افغانستان میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ کابل فتح ہونے کے بعد ملا عبدالغنی برادرافغانستان پہنچ چکے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے ہیں اور حکومت چلانے کے حوالے سے طالبان کا موقف دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ثقافت‘ تعلیم‘ دفاع اور معیشت سمیت تمام معاملات میں پالیسی بدلے جانے کا امکان ہے۔ نئے بادشاہ کے نئے وزیر اور پیادے ہوں گے جن کی ایک ایک چال نہ صرف افغانستان بلکہ ہمسایہ ممالک پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن سب سے اہم معاملہ معیشت کا رہے گا اور طالبان کی سب سے زیادہ توجہ بھی شاید اسی سمت میں ہو گی۔ طالبان بخوبی جانتے ہیں کہ اگر صرف دنیا سے قرض اور امداد پر تکیہ کیے رکھا تو فتح کو شکست میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ نیٹو اور افغان فورسز سے فتح میں ڈالرز کے حصول اور انتظام نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ڈالرز کے بغیر جنگ لڑنا شاید مشکل ہوتا۔ اہم بات یہ ہے کہ طالبان نے نہ صرف ڈالر حاصل کیے بلکہ ان کا بہترین استعمال بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف دو ماہ کے اندر اس تیز رفتاری سے جنگ کا جیت جانا بہترمعاشی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔لیکن جنگ جیتنے اور ملک چلانے میں فرق ہوتا ہے۔ طالبان افغانستان کو بہتر انداز میں چلا سکیں گے یا نہیں اس بارے میں کوئی دعویٰ کرنا قبل از وقت ہے۔ اس وقت بھی پورے افغانستان پر طالبان کا قبضہ نہیں ہے۔ وادی پنج شیر پر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود جونئیر کی حکومت ہے جو کہ حال ہی میں پاکستان کے دورے پر بھی آئے ہوئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کے بارے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ بھی وادی پنج شیر میں موجود ہیں۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد امراللہ صالح نے بیان دیا ہے کہ اشرف غنی نے ابھی استعفیٰ نہیں دیا‘ وہ ابھی بھی افغانستان کے صدر ہیں‘ ان کے ملک میں نہ ہونے کی صورت میں نائب صدر قائم مقام صدر ہو گا‘ میں افغانستان میں ہی موجود ہوں‘ جس نے بات کرنی ہے مجھ سے کرے۔ایسی صورتحال میں حالات کس وقت بدل جائیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
موجودہ صورتحال پر مکمل نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس وقت افغانستان میں افراتفری کا عالم ہے۔ افغان معیشت تو زبوں حالی کا شکار ہے ہی لیکن اس کا برا ہ راست اثر پاکستانی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً بیس سے تیس ہزار افغان روز پاک افغان بارڈر سے سفر کرتے ہیں۔ دورانِ سفر وہ ڈالر یا افغان کرنسی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ جب سے طالبان نے افغانستان کے بڑے صوبوں کو فتح کرنا شروع کیا ہے افغان کرنسی کی قیمت گر چکی ہے اور پاکستان آنے پر اس کا استعمال بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ کابل فتح ہونے کے بعد غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا لوگ ڈالرزخریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پاکستان سے ڈالرز خرید کر محفوظ کیے جا رہے ہیں تا کہ مشکل وقت میں کام آ سکیں جس کے باعث ڈالر کی قیمت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان میں افغان طالبان کی فتح کا جشن منایا جا رہا ہے لیکن عوامی اور حکومتی سطح پر اس پہلو کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ طالبان کی حکومت بننے اور پاکستان کی کھلی سپورٹ سے بین الاقومی امیج متاثر ہو رہا ہے۔ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ طالبان کا ساتھ دینے کی پاداش میں مستقبل میں پاکستان پر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں اس لیے پاکستان میں سرمایہ محفوظ نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپریل میں اڑھائی ارب ڈالرز کے جاری کیے گئے بانڈز کی قیمت میں اچانک کمی واقع ہوگئی ہے۔ پانچ سالہ بانڈز کی قیمت میں تقریبا ًڈیڑھ فیصد‘ دس سالہ بانڈز کی قیمت میں ایک اعشاریہ سات فیصد اور تیس سالہ بانڈز کی قیمت میں تقریباً دو فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے حالانکہ اپریل کے مہینے میں جب انہیں جاری کیا گیا تھاتو ان کی قیمت میں بہترین اضافہ ہوا تھا جس کے باعث جولائی میں مزید ایک ارب ڈالرز کے بانڈز جاری کیے گئے تھے‘ لیکن افغانستان میں حکومت کے بدلنے سے پاکستان میں حالات کافی تبدیل ہو گئے ہیں۔
