تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     17-08-2021

دور اُفق پر سویرا

سویرا کا لفظ لکھا تو بے اختیار جی چاہا کہ اس کے ساتھ سرخ کے اسم صفت کا اضافہ کروں۔ پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ سویرا تو کوئی مخصوص رنگ نہیں ہوتا۔ ایران میں انقلاب آیا وہ سبز انقلاب تھا ‘ روس‘ چین اور ویت نام میں اس کا رنگ سرخ تھا چونکہ وہاں سوشلسٹ ‘کمیونسٹ انقلاب آئے۔جنوبی (لاطینی) امریکہ میں پہلا اشتراکی انقلاب جس کے قائد کاسترو اور چی گویرا تھے کیوبا میں آیا‘ تاریخ تھی 26 جولائی1956ء ۔ پھر چار ممالک میں بائیں بازو (سوشلسٹ) کے سیاسی رہنما انتخابات میں کامیاب ہو کر برسر اقتدار آئے۔ چلی میںAllende ‘ وینزویلا میں شاویز ‘ بولیوبا میں Morales جبکہ وسطی امریکہ کے دو ممالک نکاراگوا میںSandinistas نامی انقلابی اور اشتراکی تحریک اور میکسیکو جہاں دو سال قبل Andres Manuel Lopez Obradorصدر بنے۔
بدقسمتی سے جنوبی امریکہ کے دو بڑے ممالک برازیل اور ارجنٹائن ‘جن پر اس براعظم کا تین چوتھائی حصہ مشتمل ہے‘ میں دائیں بازو کی نیم فسطائی جماعتیں برسر اقتدار ہیں۔ دونوں میں عوام کا برا حال ہے۔ دونوں ممالک میں ایک چھوٹی سی اقلیت (بمشکل ایک فیصد) دولت اور اقتدار پر قابض ہے اور بیک وقت ان دونوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ لاطینی امریکہ کے ایک شمالی ملک کولمبیا میں اشتراکی انقلابی تحریک (FARC ) نے 25 برس جنگلوں میں گوریلا جنگ لڑ کر جنوبی کولمبیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل کر لیا ہے۔ پیرو میں بھی اسی طرح کی انقلابی جماعت (Shining Path) نے اس سے دو گنا عرصہ گوریلا جنگ لڑی مگر وہ مسلح جدوجہد کے ذریعہ حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکی‘مگرجولائی کے آخر میں پیرومیں چشم فلک نے یہ منظر دیکھا کہ جو کام بندوق سے نکلنے والی گولی نہ کر سکی وہ کاغذ کی پرچی نے کر دکھایا۔ صدارتی انتخاب کوبائیں بازو کے 51 سالہ سابق سکول ٹیچرPedro Castilloنے جیت لیا۔ آپ اس ملک کے سیاسی عدم استحکام کا اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ گزشتہ تین سالوں میں اپنے ملک کے پانچویں صدر تھے۔ اُنہوں نے حلف برداری کی تقریب میں اپنا وہی بڑے سائز کا سفید ہیٹ پہنا جو انتخابی مہم میں اُن کا انتخابی نشان بن گیا تھا۔ Pedro کو اپنے مخالف پر بہت تھوڑے ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی مگر اُن کی کامیابی نے پیرو کا سیاسی نقشہ بدل دیا۔ اُنہیں اپنی کامیابی کی اُمید اتنی کم تھی کہ اُنہیں اپنی کابینہ کے اراکین کے ناموں کا اعلان کرنے میں بھی دو دن لگ گئے۔اُنہوں نے حلف برداری کے بعد جو پہلی تقریر کی وہ بڑی معقول اور متوازن تھی‘ اُنہوں نے کہا کہ وہ بہت سی اصلاحات کرنے اور کئی تبدیلیاں لانے کا منشور پیش کر کے کامیاب ہوئے ہیں مگر وہ نہ جلد بازی کا مظاہرہ کریں گے اور نہ انتہا پسندی کا۔ وہ معاشی نظام میں جو تبدیلیاں لائیں گے وہ بڑی احتیاط‘تدبر اور ذمہ داری پر مبنی ہوں گی۔ نئے صدر نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کرنے کا عہد پھر دہرایا۔ لاطینی امریکہ میں وینزویلا کے شاویز‘ بولیویا کے Moralesاور ترکی میں اردوان نے بھی یہی کیا تھا‘ اُنہوں نے حلف برادری کی تقریب میں بڑا سادہ لباس پہنا تاکہ اُن کے ملک کے عام لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ یہ شخص جو ساری عمر معمولی تنخواہ پر کام کرتا رہا ملک کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچ کر بھی نہیں بدلا۔ دو سو سال قبل پیرو اُن ممالک میں شامل تھا جو سپین کے نو آبادیاتی تسلط سے آزاد ہوئے تھے۔ گزری ہوئی دو صدیوں میں پیرو کا ہر سربراہ مملکت اُس محل میں رہتا تھا جو ہسپانوی حملہ آوروں کے سردار Francisco Pizarroنے اپنے جاہ و جلال کی نمائش کیلئے بنوایا تھا۔ Pedro نے اُس میں قدم رکھنے سے انکار کرتے ہوئے ایک عام سرکاری گھر کو اپنی رہائش گاہ بنایا۔ پیرو میں تین نسلیں آباد ہیں: مقامی (Indian)‘ سفید فام (ہسپانوی) اور ان دونوں کی مشترکہ اولادجو Mestizoکہلاتی ہے۔ Pedro کا تعلق موخر الذکر سے ہے۔ وہ پہلے Mestizoنہیں جو صدارت کے عہدہ جلیلہ تک پہنچا ہو نہ ہی وہ اتنی اونچی سیڑھی پر چڑھنے والے پہلے شخص تھے جس کا حکمران اشرافیہ سے دور کا بھی تعلق نہ ہو مگر پیرو کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی رہنما نے اُن سے زیادہ اشتراکی منشور پیش کر کے کامیابی حاصل نہیں کی۔ اُنہوں نے پہلے کوئی سرکاری عہدہ نہیں سنبھالا۔ صدارتی انتخاب کے پہلے رائونڈ میں اُنہیں صرف 15 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اور دوسرے رائونڈ میں وہ صرف 44ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے۔ اُن کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ رائے دہندگان کی اکثریت دائیں بازو کی قدامت پسند خاتونKeiko Fujimorsکو بہت ناپسند کرتی تھی جس کے والد نے تیس سال قبل پیرو پر بطور آمرِ مطلق حکومت کی تھی۔ آپ یہ پڑھ کر بالکل حیران نہیں ہوں گے کہ ہارنے والی خاتون نے وہاں بھی انتخابات میں فراڈ اور دھاندلی کے الزامات لگائے۔ جو الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیے۔
Pedro قصرِ صدارت میں نہ بھی رہیں‘ کرسی صدارت پر تو وہی بیٹھیں گے۔ اُن کی پشت پر جو بڑی طاقت ہے اُس کا نام ہےVladimir Cerronجو بطور مارکسٹ پہچانے جاتے ہیں وہ Free Peruنام کی سیاسی جماعت کے سب سے بڑے رہنما ہیں۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے (آبادی کے تناسب سے) دنیا میں سب سے زیادہ لوگ پیرو میں ہلاک ہوئے۔ معاشی نظام گیارہ فیصد سکڑ گیا‘ کل آبادی میں غریبوں کا تناسب 20 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا۔ Pedro کے راستے میں سب سے بڑا سنگ گراں یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے 130 اراکین میں اُن کی پارٹی کے اراکین کی تعداد صرف 37 ہے اور Pedroآئین میں جو بڑی ترامیم کی خواہش رکھتے ہیں وہ صرف اس شکل میں ممکن ہوگی جب قومی اسمبلی کے اراکین اور ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت اس ترمیم کی حمایت کرے۔ Pedro کا عوام دوست منشور اُن کی بے داغ شہرت‘ جذبۂ خدمت‘ عوام میں گہری جڑیں اور بقول اقبال نگہ بلندسخن دلنواز جاں پرسوزیہی Pedro کا رخت سفر ہے اور یہی خوبیاں اُن کی کامیابیوں کی ضمانت ہیں۔
کالم نگار کو وہ پرانا وقت (65 برس پہلے کا دور) یاد آتا ہے جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں بے مثال اور کمال کے جرمن استاد Prof. Frittersکے قدموں میں بیٹھ کر علم سیاسیات پڑھتا تھا تو تیسری دنیا میں (چین اور ویت نام میں سوشلسٹ انقلاب اور بھارتی صوبہ کیرالہ میں کمیونسٹوں کی پہلی انتخابی کامیابی کی وجہ سے) ایشیا کو برتری حاصل تھی۔ افریقہ جاگ رہا تھا اور لاطینی امریکہ کے قریباً ہر ملک میں آمروں کا راج تھا۔ کالم نگار بوڑھا ہوا تو کایا پلٹ گئی۔ بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت اور سامراج پرور عرب حکمرانوں (جن میں مصر کا صدر جنرل سیسی سرفہرست ہے) کی وجہ سے ایشیا سب سے پیچھے چلا گیا اور لاطینی امریکہ عوام دوستی‘ روشن دماغی اور ترقی پسندی کے معیار پر پورا اُتر کر دوسرے براعظموں پر بازی لے گیا۔ پیرو رقبے سے میں چھوٹا سا ملک ہے صرف پانچ لاکھ مربع میل۔ آبادی تین کروڑ۔ دو تہائی رقبہ جنگلات سے گھرا ہوا‘ زیر کاشت رقبہ صرف تین فیصد۔ اتنے چھوٹے ملک میں بھی 24 انتظامی وحدتیں (صوبے) ہیں۔ عالمی شہرت کی دنیا بھر میں سب سے بلند مقام پر جھیلTiticacaاور چھ سو سال قبل تک تخت نشین Inca حکمرانوں کا کمال کا شہرMachu Picchu جوہر سال پانچ لاکھ سیاحوں کودعوتِ نظارہ دیتا ہے۔
کالم لکھا جا چکا تھا کہ ہمارے پڑوسی ملک افغانستان سے طالبان کی بیس سالہ جنگ کے بعد کامیابی کی خبر ملی۔یہ فتح طالبان کو اور دنیا بھر کے سامراج دشمنوں کو مبارک ہو۔میں سارے کام کاج چھوڑ کر آج ہی پھولوں کا ایک گلدستہ لے کر لندن میں افغان سفارتخانے کو دینے جاؤں گا۔ ایران کے بعد یہ دوسرا سبز انقلاب ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved