تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     18-08-2021

گریٹ گیم کا عبرت آموز اختتام؟

ماضی کی عالمی طاقتوں نے انیسویں صدی میں افغانستان کوگریٹ گیم کا میدانِ کارزار اُس وقت بنایا جب روس کی ملکہ کیتھرائن دی گریٹ نے گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ زارِ روس کے اِس پلان کو ناکام بنانے کی خاطر برطانیہ نے افغانستان کو نسلی تعصب، تشدد اورخون ریزی کا جہنم بنا کے روسی عزائم کے سامنے آگ و خون کی دیوارکھڑی کر دی۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال میں افغانستان میں لڑی گئی تمام جنگووں کا محور یہی گریٹ گیم تھی لیکن تقدیر نے تدبیرِ مخفی سے اِن بے رحم عالمی قوتوں کو باری باری افغانستان کے اُس دلدل میں پھنسا دیا جس میں وہ دوسروں کو ٹریپ کرنے کی سازشیں کرتی رہی تھیں۔ افغانستان سے دنیا کی سپرپاورکی شرمناک پسپائی نے جہاں ڈیڑھ سو سالوں پہ محیط گریٹ گیم کے خاتمے کی نوید سنائی ہے‘ وہاں اسی تغیر نے پیراڈائم شفٹ کے اُس پہلے مرحلے کی تکمیل کا ناقوس بھی بجا دیا ہے جس کے ذریعے طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہونے والا ہے۔ لاریب! افغانستان میں امریکی جارحیت کا بنیادی مقصد تیزی سے معاشی ترقی کی منزلیں طے کرتے چین اور دنیا کے نقشے پہ ابھرنے والی پہلی مسلم ایٹمی طاقت پاکستان کو کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں میں الجھانا تھا لیکن چین اور پاکستان نے نہایت تحمل اور کمال حکمت و دانائی کے ساتھ نہ صرف اس خطے کو اِس نامطلوب جنگ کے مہیب شعلوں سے بچایا بلکہ خاموش مزاحمت کے ذریعے سپر پاور کو بدترین شکست کا مزا چکھا کے جنگ عظیم دوم کے بعد مسلط ہونے والے عالمی استعماری نظام کی ہیت ترکیبی بدل ڈالی۔ افغانستان سے امریکی انخلا معمولی واقعہ نہیں بلکہ یہ اس قدر وسیع و عمیق تغیرات کا پیش خیمہ ہے جس سے عالمی سیاست کا اجتماعی ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ دوسری جنگ عظیم کا اختتام جس طرح سلطنت عثمانیہ کے خاتمے پہ ہوا تھا اِسی طرح افغانستان سے امریکا کی پسپائی بھی دنیا پہ مغرب کی حاکمیت کے خاتمے کا وسیلہ بنے گی۔ شاید اسی تناظر میں افغانستان میں اقتدار کی پُرامن منتقلی پہ تبصرہ کرتے ہوئے چین کے سرکاری میڈیا نے کہا کہ کابل میں جس پُرامن انداز میں انتقالِ اقتدار ہوا‘ اس طرح تو امریکا میں انتخابی عمل کے ذریعے بھی اقتدار کی ہموار منتقلی نہیں ہوتی۔
مغربی دنیا کو توقع تھی کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غیرملکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان کے طول و عرض میں شورش بھڑک اٹھے گی؛ چنانچہ عالمی میڈیا نے اِس عظیم انسانی المیے کو جس طرح پیش کیا‘ وہ ان کی دانشورانہ بدنیتی کا غماز تھا۔ امریکی آخری دم تک افغان تنازع کو جنوبی ایشیا میں کسی بڑی جنگ کا ذریعہ بنانے کی سعی کرتے رہے کیونکہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں سپر پاورکی پسپائی دراصل مغربی تہذیب کے اُس مقبول بیانیے کی عبرتناک شکست تھی جس میں وہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑ کے مستقبل کے عالمی تمدن کو مغربی تہذیب کے رنگ میں ڈھالنا چاہتے تھے۔ بلاشبہ یہ تہذیبوں کی جنگ تھی، ہم جانتے ہیں کہ اِس ذہنی شکست کو مغربی تہذیب کے فرزند آسانی سے ہضم نہیں کریں گے لیکن اب وہ اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے سکت کھو رہے ہیں۔ مغرب کی طویل عیش و عشرت کی بوریت سے تھکی ہوئی نوخیز نسلیں اب دنیا کی امامت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتیں، اس لیے فطرت نے مشرق کے لبریزِ الم معاشروں میں پروان چڑھنے والی اُن فعال نسلوں کو چن لیا، جنہوں نے اپنے اداس بچپن، گداز جوانیاں اور مغموم بڑھاپے بھی غربت و افلاس سے لڑنے اور مسلط کردہ جنگوں کی آگ میں جلا ڈالے۔ اس وقت مغرب کا تہذیبی فلسفہ اور سیاسی بیانیہ شکست کھا کے پوری طرح برباد اور مغربی تمدن کی روحانی کشمکش دم توڑ رہی ہے؛ چنانچہ صرف پندرہ دنوں میں طالبان نے جس سرعت کے ساتھ پورے افغانستان کو مسخر کیا‘ یہ مشرق کے نئے عہد کی طلوع اور مغربی تہذیب کے زوال کی نمایاں نشانی ہے۔ اگرچہ بہت سے ماہرین پیش گوئی کر رہے تھے کہ امریکی فوجیوں کے انخلاکے بعد طالبان ملک کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو اتنی تیزی سے امریکی بندوبست کے زوال کی توقع تھی۔ کبھی سوچا جاتا تھا کہ کابل پر طالبان کا قبضہ برسوں کی بات ہے؛ چند روز قبل ایک امریکی تھنک ٹینک نے کابل پر قبضے میں تین ماہ کی مدت کا تخمینہ پیش کیا لیکن ایک گولی چلائے بغیرکابل کی گھنٹوں میں تسخیر کا تصور بعیداز قیاس تھا۔ عالمی میڈیا طالبان کے مفروضہ مظالم اور منظم زیادتیوں کی تشہیر کے ذریعے خوف کی فضا بنا کر افراتفری بڑھانے کی کوشش میں مشغول رہا لیکن طالبان نے نہ صرف کابل کو خون ریزی سے بچایا بلکہ وہاں کی سماجی زندگی کے دھارے میں رخنہ اندازی نہ کرکے اجتماعی حیات کو بھی ریگولیٹ کر لیا۔ پچھلے دو ماہ میں پورے افغانستان کی تسخیر کے باوجودکہیں سے بھی ایسی خون ریزی کی اطلاعات نہیں ملی، جس کی منظر کشی عسکریت پسندوں کی حکمرانی کے تاریک دورکی واپسی کے طور پہ مغربی میڈیا میں کی جا رہی تھی۔ فاتح کی حیثیت سے طالبان جب کابل میں داخل ہوئے تو ان کی جبینِ نیاز اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز تھی۔ مغربی میڈیا نے پکڑے گئے افغان فوجیوں کی پھانسیوں کی جھوٹی خبریں، غیر روایتی لباس پہننے والی خواتین کو زدوکوب کرنے کے شوشے، جبری شادیاں اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں اور صحافیوں کے قتل کی افواہیں پھیلا کر شہری آبادیوں میں خوف و ہراس پھیلاکے نقل مکانی کا جو بحران پیدا کرنا چاہا‘ وہ بھی نہیں ہو سکا۔
طالبان کی جنگی حکمت عملی کے بارے میں مغربی مفکرین کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ انہوں نے صوبائی دارالحکومتوں کو بغیر کسی خون خرابے کے مسخر کرکے بڑے شہروں کے باہمی رابطے منقطع کر دیے۔ آمدنی اور ساز وسامان جیسے وسائل کو دارالحکومت تک محدود کرکے تیزی سے کابل کو پورے ملک سے الگ تھلگ کر دیا۔ کابل کی تسخیر سے قبل ہی طالبان افغانستان کی زیادہ تر سرحدی گزرگاہوں کا کنٹرول سنبھال چکے تھے۔ طالبان کے زیرِ کنٹرول اضلاع کے نقشوں سے واضح تھا کہ کابل شمال، جنوب اور مغرب سے محاصرے میں ہے ۔ گھیرائوکی حکمت عملی کا مقصد وقت کے ساتھ حکومت کی طاقت کو تحلیل کرنا تھا۔ طالبان کی حکمت عملی کے عین مطابق نفسیاتی دباؤ کے نتیجے میں اشرف غنی اقتدار کی پُرامن منتقلی پہ رضامند ہو گئے۔ یہ طالبان کی سیاسی بصیرت کا اظہار تھا کہ کابل میں طاقت کا توازن پیدا ہوا جسے مختلف نسلی اور سیاسی دھڑوں نے بسر و چشم قبول کرلیا۔ طالبان کے قبضے کا سرعت پذیر منظر ہی دراصل وہ نفسیاتی حربہ تھا، جس کے نتیجے میں حتمی فتح ناگزیر ہوئی۔ اگرچہ تاریخی طور پر افغانستان میں اقتدار اسی طرح اکثر ہاتھوں میں بدلتا رہا۔ 1996ء میں مستحکم مگر ناتجربہ کار طالبان کی پیش قدمی نے تیزی سے کابل کے دفاع کو تباہ کیا، طالبان بمشکل ایک دن کے نوٹس سے شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ منظر ماضی میں طالبان کی پیشرفت کی روشنی میں زیادہ ممکن نظر آیا اور اسی نے طالبان کو زیادہ سے زیادہ فوائد فراہم کر کے ممکنہ طور پر ان کی واپسی کی راہ ہموار بنائی۔
اس سے قبل صدر بائیڈن افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز کو فضائی مدد اور دیگر وسائل فراہم کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دیتے رہے۔ صدر غنی نے مزار شریف کے رہنماؤں سے ملاقات کرکے سیاسی محرکات میں اضافے کی کوشش کی تاکہ وہ طالبان کے خلاف مقامی مزاحمت کھڑی کر سکیں۔ صدر اشرف غنی نے اپنے ایک وڈیو پیغام میں مستعفی ہونے کے بجائے حتمی مزاحمت کا عندیہ دے کر اپنی فورسز کو ایسی مزاحمت پر ابھارنے کی کوشش جو نئی جنگ کی اساس بنی۔ ماہرین کہتے ہیں اگر اے این ڈی ایس ایف طالبان کو بڑے شہروں اور تمام ترمواصلاتی راستوں پر قبضہ کرنے سے روک لیتی تو یہ حکمتِ عملی افغان فورسز کو امریکا اور نیٹو کے بغیر‘ لڑائی کی نئی حقیقت سے ہم آہنگ ہونے کا موقع فراہم کرتی۔اگرچہ مغربی ذرائع ابلاغ یہ باور کراتے رہے کہ اس خطے میں کوئی بھی طالبان کی فتح کے بعد کے مناظر دیکھنے کو تیار نہیں لیکن جیسے جیسے طالبان غلبہ پاتے گئے چین، روس اور ایران سمیت خطے کی چھوٹی بڑی طاقتیں ازخود ان سے ہم آہنگ ہوتی گئیں۔ لاریب افغانستان پہ طالبان کے غلبے سے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے باہمی رابطوں میں پائی جانے والی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved