تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     18-08-2021

افغانستان

افغانستان میں طالبان اتنی جلدی کابل تک پہنچ جائیں گے‘ اس کا اندازہ امریکہ سمیت کسی کو نہیں تھا۔ ہمیں بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ چالیس برسوں سے افغانستان کے ہرمعاملے سے منسلک ہونے کے باوجود پاکستان میں بھی کوئی موجودہ حالات کا درست تجزیہ نہیں کرپایا۔ یہ ہماری اتنی بڑی ناکامی ہے‘ جس نے حالات کی پیش بندی کی پاکستانی صلاحیت کو ایک بار پھر کھول کررکھ دیا ہے۔ امریکہ کی ناکامی سے اپنی ناکامی کی دلیل تراش کرپاکستان میں کسی کے دل کو چین پڑتا ہے تو بسم اللہ‘ حقیقت یہ ہے کہ طالبان اس انداز میں کابل کو زیر کرلیں گے‘ اس کی ہوا تک بھی پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں کسی کو نہیں لگی۔ اب تو ہزاروں شروع ہو جائیں گے کہ میں نے تو اٹھارہ سال پہلے لکھ دیا تھا‘ ہم تو پہلے سے جانتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ درجنوں ایسے بھی ہیں جو جھوٹ موٹ مسکرا کر‘ ذومعنی الفاظ استعمال کرکے سرکار دربار میں یہ بتائیں گے کہ جب فلاں شخص کابل کی فلاں سڑک پر تھا تو اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا: احتیاط کرنا کسی کو پتا نہ چلے۔ حالانکہ حالت ان نابغوں کی یہ تھی کہ ان کا فون بھی کابل میں کوئی نہیں سن رہا تھا اور ان کی مبلغ معلومات ٹی وی سکرین سے ایک انچ بھی آگے کی نہیں تھیں۔ کابل میں طالبان کی آمد ہی کیا‘ ان کوتو یہ بھی علم نہیں تھا کہ بگرام سے امریکی کب نکلیں گے۔ حد تو یہ ہوئی کہ اتوارکے دن جب ہمارے پڑوس میں ایک ملک فتح ہورہا تھا یا یوں کہیے کہ نیا جنم لے رہا تھا توہمارے وزیرخارجہ اپنے حلقۂ انتخاب کے مقامی مسائل حل کررہے تھے۔ اس دن ملتان میں پریس کانفرنس بھی انہوں نے شروع کی تو انہی مقامی مسائل کو اپنا موضوع بنایا۔ جب صحافیوں نے سوالات شروع کیے تو موصوف افغانستان پر آئے اوربڑے فخر سے بتایا کہ افغان حکومت کا ایک وفد ان سے ملنے اسلام آباد آرہا ہے۔ ہمارے وزیرخارجہ کے لیے باعثِ فخراس وفد کا حال یہ تھا کہ اس کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہوچکے تھے اور طالبان کابل کے دروازے پر کھڑے اپنی قیادت کے اگلے حکم کے منتظر تھے۔
افغانستان میں کیا ہورہا تھا‘ ہمیں کیوں نہیں پتا چلا‘ حالات کی خبر کس نے دینا تھی اور اس نے کیوں نہ دی‘ جیسے سوالوں کے جواب کا وقت تو شاید ابھی نہیں آیا البتہ تیزی سے کام کرنے کا وقت ضرور آن پہنچا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا ہمیں افغانستان سے دور رکھنے کا فیصلہ کیے بیٹھی ہے۔ واقعات کو نہ سمجھنے اور ہمیشہ غلط پالیسی اختیار کرنے کی روش کی وجہ سے عالمی سطح پر ہماری ہوا اتنی خراب ہے کہ پیر کے دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے افغانستان پر دوسرے اجلاس میں بھی پاکستان کے نمائندے کو نہیں بلایا گیا۔ ذرا تصور کیجیے کہ اجلاس میں افغانستان کی اُس حکومت کا نمائندہ موجود تھا جس کا صدرملک چھوڑ کر بھاگ چکا ہے۔ بہرحال‘اس اجلاس سے خیر کا پہلو یہ برآمد ہوا کہ اقوام متحدہ نے سقوطِ افغانستان کو تسلیم کرتے ہوئے نئی اور وسیع البنیاد حکومت پرزوردیا ہے۔ ظاہرہے ایسی کسی حکومت کی تشکیل میں بھارت سے لیکر امریکہ تک کا مفاد پاکستان اور افغانستان کے دیگر پڑوسیوں کے اہداف سے بالکل الگ ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک ایسا موقع فراہم کردیا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر پاکستان اپنے لیے مستقبل کا نقشہ تشکیل دے سکتا ہے۔ دنیا کیلئے وسیع البنیاد حکومت ایک رسمی کارروائی ہے لیکن پاکستان کے حالات مختلف ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ افغانستان میں کوئی انتہا پسند حکومت وجود میں آئے یا وہاں طالبان مخالف قوتیں خانہ جنگی میں الجھ جائیں‘ نقصان ہمارا ہی ہوگا۔ اس لیے افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ ظاہر ہے پاکستان ایسی حکومت کی تشکیل میں کوئی اہم کردار نہیں ادا کرسکتا۔ ہمیں بار بار کے تجربے نے سمجھادیا ہے کہ طالبان اپنے مفادات کے تابع فیصلہ کرتے ہیں‘ انہیں پاکستان کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے پاکستان کو بھی انہیں ڈھب پر لانے کا کوئی دوسرا طریقہ دریافت کرنا ہوگا۔ یہ دوسرا طریقہ طالبان کو پڑوسیوں کے ذریعے منانے کی کوشش ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہی پڑوسیوں کی باہمی تجارت افغانستان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ بن سکتی ہے۔ ظاہر ہے جب افغانستان اپنے گرد موجود چھ ملکوں کی گزرگاہ بننا چاہے گا تو یہ چھ ملک چاہیں گے کہ اس گزرگاہ میں استحکام بھی رہے اور سڑکیں بھی محفوظ رہیں۔ مفادات کا یہ اشتراک اس وقت طالبان کویہ بات منوا سکتا ہے کہ حکومت کے تسلسل کا کوئی قابلِ اعتماد اور نظر آنے والا نظام قائم کریں۔ دوسرے یہ کہ ان کی حکومت میں تاجک‘ ہزارہ اورازبک کی نمائندگی محض نمائشی نہ ہو۔ پھر ان پڑوسیوں کویہ خوف بھی ہے کہ افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال ہوسکتی ہے۔ اس معاملے میں طالبان کی زبانی کلامی یقین دہانیاں اپنی جگہ لیکن اس کی اصل ضمانت افغانستان کے اندر کا نظام ہی دے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان چھ ملکوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کا آغاز کون کرے؟ ظاہر ہے یہ کوشش پاکستان کو ہی شروع کرنا ہوگی اور فوری شروع کرنا ہوگی۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے گرد چھ ملکوں میں پاکستان کی سرحد ہی افغانستان کے ساتھ طویل ترین ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ افغانستان کی آبادی کا سب بڑا گروہ یعنی پشتون پاکستان کی آبادی کا بھی اہم ترین حصہ ہے۔ تیسرے یہ کہ پاکستان وسطی ایشیا کے ملکوں سے تجارت کا آغاز چاہتا ہے جس کے سبھی راستے افغانستان سے ہوکر گزرتے ہیں۔ اور چوتھے یہ کہ افغانستان آنے والی کوئی بھی تبدیلی پاکستان کے دو مغربی صوبوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ آئندہ ایسا نہ ہونے پائے اس لیے ہمیں ان اثرات کو روکنے کی ابھی سے پیش بندی کرنی چاہیے۔ ان چار اسباب کے علاوہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو کسی نہ کسی درجے میں طالبان اور دیگر افغان گروہوں کے ساتھ بات کرسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں چین سمیت اس خطے میں بات کرنے کا مینڈیٹ مل جائے تو ہماری سفارتی تنہائی ختم ہوسکتی ہے۔
افغانستان کے بارے میں ایک اور یادر رکھنے والی بات یہ ہے کہ اس ملک کا سقوط بہت جلد ہوجاتا ہے۔ سوویت یونین ہو یا امریکہ‘ دونوں جب اس میں داخل ہوئے تو ابتدا میں کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے بے تحاشا گولیاں اور طیاروں سے بے پناہ بم گرا کر یہ سمجھ لیا کہ افغانستان فتح ہو چکا ہے۔ مسئلہ سقوط سے کچھ دن بعد شروع ہوا۔ اس بار بھی طالبان بظاہر بڑے آرام سے کابل تک پہنچ گئے ہیں لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ان کے خلاف کوئی تحریک کب شروع ہوتی ہے۔ ہمیں خانہ جنگی کی ایسی کسی بھی صورتحال سے افغانستان کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا اپنا مفاد بھی یہی ہے۔ طالبان کو خود بھی افغانوں کے اس وصف کا خوب اندازہ ہے۔ اس لیے جب ان تک ایک مشترکہ موقف پہنچے گا تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ اگر وہ اپنے پڑوسیوں کی بات نظر انداز کرتے ہیں تو پھر وقت پڑنے پر ادھر سے بھی کچھ مدد نہیں ہونے والی۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان واقعی اس خطے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے؟ یہ سوال اٹھانے کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں قنوطیت‘ ردعمل کا ڈریا اپنے امیج کی خرابی کا بے بنیاد خوف اہم عناصر نظر آتے ہیں۔ اپنے اہداف مقرر کرکے حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی بجائے بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا پالیسی کی بنیاد نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے پالیسی سازوں کیلئے بس دعا ہی کی جاسکتی ہے‘ امیدباندھنا تو کافی مشکل نظر آتا ہے۔ خیر ہمیں تو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے‘ جیسے سلیم احمد نے کہا تھا:
غنیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved