شبِ عاشور جب کہ موت سر پر کھڑی تھی ‘امامِ عالی مقام حضرت حسین بن علی رضِی اللّٰہُ عَنْہما نے رات کے پہلے پہر اپنے گھر والوں کو کچھ وصیتیں کیں اور فصیح وبلیغ کلمات میں حمد وصلوٰۃ بیان کرنے کے بعداپنے اصحاب کو فرمایا : ''تم میں سے جو بھی شخص آج کی رات اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتا ہے‘ میں اسے بخوشی اجازت دیتا ہوں ‘کیونکہ دشمن کو صرف میں مطلوب ہوں‘‘مالک بن نضر نے کہا: ''مجھ پر قرض ہے اور پیچھے میرے بیوی بچے ہیں ‘ آپ نے فرمایا: ''رات کی تاریکی تم پر چھا چکی ہے ‘ اسے اپنے لیے آڑ بنائو‘ تم میں سے ہر ایک میرے گھر کے کسی فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور اس رات کی تاریکی میں زمین کی وسعتوں میں نکل جائے ۔ اپنے شہروں اور بستیوں کا رخ کرو ‘بلاشبہ دشمن کو میں ہی مطلوب ہوں اور وہ صرف میرے ہی خون کے پیاسے ہیں ‘سو جب وہ مجھے پا لیں گے تو دوسروں کی تلاش سے بے نیاز ہوجائیں گے ‘ لہٰذاتم لوگ چلے جائو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی پیدا فرمائے‘‘۔
یہ سن کر آپ کے بھائیوں ‘بیٹوں اور بھتیجوں نے کہا: ''آپ کے بعد جینا کس کام کا ‘آپ کا ساتھ دینا ہمیں ہر حال میں پسند ہے‘‘۔ امام حسینؓ نے فرمایا: '' اے بنی عقیل! مسلم بن عقیلؓ پر جو بیت چکی اسے کافی سمجھو‘تم سب نکل جائو ‘ میں تمہیں بخوشی اجازت دیتا ہوں‘‘۔انہوں نے کہا: ''اے امام!لوگ ہمیں کیا کہیں گے کہ ہم نے اپنے شیخ ‘اپنے سردار اوراپنے بہترین چچا کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑدیا‘ہم نے آپ کے دفاع میں ایک تیر بھی نہ چلایا ‘ آپ کے دشمن کو ایک نیزہ بھی نہ گھونپااوراس کے خلاف تلوار بھی نہ چلائی ‘کیا یہ گریز جینے کی تمنا میں تھا‘نہیں ‘بخدا! ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے ‘بلکہ ہم اپنی جانیں‘ اموال ‘اہل وعیال حتیٰ کہ ساری متاعِ حیات کو آپ پر قربان کردیں گے اور آپ کے ساتھ لڑتے رہیں گے حتیٰ کہ آپ جیسے انجام سے دوچار ہوجائیں ‘ آپ کے بعد جینا کتنا بے لذت ہوگا ‘‘۔
مسلم بن عو سجۃُ الا سدی نے یہی بات کہی اور سعید بن عبد اللہ حنفی نے کہا: ''بخدا!ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے حتیٰ کہ اللہ یہ دکھادے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی غیر موجودگی میں آخری سانس تک آپ کی اور آپ کے اہل بیت کی حفاظت کی ہے ‘ بخدا! یہ تو ایک جان ہے ‘اگر مجھے یکے بعد دیگرے ایک ہزار زندگیاں بھی دی جائیں اور میں ایک ایک کرکے ہر زندگی کو آپ پر قربان کردوں ‘تو میرے لیے اس سے زیادہ محبوب چیز اور کوئی نہیں ہوگی‘‘۔پھر آپ کے سب اصحاب نے اسی سے ملتے جلتے جذبات کا اظہار کیا اور کہا: ''ہم آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ‘ہماری جانیں آپ پر قربان ہوجائیں ‘ہم اپنے جسموں‘ اپنے ہاتھوں ‘اپنی پیشانیوں اور اپنے گلوں کو ڈھال بناکر آپ کی حفاظت کریں گے ۔ہاں!جب ہم آپ کی حفاظت میں قتل کردیے جائیں ‘عہد وفا کو نبھا لیں ‘تو پھر ہم پر جو بھی گزرے قبول ہے‘‘۔آپ کے بھائی عباسؓ نے کہا: ''ہمیں ایک دن بھی ایسا نصیب نہ ہو ‘جس میں آپ سامنے نہ ہوں‘ہمیں آپ کے بعد زندگی نہیں چاہیے‘‘ ۔
امام زین العابدینؓ نے کہا: ''جس صبح میرے بابا شہید ہوئے‘ اس رات میں بیٹھا ہوا تھا ‘ میری پھوپھی زینبؓ میری تیمار داری میں مصروف تھیں کہ میرے بابااپنے خیمے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ الگ ہوئے‘ ان کے ساتھ حُوی مولیٰ ابو ذرغفاری بھی تھے‘وہ اپنی تلوار کی دھار تیز کررہے تھے اورمیرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے:ترجمہ: ''اے زمانہ! تجھ پر اُف ہے ‘رفقامیں سے کس قدر ساتھی صبح وشام قتل کیے جاچکے ہیں اور تو اس پر بھی قانع نہیں ہے ‘ تمام امور کی بازگشت ربِ جلیل کی طرف ہے اور ہر ذی روح اپنے راستے کو طے کررہا ہے ‘‘۔
آپ نے یہ اشعار دو تین مرتبہ دہرائے حتیٰ کہ مجھے یاد ہوگئے اور آپ جو کہنا چاہ رہے تھے میں سمجھ گیا‘آنسوؤں سے میرا دم گھٹنے لگا‘ میں ان الفاظ کو دہرانے لگا اور پھر خاموش ہوگیا‘مجھے اندازہ ہوگیا کہ مصیبت سر پر آچکی ہے ‘میری پھوپھی حسرت زدہ ہوکر ان کے قریب گئیں اور کہا: ہائے ماں!کاش کہ آج میں زندہ نہ ہوتی ‘میری ماں فاطمہؓ ،میرے بابا علیؓ اور میرے بھائی حسنؓ وفات پاچکے‘اے اسلاف کے بہترین جانشین اوراخلاف کے فریاد رس!اے ابو عبداللہ !میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں ‘آپ کی شہادت سر پر ہے ‘وہ فریاد کرتے کرتے بے ہوش ہوگئیں ‘امام عالی مقام نے ان پر پانی چھڑکا اور فرمایا: ''بہن!اللہ سے ڈر اور صبر کر‘اللہ سے صبر کی التجا کر ‘شیطان آپ کی بردباری کو ختم نہ کردے ‘جان لو! جو بھی زمین پر ہے‘ سب نے موت سے ہمکنار ہوناہے اور آسمان والوں کو بھی بقا نہیں ہے‘اللہ کے سواہرچیز نے فناہونا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے اپنی قدرت سے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور وہی اپنی قوت و غلبہ سے سب کو مار دے گا اور پھر زندہ کرے گا ‘پھر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت ہوگی‘وہ یکتا ہے۔ جان لو! میرے باپ مجھ سے بہتر تھے ‘میری ماں مجھ سے بہتر تھیں ‘میرے بھائی مجھ سے بہتر تھے۔ میرے لیے ‘ان کے لیے اور ہر مسلمان کے لیے رسول اللہﷺ کی ذات میں نمونہ ہے‘‘ ۔پھرآپ نے اُنہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : '' میرے مرنے کے بعدنوحہ وبین نہ کرنا‘چہرے کو نہ پیٹنا ‘سینہ کوبی نہ کرنا ‘پھر وہ پھوپھی جان کو لے کر میرے پاس آئے اور اپنے اصحاب کی طرف نکل گئے اور انہیں ہدایات دیں کہ خیموں کو ایک دوسرے کے قریب کر دو حتیٰ کہ طنابیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑجائیں ‘دشمن کے لیے خیموں کی طرف ایک راستے کے سوا کوئی راستہ نہ چھوڑو ‘ خیموں کو دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف رکھو‘پھر امام عالی مقام اور آپ کے اصحاب رات بھر نماز پڑھتے رہے ‘ استغفار کرتے رہے‘ گڑگڑاکردعائیں مانگتے رہے‘جبکہ دشمن کے گھوڑے نگرانی کے لیے ان کے گرد چکر کاٹ رہے تھے‘ (البدایۃ والنہایۃ:ج:8ص:176‘177)‘‘۔
مؤرخین لکھتے ہیں: ''مکہ معظمہ سے روانہ ہوتے وقت امام عالی مقام کے ساتھ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کھڑے تھے‘حضرت عبداللہ نے ان سے کہا:اے فرزند فاطمہؓ !نزدیک آؤ‘امام عالی مقام قریب ہوئے تواُنہوں نے سرگوشی کی ‘پھر امام ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:تمہیں معلوم ہے عبداللہ بن زبیر نے کیا کہاہے‘ہم نے عرض کی:ہم آپ پر فدا ہوں ‘ہمیں نہیں معلوم ‘آپ نے فرمایا: عبداللہ بن زبیر نے کہا:آپ اس مسجد میں ٹھہر یں ‘میں آپ کی حمایت کے لیے لوگوں کو جمع کرتا ہوں‘ امام عالی مقام نے فرمایا: ''بخدا! اگر میںاس مسجد سے ایک بالشت باہر شہید کیا جائوں تو یہ ایک بالشت اندر شہید ہونے سے مجھے زیادہ پسند ہے۔ اللہ کی قسم !اگر میں حشرات الارض کے کسی بل میں بھی گھس جائوں تو دشمن اپنے مذموم ارادوں کو پورا کرنے کے لیے مجھے نکال باہر کریں گے ‘بخدا !یہ میرے حوالے سے حق سے بالکل اسی طرح تجاوز کریں گے جیسے یہود نے ہفتے کے دن کی حرمت کو پامال کرکے کیا تھا ‘‘۔
