا کہ جن لوگوں نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا ہے‘ وہ انہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
اسی قسم کے خیالات کا انہوں نے 4 جولائی 1977ء سے پہلے اپریل میں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بھی اظہار کیا تھا۔ انہی دنوں انہوں نے اپنا مشہور فقرہ کہا تھا کہ ''میرے قتل پر ہمالیہ بھی روئے گا‘‘۔ اس پر سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات الطاف گوہر نے اپنے زیرِ ادارت ایک انگریزی اخبار میں اداریہ لکھا تھا کہ Mountains do not weep (پہاڑ رویا نہیں کرتے)۔ بات تو درست ہے۔ پہاڑوں کو روتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا لیکن ہزاروں برس سے اونچے اونچے پہاڑوں سے گھری ہوئی وادیوں میں رہنے والے انسانوں کو اس قدرتی ماحول سے الگ کر کے نہ دیکھیں تو بھٹو کو پھانسی دیے جانے پر ہمالیہ فی الحقیقت رویا تھا۔ ہمالیہ کی گود میں سرسبز اور حسین وادیوں‘ شور مچاتی ہوئی ندیوں اور ہزاروں آبشاروں اور گھنے جنگلوں پر مشتمل ایک چھوٹے سے ملک نیپال کی سب سے بڑی ''تریدھوان یونیورسٹی ‘‘ کے طلبہ نے جونہی بھٹو کی پھانسی کی خبر سنی تو وہ اپنے کلاس رومز سے فوراً باہر آ گئے اورکٹھمنڈو میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ جب مظاہرہ پُر تشدد ہونے لگا تو نیپالی پولیس نے ہجوم پر گولی چلا دی‘ جس کے نتیجے میں چند طلبہ ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ اس پر مظاہروں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس وقت نیپال میں ایک آمرانہ حکومت تھی‘ جس نے اس ڈر سے کہ بھٹو کی پھانسی کے خلاف احتجاج حکومت مخالف رخ اختیار نہ کر لے‘ مظاہرین کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے لاٹھی چارج اور فائرنگ شروع کر دی تھی‘ لیکن مظاہرے پھیلتے چلے گئے تھے اور انہوں نے نیپال میں آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے حق میں ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی۔ 1990ء میں نیپال کے بادشاہ کا ملک میں آئینی بادشاہت اور پارلیمانی جمہوریت کی بحالی پر راضی ہونا اسی عوامی تحریک کی رہینِ منت ہے جس کا آغاز 1979ء میں بھٹو کی پھانسی کے خلاف ملک بھر کے طلبا کی احتجاجی تحریک سے ہوا تھا۔
نیپال جنوبی ایشیا کا واحد ملک نہیں تھاجہاں بھٹو کی پھانسی کی خبر پہنچتے ہی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ جس طرح نیپال کے طلبہ نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر بھٹو کے قتل پر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا اسی طرح بنگلہ دیش‘ حتیٰ کہ بھارت کے شہر کلکتہ میں بھی مظاہرے ہوئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام مظاہروں کی قیادت یونیورسٹی کے طلبہ کر رہے تھے۔
1978ء میں مجھے کمپالا (یوگنڈا) کی مشہور یونیورسٹی میکریرے (Makerere) کے پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں تدریسی فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا لیکن کمپالا میں آمد کو ابھی ایک برس بھی نہیں ہوا تھا کہ یوگنڈا اور تنزانیہ میں جنگ چھڑ گئی۔ اس پر حکومت پاکستان نے یوگنڈا میں مقیم پاکستانیوں کے انخلا کے پروگرام کا اعلان کر دیا۔ اس پروگرام کے تحت پاکستانی شہریوں کو ٹرین کے ذریعے کمپالا سے کینیا کے دارالحکومت نیروبی تک پہنچانا تھا اور نیروبی سے کراچی لے جانے کیلئے پی آئی اے کی خصوصی پرواز کا اہتمام کیا گیا تھا۔ہماری ٹرین 4 اپریل کو نیروبی پہنچی تو پہلی خبر یہ ملی کہ شہر کی تقریباً تمام بڑی سڑکیں اور مارکیٹیں بند ہیں۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ جوموکنیاٹا یونیورسٹی اور نیروبی کے دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا نے بھٹو کی پھانسی کے خلاف ایک زبردست جلوس نکالا ہوا ہے‘ جس کی وجہ سے شہر میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مظاہرین نیروبی میں پاکستانی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرنا چاہتے ہیں لیکن کینیا کی حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ جب مظاہرین نے زبردستی سفارت خانے کی طرف بڑھنا چاہا تو انہیں پولیس کے لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ عرصہ پیشتر ایک انگریزی روزنامے کیلئے اسی موضوع پر کالم لکھنے کیلئے Keesing's World News Archive پر متعلقہ صفحوں کا مطالعہ کر رہا تھا تو معلوم ہوا کہ بھٹو کی پھانسی کے خلاف احتجاج جنوبی ایشیا اور افریقہ تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے‘ جن میں بھٹو کی پھانسی کی مذمت کی گئی تھی۔ اس کے باوجود اگر شیخ رشید صاحب کہتے ہیں کہ بھٹو کی پھانسی پر ایک چڑیا تک نہیں پھڑکی تھی تو ممکن ہے ٹھیک ہی کہتے ہوں کیونکہ پاکستان میں اُس وقت مارشل لا نافذ تھا‘ اور جب مارشل نافذ ہو تو چڑیا کا پھڑکنا تو دور کی بات‘ کوڑوں کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں میرے ایک کولیگ ارشد کریم ہوا کرتے تھے۔ پاکستان میں اور کئی لوگوں کی طرح ان کا بھٹو کے سخت ترین ناقدین میں شمار ہوتا تھا۔ ان کی بھٹو دشمنی کا یہ عالم تھا کہ ڈیپارٹمنٹ میں آتے وقت پہلی سیڑھی پرقدم رکھتے ہی وہ بھٹو کے خلاف اپنی طویل چارج شیٹ بیان کرتے ہوئے اپنے آفس میں داخل ہوتے تھے اور جاتے وقت آخری سیڑھی تک وہی الزامات دہراتے ہوئے اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہوتے۔ بھٹو کی پھانسی کے بہت عرصہ بعد کسی محفل میں ان کے ساتھ اسی موضوع پر بات ہوئی تو چہرے پر اداسی کے ساتھ مجھے کہنے لگے: یار رشید‘ تمہیں معلوم ہے کہ میں بھٹو کا کتنا مخالف رہا ہوں‘ میرے ساتھ میرے تمام گھر والے بھی بھٹو کو سخت ناپسند کرتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس دن بھٹو کی پھانسی خبر نشر ہوئی نہ صرف میں نے بلکہ میرے تمام گھر والوں نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا کیونکہ ہمارے گھر اس دن چولہا گرم نہیں ہوا تھا۔ میں نے یہ سنا ہے کہ یہ کیفیت صرف ایک گھر پر طاری نہیں تھی بلکہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں کروڑوں گھر ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھے۔ پھر بھی شیخ صاحب کہتے ہیں کہ بھٹو کی پھانسی پر چڑیا تک نہیں پھڑکی تھی تو وہ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ''خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved