جو لوگ اللہ کو نہیں مانتے‘ اس کی نشانیوں کو کیا مانیں گے۔ کیا لوگ ہیں کہ صبح سے شام تک اس سے گزرتے، برتتے، پرکھتے اور چکھتے ہیں لیکن منہ موڑ کر انکار کر دیتے ہیں۔ یہی ازل سے ہوتا چلا آیا ہے۔
تنور ابلا اور آسمان سے پانی برسنے لگا۔ دھواں دھار بارش کا آغاز ہوا تو جاننے والوں نے جان لیا کہ یہ علامتیں ہیں۔ نہ ماننے والوں کی ہنسی نہ رکتی تھی کہ یہ بارش وہی بارش تھی جو زمین پر اربوں بار برستی ہے‘ اور بھلا تنور سے پانی نکلنا کوئی نشانی کیسے ہو سکتی ہے؟ جاننے والوں نے جان لیا کہ کشتی پر سوار ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ وہ بڑی کشتی جسے دیکھ دیکھ کر قوم تمسخر اڑاتی تھی کہ یہ خشکی پر چلے گی کیسے؟ لیکن یہ تو اللہ کی نشانی تھی۔
پہاڑ پھٹا اور اس میں سے پورے دنوں کی گابھن اونٹنی نکل آئی۔ نکلی اور بچے کو جنم دیا۔ یہی نہ ماننے والوں کی فرمائش تھی۔ یہ گوشت پوست کی چلتی پھرتی اونٹنی تھی جسے پیاس بھی لگتی تھی اور جو تکلیف پر بلبلاتی بھی تھی عام اونٹنیوں کی طرح لیکن یہ اونٹنی ہی اللہ کی نشانی بھی تو تھی۔
حد نگاہ پر سیاہ بادل نمودار ہوا۔ گھنا، بہت بڑا اور افق تا افق پھیلا ہوا۔ کہنے والے نے کہا کہ یہی وہ چیز ہے جس کا تم انکار کرتے تھے۔ نہ ماننے والوں نے کہا کہ یہ تو سیاہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ بادل تو وہ تھا لیکن یہ تو اللہ کی نشانی تھی جس نے نہ ماننے والوں کو ایسا کرکے رکھ دیا جیسے کھجوروں کے تنے بکھرے پڑے ہوں۔
زمانہ آگے بڑھتا رہا۔ نشانیاں اپنے اپنے انداز میں آتی رہیں۔ ہر دور میں ماننے والے مانتے چلے آئے۔ انکار کرنے والے انکار کرتے چلے آئے۔ 1979 کا سال آیا اور یہ خبر لے کر آیا کہ روس افغانستان میں تمام ہیبت، طاقت، غرور اور اسلحے سمیت داخل ہوگیا ہے۔ مجھے اپنے ایک مرحوم عزیز یاد ہیں جو پاکستان میں مذہبی طبقات کے سخت خلاف تھے۔ ان کی خوشی دیدنی تھی کہ اب افغانستان اور پاکستان میں مذہبیوں کے ساتھ وہ ہوگا جو روسی ترکستان میں ہوا تھا۔ انہیں لگتا تھاکہ بارش برسانے والا بادل آپہنچا ہے لیکن ان جیسے لوگوں کی خوشی اتنی بھی نہ ٹھہری جتنا بادل ٹھہرتا ہے۔ ٹیلوں بھری وادیاں اور دھول اڑاتے میدان جہازوں، ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں اور آہنی ملبے کے قبرستان بننے لگے۔ انسانی قبرستان الگ تھے۔ وہ ہونے لگا جو نہ حملہ آوروں کے حاشیۂ خیال میں تھا نہ تماشائیوں کے ۔
غالباً 1992 کی بات ہے‘ میں ایک گروپ کے ساتھ خوست، افغانستان گیا تھا‘ اور اس سے آگے گردیز کے نواح تک۔ خوست نیا نیا روسی اور نجیب اللہ حکومت سے چھینا گیا تھا۔ اس کا مٹی سے بنایا گیا رن وے یاد ہے۔ دائیں بائیں روسی جہازوں، ہیلی کاپٹروں کے ڈھیر تھے۔ کسی کے کاک پٹ کو راکٹ نے چھید ڈالا تھا، کسی کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی‘ کوئی منہ کے بل گرا پڑا تھا‘ کسی کے بازو ٹوٹ کر لٹک رہے تھے۔ میں ان جہازوں کو گننا چاہتا تو بہت وقت لگتا اور یہ بھی طے نہ ہوتا کہ گنتی درست ہے اس لیے کہ جہازوں کے ٹوٹے پھوٹے ٹکڑے ایک دوسرے کے اوپر نیچے اس طرح پڑے تھے کہ پہچان ختم ہو چکی تھی۔ آہنی ملبے کا ایسا ڈھیر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ آخری روسی سپاہی فرار اختیار کرکے دریائے آمو کے پار پہنچا۔ ان ریاستوں میں جن میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی تھی اور بالآخر وہ روس کا حصہ نہیں رہی تھیں۔ کہنے والوں نے کہا اور ماننے والوں نے مانا کہ اس بے سروسامان بھوکی ننگی قوم کی یہ فتح اللہ کی نشانی ہے۔ انکار کرنے والوں نے وہ وجوہ گنوانا شروع کر دیں جن میں انکے نزدیک امریکہ کی مدد سب سے بڑی وجہ تھی لیکن یہ اللہ کی نشانی تھی۔ ایک واضح نشانی۔
دو بڑی عمارتوں سے طیارے ٹکرائے۔ کس نے ٹکرائے؟ دنیا کے محفوظ ترین ملک کے محفوظ ترین علاقوں میں یہ سب کیسے ہوا؟ سب ڈرامہ تھا یا حقیقتاً باہر کے کردار شامل تھے؟ افغانستان اور افغانوں کا اس سے کیا تعلق تھا؟ ثبوت کیا اور کہاں تھے؟ اقوام متحدہ کا وجود کس لیے تھا؟ عالمی عدالت انصاف کس کونے میں سو رہی تھی؟ سب باتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ستاون مالدار ترین، مسلح ترین، متمدن ترین ملکوں نے اپنے سردار کی قیادت میں ٹیلوں والی زمین پر چڑھائی کردی۔ C.17 اور دوسرے جدید ترین طیاروں سے اترے۔ حموی بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھے، جدید ترین ایم 16 رائفلیں تھامے، براؤننگ9 ایم ایم پستول پہلو میں لٹکائے، رات میں دیکھنے والے خود پہنے تربیت یافتہ ترین فوجی ان خشک ٹہنیوں کی چھتوں کے نیچے رہنے، چٹائی پر سونے والوں کے سروں پر آپہنچے جنہیں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر تھی۔ وہ دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے ہزاروں میل دور سے آئے تھے۔ وہ دہشتگرد جن کی دہشتگردی کے بارے میں کوئی ثبوت انہوں نے دنیا کے سامنے کبھی پیش نہیں کیے تھے۔ ان کے نزدیک لمبی داڑھی، اونچی شلوار، کاندھے پر رومال اور دستار پہنے ہر شخص دہشتگرد تھا‘ لیکن مشکل یہ تھی کہ مٹی اڑاتی اس زمین میں ہر دوسرا شخص اسی حلیے کا تھا۔ سو ہر دوسرا شخص مارا جانے لگا یا گرفتار ہونے لگا۔ گوانتانامو کا جزیرہ نارنجی لباس پہنے بیڑیاں کھڑکھڑاتی نئی مخلوق سے بھرنے لگا۔ لیکن مٹی پر بے تکلف بسیرا کرنے والوں نے یہ سب ماننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا ''ہمارا اپنا مذہب ہے، اپنی روایات، اپنی اقدار۔ ہم تمہیں مانتے ہیں نہ تمہاری ہدایات کو نہ تمہاری کٹھ پتلیوں کو۔ ہم لڑیں گے‘‘۔ لوگوں نے حیرت سے کہنے والوں کو اور ان کے حلیوں کو دیکھا ''یہ لڑیں گے؟ یہ نہتے، بے سروسامان، اجڈ، جاہل لوگ؟ یہ لڑیں گے؟ ستاون ملکوں سے لڑیں گے؟ کس دور کی باتیں کرتے ہیں یہ رجعت پسند، دقیانوسی لوگ۔ انہیں کیا پتہ ہماری طاقت کیا ہے۔ ہم انہیں ابھی ٹھیک کرتے ہیں‘‘۔
سیٹلائٹ افغانستان کے اوپر ٹھہر گئے جو سینکڑوں میل دور سے زمین پر پڑی سوئی دیکھ لیتے تھے۔ وہ ڈرون ہوا میں اڑنے لگے جو ہوا میں رہتے ہوئے زمین پر انسانی جسم کی گرمی سونگھ لیتے تھے۔ ڈیزی کٹر بم سنگلاخ پہاڑوں پر گرنے لگے جو چٹانوں کی تہیں چیرکر غاروں تک جا پہنچتے تھے۔ اپاچی ہیلی کاپٹروں نے بلندی سے ہرگھر کی تلاشی لینا شروع کی۔ سمندر میں کھڑے جہازوں نے اپنے میزائلوں سے سینکڑوں میل دور کی جھونپڑیوں پر نشانہ تاکا اور بٹن دبا دیئے۔ نئی کٹھ پتلیاں بنائی گئیں۔ اب ان کے نام ببرک کارمل اور نجیب اللہ نہیں، حامد کرزئی اور اشرف غنی تھے۔ تجوریوں کے منہ کھول دیئے گئے۔ وہ مٹی جو پانی کو ترستی تھی، وہاں ڈالروں کا سیلاب آگیا۔ اسی زمین کے لاکھوں لوگ ہزاروں ڈالرز ماہانہ کی تنخواہوں پر بھرتی کیے گئے۔ مترجم رکھے گئے۔ اپنی مرضی کی ذہن سازی کیلئے اکیڈمیاں، یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ ہر اس ملک، ہر اس قوم، ہر اس سربراہ کو شریک کیا گیا جو داڑھی والوں، پگڑی والوں سے نفرت کرتا تھا۔ نفرت کرنے والے لوگ تمسخر اڑاتے اور مسکراتے تھے ''پہلے تو امریکہ کی مدد سے اس کے دشمن روس کو شکست دے دی تھی۔ اب کیا کروگے؟ یہ تمہارا گوانتانامو بنا کر رکھ دے گا۔ ہمیشہ کیلئے۔ مٹا کر رکھ دے گا‘‘۔
لیکن دھول اڑاتی زمین نے ابھی کئی معجزے پیدا کرنے تھے۔ ابھی پچھلی حملہ آور قوم کی لاشیں نہیں اٹھی تھیں کہ نئے حملہ آوروں کی لاشیں گرنے لگیں۔ نئے ماڈل، نئے ڈیزائن کے نئے جہاز زمین پر گرنے اور زنگ کھانے لگے۔ آہ وبکا کی آواز آسمانوں تک جانے لگی‘ صرف افغانوں کی نہیں ستاون ملکوں کی بھی۔ تابوتوں کی مانگ بڑھنے لگی۔ سفید فام دھول چاٹتے رہے اور اپنی فتح کا اعلان کرتے رہے‘ لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ ایک نئی نشانی تشکیل پارہی ہے۔ پھر 15اگست 2021 کا دن طلوع ہوا جس نے ایک سورج غروب ہوتے دیکھا۔ خاک نشنیوں نے تخت گرا دئیے تھے اور تاج اچھال دئیے تھے۔ انکار کرنے والے عالم تحیر میں تھے۔ دنیا بدل کر رکھ دینے والا ایک دن گزرتے دیکھ رہے تھے۔
لیکن یہ دن کب تھا۔ یہ تو اللہ کی ایک نشانی تھی۔