ایک طرف افغان صورتحال کے پاکستان پر اثرات ہیں اور دوسری طرف آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہو سکا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی نازک ہے۔ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک غلطی سالوں کی محنت ضائع کر سکتی ہے۔ خاص طور پرجب آپ کا ہمسایہ ملک بھارت ہو۔بھارت عالمی میڈیا پر یہ پروپیگنڈا کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ طالبان اور پاکستان ایک ہیں۔ طالبان کو پاکستان سپانسر کر رہا ہے۔ کابل فتح کرنے کے لیے پندرہ اگست کے دن کا انتخاب پاکستان کی جانب سے کیا گیا۔ طالبان کو تو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کابل چودہ اگست کو فتح ہو یا پندرہ اگست کو‘ یہ آئیڈیا پاکستان کا تھا تا کہ بھارت کے یوم آزادی کو یوم سوگ میں بدلا جاسکے۔ اس موقف میں کتنی سچائی ہے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن اس پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکالنا پاکستان کے لیے ضروری ہو گیا ہے تا کہ عالمی برادری کے ساتھ تعلقات بہتر رہ سکیں۔ اس وقت دنیا کی نظریں افغانستان پر ہیں۔ خاص طور پر چین‘ ترکی‘ روس‘ تاجکستان‘ آذربائیجان اور ترکمانستان افغانستان میں بلین ڈالرز کے منصوبے لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ افغانستان معدنیات کے حوالے سے مالا مال ہے۔ سونا‘ چاندی‘لوہا‘ کاپراور لیتھیم کے تقریباً ایک کھرب ڈالرز کے ایسے ذخائر موجود ہیں جنہیں ابھی تک ہاتھ نہیں لگایا گیا ۔ اگر دیگر معدنیات کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی مالیت تقریبا ًتین کھرب ڈالرز بنتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ آنے والے سالوں میں دنیا کی تمام بڑی مائننگ کمپنیاں افغانستان کا رخ کر سکتی ہیں۔ ابھی بھی کچھ کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کے ہیڈ آفس کابل میں ہیں۔ افغانستان کے غزنی صوبے کی بات کی جائے تو اسے لیتھیم کاسمندر مانا جاتا ہے اور مستقبل میں یہ بین الاقوامی بزنس سنٹر بننے کے صلاحیت رکھتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان بھی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ پاکستان کی بہت سی نجی کمپنیاں اس انتظار میں ہیں کہ انہیں موقع ملے اور یہ افغانستان سے زرمبادلہ کما کر پاکستان لا سکیں۔ حکومت کو ذاتی طور پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ماحول پیدا کر کے دینا ہے‘ بقیہ کام سرمایہ کار خود کر لیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا بڑا مسئلہ سنٹرل ایشیائی ممالک سے تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنا ہے۔ چار سال پہلے تک پاکستانی ٹرک زرعی اجناس لے کر افغانستان داخل ہوتے تھے اور سنٹرل ایشیا بارڈر تک خود مال لے کر جاتے تھے جس سے خرابی کی شرح بہت کم رہتی تھی لیکن 2017 ء میں اشرف غنی نے پابندی لگا دی کہ جب تک افغان ٹرکوں کو پاکستان میں داخل ہو کر مطلوبہ مقامات تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جاتی‘ پاکستانی ٹرکوں کو بھی افغان بارڈر پر آف لوڈ کر کے سامان افغان ٹرکوں کے ذریعے سنٹرل ایشیائی ممالک تک پہنچایا جائے گا۔ اس سے پاکستان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ طالبان کی حکومت آنے کے بعد اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ جس کے حل نہ ہونے کی ایک وجہ اشرف غنی حکومت کی عدم تعاون کی پالیسی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے تجارتی مسائل ہیں جو صرف دونوں اطرف کے تاجروں کی ایک میٹنگ سے حل ہو سکتے ہیں۔
کابل اور طورخم میں چیمبر آف کامرس کے قیام اور ہفتہ وار میٹنگ کے انعقاد سے دو طرفہ تجارت کو مزید فروغ مل سکے گا۔طالبان کو اس وقت پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے مطا لبات منوائے جا سکتے ہیں‘جن کے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