تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     21-08-2021

کلیجے کیوں جل بھن رہے ہیں؟

امریکہ یا یوں کہئے اس کی فوجی قوت سکتے میں ہے۔ بیشتر مغربی ممالک افغانستان کے حالات دیکھ کے ماتم کرنے کو تیار ہیں۔ہندوستان بھی جلا بھنا پڑا ہے۔ لیکن یہ کیفیت سمجھ سے بالاتر ہے۔امریکہ طالبان کو شکست نہیں دے سکا اور ایسی صورت میں ہمیشہ افغانستان میں رہنے کیلئے تیار نہ تھا۔عقل کی بات تو صرف ڈونلڈ ٹرمپ نے کی کہ اِن فضول کی جنگوں میں امریکہ کیوں پڑ جاتاہے اور افغانستان کا واحد حل یہ ہے کہ امریکہ وہاں سے نکلے ۔بارک اوباما بڑا ذہین شخص سمجھا جاتا تھا لیکن اُس کے دورِ صدارت میں امریکہ کی افغانستان میں فوج ڈیڑھ لاکھ تک پہنچی تھی۔ لیکن پھر بھی امریکیوں سے افغانستان کنٹرول نہ ہوا ‘ لہٰذا امریکی نکلے تو مجبوری کے تحت نکلے۔ حیرانی کی بات صرف اِتنی ہے کہ کٹھ پتلی حکومت اتنی جلدی منظر سے غائب ہوئی۔ باقی سب تو نوشتۂ دیوار تھا۔
ریت کے گھروندے جب بنائے جاتے ہیں تو ریت کے گھروندے ہی ثابت ہوتے ہیں۔امریکی ہمیشہ کیلئے رہتے تو اشرف غنی حکومت بھی چلتی رہتی۔جب اُنہوں نے جانے کا اعلان کردیا تو یہ ریت کا ڈھکوسلا کتنی دیر قائم رہ سکتا تھا؟ اب سارے رو پیٹ رہے ہیں‘ حالانکہ اُن کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں آیا تو ضرور لیکن اِتنی دیر اُسے وہاں ٹھہرنا نہیں چاہئے تھا۔امریکہ نے بہت ملک تباہ کئے ہیں لیکن یہ افغانستان تھا اور وہاں طالبان کی تحریک موجود تھی ۔ اُن میں اِتنی ہمت تھی کہ وہ امریکہ کا سامنا کرتے اور مزاحمت کی جنگ نہ صرف شروع کرتے بلکہ بیس سال تک اُسے جاری رکھتے۔ کوئی کمزور قوم ہوتی تو امریکہ اُسے کچل کے رکھ دیتا۔ یہاں بھی ہر حربہ امریکہ نے استعمال کیا لیکن کوئی بات نہیں بنی ۔افغان قوم ثابت قدم رہی اور لڑتی رہی۔ ویتنام نے امریکہ کو سبق سکھایا تھااور اب افغانستان نے سبق سکھایا ہے۔
اِس وقت امریکہ کو اصل خفت یہ ہے کہ افغانستان خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوا۔امریکہ کے ارمان تب ہی ٹھنڈے ہوتے اگرا فغانستان میں افراتفری پھیلتی اور افغان ایک دوسرے کے گلے پڑتے۔ ایسا نہیں ہوا کیونکہ طالبان کے سامنے کھڑا ہونے والا کوئی نہیں۔طالبان کو افغان عوام کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔افغان قوم جنگ و جدل سے تنگ آچکی ہے ۔ وہ اپنے ملک میں امن چاہتی ہے، استحکام کی خواہاں ہے۔ اور افغان قوم جانتی ہے کہ استحکام وہی لوگ لاسکتے ہیں جن میں اِتنی سکت تھی کہ امریکہ کا مقابلہ کیا۔ایک بات ماننی پڑے گی۔ امریکہ کی بھرپور طریقے سے رسوائی ہوئی ہے۔ پورے نیٹو اتحاد کی رسوائی ہوئی ہے‘ لیکن دیکھا جائے تو مغربی ہتھیاروں نے افغانستان میں شکست نہیں کھائی۔ مغربی عقل افغانستان کو نہ سمجھ سکی اور شکست ہوئی ہے تو مغربی عقل کی۔
امریکہ نے کتنے ملک برباد کئے ہیں۔ حالیہ سالوں میں ہی عراق تباہ ہوا، لیبیا انارکی کی نذر ہوا ، اور پوری کوشش کی گئی کہ یہی حال شام کا ہو لیکن شام اُس مقدر سے بچا کیونکہ اُسے روس ، ایران اور حزب اللہ کی حمایت حاصل تھی۔پھر یہ بھی ہے کہ شامی صدر بشار الاسد ثابت قدم ثابت ہوا‘ نہیں تو امریکی اور مغربی دنیا کی پوری کوشش تھی کہ شام تباہی کے حوالے ہوجائے۔ لیکن طالبان نے خوب کیا ۔ اُنہوں نے تمام حساب برابرکردیئے۔
یہ بالکل بیکار کی باتیں ہیں کہ طالبان کہیں پہلے جیسے طالبان تو ثابت نہیں ہوں گے ۔ حالات بدل گئے ہیں دنیا بدل چکی ہے ۔ آج کی دنیا کے تقاضے اور ہیں۔ طالبان پہلے جیسے رہ ہی نہیں سکتے ۔ اُن کی بقا اِسی میں ہے کہ آج کے تقاضوں کے تحت چلیں۔ طالبان کا مسلک جو بھی ہو اُنہوں نے آس پاس کے ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے ہیں۔ ایران کے ساتھ اُن کے اچھے تعلقات ہوں گے ۔ چین میں تو کوئی مذہب نہیں چلتا ۔ وہ لا دین لوگ ہیں ۔ اُن کی آئیڈیالوجی کمیونزم ہے لیکن یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ چین کے ساتھ طالبان کے تعلقات بہترین ہوںگے۔روس کے ساتھ بھی معاملات طے ہوں گے اور پاکستا ن کے ساتھ قریبی تعلقات تو ہیں ہی۔طالبان نے حکومت چلانی ہے تنخواہیں دینی ہیں ،پیسے کہاں سے آئیں گے ؟بینک افغانستان کے تمام اثاثے باہر پڑے ہیں اور امریکہ دینے کو تیار نہیں۔کتنی بھونڈی سوچ امریکہ کی ہے ۔ وہ اپنا بدلہ اِسی انداز سے لیں گے کہ طالبان کی مشکلات بڑھیں ‘یعنی جہاں اُنہیں فراخدلی کا ثبوت دکھانا چاہئے وہ چھوٹے دل کے ثابت ہو رہے ہیں۔ بہرحال طالبان نے اپنی بقا کے راستے خود ڈھونڈنے ہیں ۔ علاقائی رشتوں سے ہی طالبان کو تقویت ملے گی۔
البتہ امریکہ نے کسی پہ تو فردِ جرم عائد کرنا ہے اور الزام تراشیاں پاکستان پر ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ آئی ایس آئی طالبان کے پیچھے تھی۔ ماضی میں ہم نے بہت غلطیاں کی ہوں گی لیکن اِس بار یہ غلطی نہیں کی کہ امریکی پریشرکے تحت ہم طالبان سے بگاڑ لیتے۔اگر ایسا ہم کرتے تو آج کہیں کے نہ ہوتے۔ہم نے غیر ضروری طور پر امریکہ سے بھی نہیں بگاڑی اور طالبان سے بھی اپنے تعلقات رکھے۔ یہ ہماری پالیسی کی کامیابی ہے۔ پاکستان میں ایک مکتبِ فکر ہے جو افواج سے بغض رکھتا ہے ۔ فوج سے جڑی کوئی چیز اُنہیں اچھی نہیں لگتی۔ افغانستان کے حوالے سے بھی اِس مکتبِ فکر کے لوگ خوش نہیں کہ جیت طالبان کی ہوئی اور امریکہ کے حصے میں رسوائی آئی۔بہت سی چیزوں پہ تنقید کی جاسکتی ہے لیکن جہاں کہیں پاکستان کیلئے نوید اچھی ہو اُسے ماننا چاہئے۔افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے پاکستان کے فائدے میں ہوا ہے۔افغانستان میں استحکام پیدا ہو تو ہمارے مغربی بارڈر کے علاقوں میں استحکام آئے گا۔ وہاں حالات اچھے ہوں گے۔
ابھی سے طورخم اور چمن کے بارڈر پوسٹوں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ مال بردار ٹرکوں کا آنا جانا زیادہ ہورہا ہے۔طالبان کے آتے ہی طورخم کے اُس پار‘ جہاں افغان بیٹھے ہیں‘ رشوت ختم ہو گئی ہے۔ ہمیں بھی اِس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ اِس طرف بھی بارڈر تجارت میں رشوت کا خاتمہ ہو ۔تجارت بڑھے گی تو ہمارااور افغانوں‘ دونوں کا فائدہ ہوگا۔ امریکی جو کہتے ہیں کہتے رہیں۔ امریکی سازشیں ہمارے ملک میں بہت چلی ہیں۔ امریکی اثر یہاں بہت رہا ہے ۔ ضرورت سے زیادہ رہا ہے۔ اب اِس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ امریکہ سے تعلقات ضرور ٹھیک ہونے چاہئیں لیکن ہمارے اشرافیہ کے لوگ جو چھوٹی چھوٹی مراعات کیلئے امریکیوں کے نیچے لگے رہتے ہیں اِس میں ہماری کوئی عزت نہیں۔ کچھ تو ہمیں طالبان سے سیکھنا چاہئے۔ خودی کو اقبال کی شاعری تک محدود نہ رکھیں۔ اُس کا کچھ عملی مظاہرہ بھی کبھی کرکے دکھائیں ۔
یہاں کی لوٹ مار ختم ہونی چاہئے ۔ حکمران طبقات نے جو اِس ملک کے ساتھ کرنا تھا وہ کیاہے ۔ کیسی کیسی جائیدادیں اِن لوگوں نے بنائی ہیں۔ یہ سلسلۂ ڈکیتی تو ختم ہو ۔نام لیتے ہیں عوا م کا‘ نظریں ہوتی ہیں اِس ملک کے وسائل پہ ۔یہ نہیں کہ موجود ہ حکمران فرشتے ہیں ۔ ہرگز نہیں۔ لیکن جو پہلے تھے اُن کی عیاشیوں کو تو دیکھا جائے ۔ کتنا مال اُنہوں نے سمیٹا ہے۔اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔
ہم افغان نہیں ہمارا مزاج اور ہے‘ لیکن جس قسم کی کمزور حکمرانی یہاں پائی جاتی ہے اِس کو تبدیل ہونا چاہئے ۔ اِتنی تو ڈنڈے والے حکمرانی ہو کہ اُس کا صحیح معنوں میں حکم چلے۔ قانون کی حکمرانی کا مطلب ہے کہ قانون کو ہر کوئی مانے۔ یہاں اوپر طبقات کیلئے قانون اور ہے اور پسے ہوئے طبقات کیلئے اور۔مذہب کے نام پر فتنہ کھڑا نہ ہو۔ یہاں جس کسی کا دل چاہتا ہے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں اور دھرنے دے دیئے جاتے ہیں۔ہم طالبان نہ بنیں لیکن حکمرانی کے ضمن میں طالبان سے کچھ سیکھ لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved