اگلے چند روز میں مسلم لیگ (ن) اپنے صدارتی امیدوار کا اعلان کرے گی۔ نام تو بہت آ رہے ہیں۔ لیکن بااثر حلقوں میں چار ناموں پر زیادہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ خیبرپختونخوا سے جناب اقبال ظفر جھگڑا اور سرتاج عزیز اور سندھ سے جناب ممتاز بھٹو اور سید غوث علی شاہ۔ ان میں سب سے متنازعہ نام جناب ممتاز بھٹو کا ہے۔ ان کی سیاسی زندگی میں اتنے تنازعات رہے‘ جو ممکنہ صدارتی امیدواروں میں کسی اور کے حصے میں نہیں آئے۔ جب وہ سندھ کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے قومیتوں کے سوال پر ایسی پالیسیاں اختیار کیں‘ جن پر نہ تو ذوالفقار علی بھٹو شہید یقین رکھتے تھے اور نہ ہی پیپلزپارٹی نے کبھی اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اس تھیوری کو قبول کیا‘ جس پر ممتاز بھٹو عمل پیرا تھے۔ 1972ء سے پہلے سندھ میں لسانی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ یہ درست ہے کہ اس وقت وہاں پختون اتنی بڑی تعداد میں نہیں آئے تھے‘ جتنی تعداد میں آج وہاں موجود ہیں۔ لیکن مہاجر ایک بہت بڑی تعداد میں آباد ہو چکے تھے۔ کیونکہ ان کی اکثریت یا تو تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھی یا وہ کسی نہ کسی شعبے میں ہنرمندی کے مالک تھے۔ جبکہ سندھ کی مقامی آبادی زرعی شعبے سے وابستہ تھی اور وہاں قدیم طرزکاشتکاری رائج تھا۔ جس میں نہ جدید مشینری کا استعمال ہوتا تھا۔ نہ ہی جدید دور کے بیج اور پیداوار میں اضافے کی ٹیکنالوجی سے کوئی واقف تھا اور نہ زرعی مشینری کا بکثرت استعمال ہوا کرتا تھا۔ مقامی سندھی پیداوار کے انتہائی پسماندہ طریقوں پر چلتے تھے۔ آزادی کے وقت کراچی اور حیدر آباد بھی بڑی صنعتوں سے محروم تھے۔ حیدرآباد میں کچھ گھریلو صنعتیں پائی جاتی تھیں۔ ایسے پسماندہ صنعتی معاشرے میں ‘ ہنرمندیاں آتی بھی تو کہاں سے؟ مہاجرین کی بڑی تعداد بھارت کے ایسے علاقوں سے بھی آئی تھی‘ جہاں صنعتی پیداوار بھی ہوتی تھی۔ نجی کاروباری دفاتر بھی موجود تھے ۔ سرکاری دفتروں میں کام کرنے والوں میں مسلمان بھی کافی تعداد میں ہوا کرتے تھے‘ جن میں سے بہت سے پاکستان آئے۔ بینکنگ اور انشورنس کا شعبہ جن لوگوں نے پاکستان میں منظم کیا‘ ان میں غالب تعداد مہاجرین کی تھی۔ بھٹو صاحب کا تصور یہ تھا کہ وہ اس تفریق کو ختم کرنے کے لئے‘ سب سے پہلے پڑھے لکھے سندھیوں کو مختلف دفاتر اور مالیاتی نظام کا حصہ بنائیں گے اور مقامی سندھیوں کو پسماندگی سے نکالنے کے لئے انہیں تیزرفتاری سے تعلیم اور ہنرمندیوں کی طرف لا کر وہ عدم توازن ختم کر دیں گے‘ جس میں مہاجروں اور سندھیوں کے مابین مسابقت کی صورتحال پیدا ہو۔ یہ بہت ہی حساس اور نازک پالیسی تھی۔ بھٹو صاحب کی بدقسمتی تھی کہ انہوں نے ممتازبھٹو کو خاندانی رشتے کی بنا پر سندھ کی وزارت اعلیٰ سونپ دی۔ بھٹوصاحب انہیں ایک لائق اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ضرور سمجھتے تھے۔ مگر اس وقت تک ممتاز بھٹو نے سیاست میں کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھائی تھی‘ جس کی روشنی میں وہ ان کی طرزفکر کو سمجھ سکتے۔ ان کے ذاتی رحجانات اس وقت ظاہر ہوئے‘ جب انہیں سندھ کا وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ انہوں نے واضح طور پر ایک رخی پالیسی اختیار کرتے ہوئے‘ مقامی سندھیوں کے ساتھ ایک فریق بن کر‘ مہاجروں کے بارے میں متعصبانہ طرزعمل اختیار کر لیا۔ جس کے نتیجے میں دونوں کے درمیان فسادات ہونے لگے اور اندرون سندھ میں آباد پنجابیوں کو لوٹ مار اور تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ آج کچھیوں کی بات کی جا رہی ہے۔ لوگوں کو شاید یاد نہیں کہ اپنے ہی ملک میں سب سے پہلے پنجابیوں کو سندھ سے ہجرت کرنا پڑی تھی اور یہ سب کچھ وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو کی سرپرستی میں ہو رہا تھا۔ مجھے یاد ہے اس وقت بھٹو صاحب اس پر بے حد پریشان تھے۔ مصطفی کھر زندہ سلامت موجود ہیں۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے انتظامی سربراہ کی حیثیت میں‘ بھٹو صاحب انہیں کیا ہدایات دیا کرتے تھے؟ اور سندھ سے پنجابیوں کو جبراً نکالے جانے پر کتنے فکرمند تھے؟ آج سندھ میں نئے اور پرانے سندھی کی جو تقسیم پائی جاتی ہے‘ اس کی بنیاد ممتاز بھٹو نے رکھی تھی۔ ممتاز بھٹو وزارت اعلیٰ سے الگ ہوئے‘ تو وفاق کے تصور سے لاتعلق ہو چکے تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران ہونے والے واقعات کی نظیریں پیش کر کے‘ یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان کا بنیادی تصور‘ کنفیڈریشن کا تھا۔ جس میں شامل ہونے والے صوبے یعنی ریاستیں ’’ساورن اور انڈیپینڈنٹ‘‘ ہوں گی۔ برصغیر میں کنفیڈریشن کرنے کے حق میں ایل کے ایڈوانی اور ان کی بی جے پی آواز اٹھاتی رہتی ہے۔ جن دنوں ایل کے ایڈوانی کی طرف سے کنفیڈریشن کی تجویز دہرائے جانے پر بحث چل رہی تھی‘ انہی دنوں ممتاز بھٹو نے ایک انگریزی اخبار میں ’’کنفیڈریشن بمقابلہ فیڈریشن‘‘ ایک مضمون لکھا تھا جو 21جون 2012ء کو شائع ہوا۔ اس میں وہ قائد اعظمؒ کی ایک تقریر کا اقتباس دیتے ہیں‘ جو انہوں نے 1946ء آل انڈیامسلم لیگ لیجسلیٹرز کنوینشن میں کی تھی۔ میں اس اقتباس کے اصل الفاظ نقل کر رہا ہوں۔ \"What are we fighting for? What are we aiming at? It is not theocracy - not for a theocratic state. Religion is there and religion is dear to us. All the worldly goods are nothing to us when we talk of religion. But there are other things which are very vital, such as our social life and our economic life, but without political power how can you defend your faith and your economic life?\" ممتاز بھٹو لکھتے ہیں ’’ دنیا میں بہت سی قومیں ہیں۔ لیکن واحد مسلم قوم نامی چیز کہیں موجود نہیں۔‘‘ وہ آگے لکھتے ہیں ’’یہ بات 1940ء کے اوائل میں ہی ثابت ہو چکی تھی کہ جب پاکستان معرض وجود میں آ جائے گا‘ تو اس کا ڈھانچہ ’’کنفیڈرل‘‘ ہو گا۔ جس میں صوبوں کو اٹانومی او ر ساورینٹی دی جائے گی۔ پاکستان کے تصور کی بنیاد ہی انڈیا کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کنفیڈریسی کے تصور پر رکھی گئی تھی۔‘‘ ممتاز بھٹو بہت پہلے کنفیڈریشن کا نعرہ لے کر آ گئے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اسی بنا پران کے سیاسی تصورات سے لاتعلقی اختیار کر لی تھی۔ وہ انتہاپسند سندھیوں کے ساتھ مل کر‘ فیڈریشن کے بجائے‘ کنفیڈریشن لانے کے حق میں جدوجہد کرتے رہے۔ اگر ان کے تصور پاکستان کو‘ ان کی تقریروں اور تحریروں کی روشنی میں دیکھا جائے‘ تو وہ 6نکات کی دوسری شکل ہیں۔ میں اس سلسلے میں اپنی رائے نہیں دے رہا۔ صرف واقعات کو ان کی اصل صورت میں دہرا دیا ہے۔وزیراعظم نوازشریف اور ان کی جماعت اگر پاکستان کے بارے میں ممتازبھٹو کے تصورات سے آگاہ ہے‘ تو امید کی جانی چاہیے‘ وہ اس بارے میں اپنے نئے سیاسی ساتھی سے ان کے پرانے خیالات کی وضاحت حاصل کر چکے ہوں گے؟ انہیں ممتازبھٹو سے یہ بھی پوچھ لینا چاہیے کہ وہ صدر پاکستان کا منصب کس تصور کے تحت حاصل کر رہے ہیں؟ وہ فیڈریشن کے صدر ہوں گے یا کنفیڈریشن کے؟ اور اگر وہ فیڈریشن کی صدارت کا حلف اٹھاتے ہیں‘ تو کیا اس سے پہلے وہ یہ اعلان کریں گے کہ انہوں نے کنفیڈریشن کے مطالبے اور تصور سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے؟ اور کیا انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے نظریات اور تصورات کو قبول کر لیا ہے؟ صدر مملکت کا منصب بہت حساس اور ذمہ دارانہ ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کو منصب صدارت کے لئے چنتے وقت بے شمار چیزوں پر اطمینان کرنا پڑتا ہے اور میرے خیال میں یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ جناب نوازشریف کو صرف ذاتی تسلی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے‘ اپنی پارٹی کے اعلیٰ ترین فورم پر ممتازبھٹو کی موجودگی میں‘ ان کے ذاتی اور مسلم لیگ کے اجتماعی نظریات پر کھلی بحث ہونا چاہیے اور یہ فیصلہ پارٹی کی اجتماعی قیادت کو کرنا چاہیے کہ صدارتی امیدوار کی نامزدگی کی شرائط کیا ہونا چاہئیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved