عصرِ حاضر نے مختلف امور میں ہمارے لیے جو سہولتیں پیدا کی ہیں‘ اُن سے مستفید ہونے کا معاملہ تو ایسا ہے کہ گدھا کھا مرے کہ اُٹھا مرے۔ کوئی بھی سہولت زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ مشکلات سے دوچار کرنے یا پہلے سے موجود مشکلات کو بڑھانے کے لیے۔ ہم ایک ایسے عہد کے نصیب میں لکھے گئے ہیں جس میں بہت کچھ ہے جو آسانیوں کی راہ ہموار کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ اُس کے ذریعے اپنی مشکلات کا گراف بلند کرتے جارہے ہیں۔ میڈیا کے محاذ پر جو فقید المثال ترقی یا پیشرفت ممکن بنائی جاچکی ہے اُس نے ایک طرف بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں‘ رابطے آسان اور بہتر ہوگئے ہیں جبکہ دوسری طرف مشکلات ہیں کہ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ مشکلات اس لیے بڑھ رہی ہیں کہ ہم سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ جب ہر معاملے میں سوچنے اور سمجھنے کی روش کو ترک کیا جاچکا ہے تو پھر میڈیا سے استفادہ کرنے کے معاملے میں دل و دماغ کو بھلا کیوں زحمت ِ کار دی جائے؟ یہی سبب ہے کہ زندگی کو آسانی سے ہم کنار کرنے والی ہر چیز ہماری زندگی میں مشکلات کی تعداد اور شدت بڑھارہی ہے۔
ایک طرف مین سٹریم میڈیا پورٹلز ہیں اور دوسری طرف سوشل میڈیا پورٹلز۔ اِنہیں چکی کے دو پاٹ کہیے جن کے درمیان آج کا انسان پِس رہا ہے۔ میڈیا کی بہتات کے ہاتھوں زندگی کا تیا پانچا ہوکر ہوچکا ہے۔ معاملہ ضرورت سے زیادہ مستفید ہونے کا ہے۔ اگر پیاس لگی ہو تو پانی پیا جاتا ہے۔ ایک گلاس پانی سے پیاس نہ بجھے تو مزید ایک گلاس پانی پیا جاتا ہے۔ اِتنے پانی میں بالعموم پیاس بجھ جاتی ہے۔ پیاس بجھنے کا احساس ہو جانے پر بھی پانی پیا جاتا رہے تو خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اگر ضرورت کے بغیر کچھ کھایا پیا جائے تو معاملہ خرابی تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔ ہم نے اس بنیادی حقیقت کو میڈیا کے معاملے میں یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ یہ بات سبھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کسی بھی چیز کا غیر ضروری استعمال غیر مطلوب نتائج پیدا کیا کرتا ہے مگر پھر بھی دل پر اختیار نہیں۔ کوئی کتنا ہی سمجھائے کہ ہر سہولت ایک خاص حد تک بروئے کار لانے کے لیے ہوتی ہے مگر کون سنتا ہے فغانِ درویش۔
میڈیا سے غیر ضروری حد تک ''مستفید‘‘ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ذہن الجھتا چلا جاتا ہے۔ کسی اور سہولت سے غیر ضروری استفادہ وہ خطرناک نتائج پیدا نہیں کرتا جو میڈیا کے غیر ضروری استعمال سے پیدا ہوتے ہیں۔ معلومات کا سیلابِ بلا خیز ہے کہ بڑھتا آتا ہے اور ہم ہیں کہ بچنے کی کوشش کرنے کے بجائے خود کو اِن سیلابی ریلوں کی نذر کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ ایسے میں کیا ہوسکتا ہے؟ یہی نا کہ زندگی مزید غیر متوازن ہو رہے۔ کسی بھی دوسری سہولت کے مقابلے میں میڈیا کا غیر ضروری استعمال انسان کو نفسی اور فکری سطح پر انتہائی نوعیت کی الجھن سے دوچار کرکے دم لیتا ہے۔ آج ہم سوشل میڈیا پورٹلز سے ہمہ وقت مستفید ہونے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ سوچنے کی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا کہ یہ پورٹلز ہماری زندگی میں کس نوعیت کی پیچیدگیوں کی راہ ہموار کرتے جارہے ہیں۔ جو معلومات ہم تک پہنچتی ہیں وہ کسی نہ کسی سطح پر ردِعمل پیدا کرکے دم لیتی ہیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم کچھ جان پائیں اور وہ ہماری نفسی اور فکری ساخت پر اثر انداز نہ ہو۔ اور معاملہ حِسّی ساخت پر منفی اثرات کے مرتب ہونے کا بھی تو ہے۔ جب بھی ہم مین سٹریم اور سوشل میڈیا پورٹلز پر کچھ دیکھتے ہیں تو اُس کا کسی نہ کسی سطح پر اثر قبول کرتے ہی ہیں۔ عمومی اور سب سے زیادہ دکھائی دینے والا اثر یہ ہے کہ ہم کوئی نہ کوئی رائے قائم کرتے ہیں اور پھر اُس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پورٹلز پر ایسا بہت پیش کیا جاتا ہے جو ہماری فکری ساخت کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ کسی وڈیو کو دیکھ کر یا کوئی رائے، تبصرہ، تقریر سُن کر ہم اندر ہی اندر الجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے کٹورے سے جو کچھ ہم اپنے ذہن کے کٹورے میں انڈیلتے ہیں وہ ہلچل مچائے بغیر نہیں سکون کا سانس نہیں لیتا۔ یہ ہلچل کوئی نہ کوئی سوچ پیدا کرتی ہے اور جب خیالات پیدا ہوجائیں تو اُن کا اظہار بھی لازم ٹھہرتا ہے۔ اگر اظہارِ خیال کا موقع نہ ملے تو انسان مزید الجھتا ہے۔ یہ کیفیت بہت سے معاملات کو خرابی سے دوچار کرتی ہے۔ جھنجھلاہٹ کے عالم میں انسان کسی بھی معاملے میں کچھ بھی کر بیٹھتا ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز کے ذریعے بہت کچھ وصول کرنے اور دوسروں تک بہت کچھ منتقل کرنے کے عمل نے ذہنوں کو شدید پیچیدگیوں سے دوچار کردیا ہے۔ ایک واضح منفی اثر تو یہ ہے کہ بات بے بات کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کی عادت سی پڑچکی ہے۔ لوگ آڈیو اور وڈیو چیٹ پر اچھا خاصا وقت ضائع کرتے ہیں۔ میڈیا کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ کچھ نیا اور مثبت کرنے کی تحریک ملے۔ معلومات اگر غیر متعلق ہوں تو انسان کو مزید الجھاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے عہد میں یہی تو ہو رہا ہے۔ بہت کچھ ہے جو ہمارے لیے کسی کام کا نہیں مگر پھر بھی ہم نہ صرف یہ وصول کر رہے ہیں بلکہ قبول بھی کر رہے ہیں۔ جن باتوں سے ہمارا کوئی بنیادی تعلق نہ ہو اُن پر بھی متوجہ رہنے کی صورت میں الجھنیں بڑھ رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کو دیا جانے والا وقت ہمیں اِس قبل نہیں چھوڑتا کہ اپنے ضروری معاملات پر متوجہ ہوں۔ چوبیس گھنٹوں میں دو تین گھنٹے اپنے وجود کو بھی دینا ہوتے ہیں، اپنے بارے میں بھی سوچنا پڑتا ہے تاکہ معاملات درست رکھے جاسکیں، تھوڑی بہت منصوبہ سازی کی جاسکے۔ یہ وقت بھی ہم سوشل میڈیا کی نذر کرکے اپنے لیے مشکلات بڑھالیتے ہیں۔
فی زمانہ بہت کچھ لازم ہوکر رہ گیا ہے۔ اس میں وقت کا نظم و نسق سب سے اہم ہے۔ وقت ہی سب کچھ ہے۔ اگر اس کا مؤثر استعمال ممکن نہ بنایا جائے تو بہت کچھ بگڑ جاتا ہے۔ نئی نسل کو یہ نکتہ خاص طور پر سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وقت کا موزوں ترین استعمال ہی زندگی کی بنیاد مضبوط بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ آج ہم بہت سے غیر متعلق اور یکسر لاحاصل قسم کے معاملات میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا کے اثرات کم اور سوشل میڈیا کے اثرات زیادہ ہیں۔ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے کسی بھی حوالے سے بات دوسروں تک پہنچانا بہت آسان بنادیا ہے۔ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب انسان دن رات ''اَپ ڈیٹ‘‘ میں مصروف ہے۔ بہت سوں کو کھانے پینے سے کہیں زیادہ فکر سٹیٹس اَپ ڈیٹ کرنے کی لگی رہتی ہے۔ اَپ ڈیٹ کے اس چکر نے پوری قوم کو گھن چکر بنایا ہوا ہے۔ زندگی اوّل و آخر توازن برقرار رکھنے کا نام ہے۔ نہ کسی چیز کے لیے بہت ترسنا چاہیے اور نہ ہی اُس کی بہتات کے ہاتھوں بہت کچھ داؤ پر لگادینا چاہیے۔ میڈیا فورمز ہماری رہنمائی کیلئے ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی بربادی کے سامان کی چیز بنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ شخصی ارتقا کے ماہرین اور مصنفین اس نکتے پر زور دیتے آئے ہیں کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو غیر متوازن ہو تو دیگر پہلو بھی خرابی کی نذر ہوتے جاتے ہیں۔ ایک بنیادی عصری تقاضا یہ بھی ہے کہ کسی بھی غیر ضروری معاملے پر وقت ضائع نہ کیا جائے۔ میڈیا کی بہتات ہم سے دانش مندی چاہتی ہے۔ وقت ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ جس نے وقت ضائع کیا اُس نے زندگی برباد کرلی۔
سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ استعمال بہتر زندگی بسر کرنے میں ہماری بھرپور مدد بھی کرسکتا ہے۔ ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے اور سیکھنے کے عمل میں سوشل میڈیا کا کردار کلیدی نوعیت کا ہوسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس چیز سے زندگی کو بامعنی اور بامقصد بنایا جاسکتا ہے اُسے ہم غیر دانشمندانہ استعمال سے مُضر بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ اور اگر فوری طور پر ختم کرنا ممکن نہ ہو تب بھی معقول حد تک کمی تو لائی جانی ہی چاہیے۔ زندگی جیسی نعمت اس لیے تو عطا نہیں ہوئی کہ غیر متعلق اور لاحاصل معاملات کی نذر کردی جائے‘ یہ تو خالص بے عقلی کے ذریعے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسا معاملہ ہے۔