اور طالبان آگئے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ افغانستان کی صورتحال کئی ہفتوں سے واضح اشارے دے رہی تھی کہ اب طالبان کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ یا دیوار حائل نہیں ہوسکتی۔ افغانستان کی صورتحال ایسی تبدیل ہوئی ہے کہ ایک دنیا دیکھ کر حیران ہے۔ باقی دنیا کو حیرانی ہے اور مغرب کو پریشانی لاحق ہے۔ پریشانی اس لیے کہ اس بار طالبان نے کچھ خاص گنجائش نہیں چھوڑی کہ اُنہیں مطعون کیا جائے۔ مغربی میڈیا اور تجزیہ کار پریشان ہیں کہ اب طالبان کو دنیا کے سامنے ایک خونخوار طاقت کے طور پر کس طور پیش کریں۔ دارالحکومت فتح ہوا اور ایک بھی گولی چلائے بغیر! طالبان نے طاقت استعمال کی نہ کہیں سے مزاحمت ہوئی۔ مغربی میڈیا کے پاس دو چار ہلاکتیں بھی نہیں تھیں جنہیں پیش کرکے طالبان کے خونخوار ہونے کا راگ الاپا جاتا۔ ایسے میں لے دے کر بدحواسی رہ جاتی ہے۔ کابل ایئر پورٹ کے مناظر دنیا کو دکھاکر واویلا مچایا جارہا ہے کہ طالبان کا خوف اس قدر تھا کہ لوگ ملک چھوڑنے کے لیے طیارے پر چڑھ بیٹھے اور موت کے منہ میں چلے گئے۔
یہ چند سو لوگ کون ہیں جو ملک سے ہر صورت فرار ہونا چاہتے تھے؟ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ عام معافی کا اطلاق اُن افغان باشندوں پر کسی طور نہیں ہوسکتا جنہوں نے دو عشروں کے دوران امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں سے مل کر اپنے ہی بے قصور اور غیر متعلق لوگوں کے قتل کی راہ ہموار کی۔ عسکری کارروائیوں میں قابض مغربی افواج کا ساتھ دینے والوں کے لیے معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے میں اُن کے پاس جان بچانے کے لیے ملک سے بھاگنے کے سوا چارہ نہیں۔ اگر عمومی سطح پر طالبان کا ایسا ہی خوف تھا‘ جیسا مغربی میڈیا میں بتایا جا رہا ہے‘ تو کابل ایئر پورٹ پر کم سے کم ڈیڑھ دو لاکھ افراد کا ہجوم ہونا چاہیے تھا۔
چند سو افراد نے شدید بدحواسی کے عالم میں امریکی فوجی طیارے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ جب وہ اس کوشش میں ناکام رہے تو طیارے پر چڑھ بیٹھے۔ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ طالبان نجات دہندہ نہیں اور اقتدار حاصل کرنے پر قتل و غارت کا بازار گرم کریں گے اُنہیں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی ہے کہ طالبان نے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے نہ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کی طرف گئے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ کابل کے طول و عرض میں سکون اور استحکام دکھائی دے رہا ہے۔ کابل ایئر پورٹ پر جو مناظر دکھائی دیے وہ کسی بھی اعتبار سے غیر متوقع تھے نہ زیادہ افسوس ناک۔ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
افغانستان کے دارالحکومت کابل کی تسخیر کے بعد طالبان کے سیاسی ونگ کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے قطر کے دارالحکومت دوحہ سے جاری کردہ ایک وڈیو پیغام میں کہا کہ ہمارے امتحان و آزمائش کی گھڑی آگئی ہے۔ اتنی تیزی سے اتنی بڑی کامیابی کے لیے بارے میں سوچا بھی نہ تھا۔ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ افغان عوام کو تحفظ کا احساس دلائیں، عوام اطمینان رکھیں کہ حالات بہتر بنانے میں طالبان بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ملا عبدالغنی برادر کے نائب ملا عبدالسلام حنفی کا بھی کہنا ہے کہ عوام کے حقوق غصب نہیں کیے جائیں گے۔ اس سے قبل کابل ریڈیو اور ٹی وی کی تنصیبات پر متصرف ہونے کے بعد الجزیرہ سے انٹرویو میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے کہا کہ ہم اپنا مقصد حاصل کرچکے ہیں یعنی ملک میں جنگ ختم ہو گئی ہے، اب پوری توجہ تعمیر نو پر مرتکز ہوگی۔ انہوں نے (نام لیے گئے بظاہر بھارت کو انتباہ کرتے ہوئے) کہا کہ جو بیرونی قوتیں افغانستان میں کوئی نیا کھیل کھیلنا چاہتی ہیں وہ اُن کا انجام ذہن نشن رکھیں جنہوں نے یہ غلطی کی تھی اور اب خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ طالبان الگ تھلگ نہیں رہنا چاہتے۔ وہ دنیا سے پُرامن تعلقات کے خواہاں ہیں۔
دوسری طرف نیو دہلی ٹیلی وژن (این ڈی ٹی وی) نے بتایا ہے کہ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے (لگی لپٹی رکھے بغیر) بھارتی قیادت کو انتباہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی قسم کی عسکری مہم جوئی سے اجتناب برتے، کسی بھی نوعیت کی عسکری مداخلت کا بھارت کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق دوحہ میں بھارتی حکام سے مذاکرات میں طالبان کے ترجمان نے کہا کہ بیرونی قوتوں کی مداخلت کے بعد افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ بھارتی قیادت کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔ طالبان کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے وہ اب تک بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ طالبان نے اپنے پہلے دورِ حکومت سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے جس سے ساکھ خواہ مخواہ خراب ہو۔ انہوں نے اب تک عوام کو یہی یقین دہانی کرائی ہے کہ سب کچھ ویسے ہی چلنے دیا جائے گا جیسا کہ چلتا آیا ہے۔ برائیوں کی روک تھام اور حسنات کے فروغ کی پالیسی ہر صورت جاری رہے گی۔ طالبان نہیں چاہتے کہ اُن کے بارے میں بے بنیاد قسم کے خدشات کا اظہار کرکے فضا بلاجواز طور پر مکدر کی جائے۔ بھارت کے بارے میں طالبان نے جو موقف پیش کیا ہے وہ خاصا متوازن ہے۔ بھارت نے گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران طالبان کے خلاف مختلف افغان عناصر کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کی اور انہیں ہتھیار تک فراہم کیے۔ اس کے باوجود طالبان نے اب تک شدید ردِ عمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔ بھارتی قیادت کی جذباتیت اور بے عقلی کسی بڑے بحران کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ طالبان جب مغربی افواج سے خائف نہ ہوئے تو بھارتی فوج کو کیا خاطر میں لائیں گے۔
افغانستان میں حالات یکسر پلٹ گئے ہیں۔ بہت کچھ بہت تیزی سے ہوا ہے۔ واقعات کی نوعیت ایسی ہے کہ جس نے دیکھا ہے حیران ہی رہ گیا۔ سب سے زیادہ حیران کن ہے طالبان کی طرزِ فکر و عمل۔ انہوں نے اب تک بیشتر معاملات میں مثالی نوعیت کے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ صدر اور نائب صدر کے فرار ہو جانے پر بھی طالبان نے طاقت کے نشے میں چور ہونے سے جس طور گریز کیا ہے وہ قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ داد بھی۔ بیرونی قوتوں کی مدد سے جب شمالی اتحاد کو ابھرنے کا موقع ملا تھا تو اس نے طالبان اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنانے کے معاملے میں انسانیت سوز سفاکیت کا مظاہرہ کیا تھا۔ دو عشروں کے دوران شمالی اتحاد سے وابستہ تمام عناصر نے اقتدار کے جی بھر کر مزے لوٹے ہیں۔ مغربی میڈیا نے بتایا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں فوج تشکیل دی اور اُس کی تربیت اور دیگر امور پر دو عشروں میں کم و بیش 88 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں! ایسی غیر معمولی فنڈنگ کے بعد بھی افغان فوج طالبان کے آگے دو دن بھی نہ ٹک سکی اور اُسے راہِ فرار اختیار کرتے بنی۔ اتنی بڑی فنڈنگ کا آخری ہوا کیا؟ کس نے اپنی ذاتی تجوریاں بھریں؟ ایسی غیر معمولی فنڈنگ سے تو ایسی مضبوط فوج تیار کی جاسکتی ہے جو کسی بھی علاقائی طاقت کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے۔
طالبان کی سب سے بڑی ذمہ داری تو عوام کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ اس کام سے فارغ ہوکر انہیں دو عشروں کے دوران اقتدار کے مزے لُوٹنے اور اپنی اپنی تجوریاں بھرنے والوں کا احتساب یقینی بنانا ہے۔ قوم کی بربادی دیکھ کر بھی جن کی ہوس نے دم نہ توڑا وہ اب کسی بھی درجے میں رحم کے مستحق نہیں۔ اُن کا بے رحمانہ احتساب طالبان پر قرض ٹھہرا۔ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال اور بالخصوص کابل کے معاملات دیکھ کر میرزا نوشہ یاد آرہے ہیں جنہوں نے کہا تھا ؎
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پُرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
طالبان نے ایک دنیا کو مایوس کیا ہے۔ مغرب میں بہت سے قائدین نے طالبان کی برق رفتار فتوحات کے حوالے سے واویلا مچا رکھا تھا کہ وہ اقتدار کے مآخذ پر متصرف ہونے کے بعد ایسی قتل و غارت برپا کریں گے کہ لوگ عبرت پکڑیں گے۔ افسوس کہ طالبان نے انہیں مایوس کیا۔ یہاں تک معاملات خوش کن ہیں تو آئندہ بھی اچھے ہی کی امید رکھنی چاہیے۔