پھر امام عالی مقام کوفہ روانگی کے لیے مکہ معظمہ سے اپنے اصحاب کے ساتھ رخصت ہوگئے ‘عبداللہ بن سلیمؓ بیان کرتے ہیں:ہم مکہ مکرمہ سے باہر نکلے ‘ مقامِ صفاح پر پہنچے توعرب کے مشہور شاعر فرزدق سے ملاقات ہوئی‘وہ امام حسین ؓکے پاس رکا اوران سے کہا:اللہ آپ کی مراد پوری کرے ‘امام حسینؓ نے ان سے کہا:ہمیں لوگوں کے بارے میں کچھ بتائو‘فرزدق نے کہا:آپ نے ایک باخبر شخص سے پوچھا ہے ‘ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنو اُمیہ کے ساتھ ہیں ‘قضا وقدر کے معاملات اللہ کی طرف سے آتے ہیں ‘ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘امام عالی مقام نے فرمایا:آپ نے سچ کہا‘ہر معاملے کی زمامِ کار اللہ کے دست قدرت میں ہے ‘ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے ‘ہر دن ہمارے رب کی ایک نئی شان ہے ‘اگر اللہ کی قضا طے ہوچکی ہے ‘تو ہم اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں ‘ وہی مدد فرمانے والا ہے ‘ اگر اُمید کی راہ میں قضا حائل ہوگئی تو جس کی نیت حق ہو اور باطن تقویٰ سے لبریز ہو ‘ اسے کوئی پروا نہیں ہوتی ‘پھر آپ نے اپنی سواری کو ایڑ لگائی اور سلام کرکے جدا ہوگئے‘ (تاریخ طبری : ج:5ص:385)‘‘۔
کربلا کے سفرکے دوران خطبات:
(1):پھر جب امام حسین مقامِ زبالہ پہنچے تو وہاں آپ کو حضرت مسلم بن عقیلؓ،ہانی بن عروہؓ اور عبداللہ بن بقطرؓ کی شہادت کی اطلاع پہنچی‘آپ نے اپنے اصحاب کو ایک تحریر پڑھ کر سنائی:''بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم!مسلم بن عقیل ‘ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن بقطر شہیدکردیے گئے ہیں اور ہمارے حامیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے ‘لہٰذا تم میں سے جو شخص جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے‘ ہماری طرف سے اس کی کوئی مذمت نہیں ہوگی ‘یہ سنتے ہی سب لوگ متفرق ہوگئے‘ کوئی دائیں طرف کواورکوئی بائیں طرف کو روانہ ہوگیا‘ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ مدینہ طیبہ سے آپ کے ساتھ چلے تھے‘ صرف وہی باقی رہ گئے‘ (طبری :ج:5ص:399)‘‘۔
(2):پھر جب امام حسین رضی اللہ عنہ مقامِ شَراف پر پہنچے تو حُر ایک ہزار سواروں کا لشکر لے کر آپ کے مقابل آکھڑا ہوا۔ حُر نے آپ کو اس مقام پر روکے رکھا اور آگے جانے نہ دیا ۔اسی دوران نماز ظہر کا وقت آگیا‘ آپ نے حجاج بن مسعودؓ کو اذان دینے کا حکم دیا ‘ انہوں نے اذان دی ‘پھر جب اقامت کا وقت ہوا تو امام حسین تہبند‘ چادر اور جوتے پہنے ہوئے اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے ‘ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا: ''لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور اور تمہارے سامنے ایک عذر پیش کررہا ہوں ‘چونکہ تم لوگوں کے خطوط اور تمہارے قاصد میرے پاس یہ پیغام لے کر آئے: '' آپ ہمارے پاس تشریف لائیں ہمارا کوئی امام نہیں ہے شاید آپ کے سبب اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت پر جمع فرمادے‘‘ ۔اس لیے میں تمہارے پاس آیا ‘اب اگر تم اس قول پر قائم ہو تو میں تمہارے پاس آچکا ہوں ‘تم میرے اطمینان کے مطابق مجھ سے پیمانِ وفا کرلو تاکہ میں تمہارے ساتھ تمہارے شہر چلوں ‘ اگر ایسا نہیں کرتے اور میرا آنا تم کو ناگوار ہے تو واپس چلا جاتا ہوں ‘ یہ سن کر سب لوگ خاموش رہے ۔پھر مؤذن نے اقامت کہی ‘امام عالی مقام نے حُر سے پوچھا : تم لوگ الگ نماز پڑھوگے‘حر نے کہا :ہم آپ کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے‘ پھر آپ نے سب کو نماز پڑھائی اور اپنے خیمے کے اندر تشریف لے گئے ‘ آپ کے تمام اصحاب وانصار سب آپ کے پاس جمع ہوگئے ‘حرواپس اپنے لیے نصب کردہ خیمے میں چلا گیا ‘اس کے ساتھیوں میں سے کچھ لوگ اس کے پاس جمع ہوگئے‘ باقی لوگ اپنی اپنی صفوں میں واپس آگئے ‘پھر امامِ عالی مقام نے سب کو عصر کی نماز باجماعت پڑھائی۔ (جاری )