تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     21-08-2021

افغانستان میں طالبان کی واپسی

آج کل افغانستان کی صورت حال تمام دنیا کی دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس حیران کن ڈویلپمنٹ کو نگاہِ شوق سے دیکھا جا رہا ہے۔ عرب دنیا میں اس صورت حال کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ امریکہ کے امیج کو اچھا خاصا دھچکا لگا ہے۔ بقول ایک امریکی مبصر وہاں کی اسٹیبلشمنٹ صدمے کی حالت میں ہے۔
15 اگست سے لے کر تادمِ تحریر میں عربی چینلز پر افغانستان کے بارے میں متعدد انٹرویوز دے چکا ہوں۔ عربی ٹی وی چینل اب ساری دنیا سے نشریات کر رہے ہیں۔ بی بی سی عریبک (BBC-Arabic) تو ایک عرصے سے معروف ہے۔ اب امریکہ، ترکی، روس، ایران سے بھی ٹیلی ویژن چینل اہم عالمی امور پر شب و روز تبصرے کر رہے ہیں‘ البتہ عربوں کی دوستی کا دعویٰ کرنے والا ایک ملک ہے جہاں کوئی عربی چینل نہیں‘ اور وہ ہے پاکستان۔
پاکستان میں افغانستان کے حوالے سے رائے عامہ منقسم ہے۔ دائیں با زو کے لوگ طالبان کی واپسی کو فتح مبین قرار دے رہے ہیں جبکہ لبرل قسم کے اشخاص سمجھ رہے ہیں کہ افغانستان پھر سے قدامت پسندی کی جانب رجوع کر رہا ہے۔ اس کالم کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دنیا نئے افغانستان کو کیسے دیکھ رہی ہے۔ متعدد سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ کیا افغانستان میں جمہوریت آ سکے گی؟ یا طالبان کی ڈکٹیٹرشپ ہی چلے گی؟ کیا افغانستان امارتِ اسلامی بن کر پھر سے طالبان کے جبر کا شکار ہو جائے گا؟ کیا وہاں اب طالبان بلا شرکت غیرے خود ہی حکمرانی کریں گے یا تعددیت یعنی Pluralism کو بھی چانس ملے گا۔ کیا پاکستان طالبان کی حمایت جاری رکھے گا اور پاکستان طالبان کی حکومت کو کب تک تسلیم کرلے گا؟ طالبان کہاں تک حقوق نسواں کی پاس داری کریں گے؟
میں بار بار یہ کہتا ہوں کہ پاکستان کے لیے افغانستان میں کوئی دھڑا فیورٹ نہیں۔ اپنے جواب کی سپورٹ میں میری دلیل تھی کہ افغانستان سے ایک وفد پاکستان آیا‘ اس میں متعدد زعما شامل تھے، لیکن تحریک طالبان کا ایک بھی نمائندہ نہیں تھا۔ اسلام آباد میں افغان وفد نے سرکاری سطح پر متعدد ملاقاتیں کیں جن کی باقاعدہ تشہیر ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان تمام افغان دھڑوں کو ایک نظر سے دیکھتا ہے‘ لیکن طالبان دوستی کا تاثر پوری دنیا میں پاکستان کے نام کے ساتھ چپک گیا ہے۔ 'بد سے بدنام بُرا‘ والی بات ہے۔ یقین مانئے ہماری معتبریت (credibility) خاصی کمزور ہے۔
اکثر دوست یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ ہماری باتوں پر دنیا یقین کیوں نہیں کرتی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ممبئی کے 2008 کے حملوں اور 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت نے ہماری مصداقیت کو گہرا نقصان پہنچایا۔ حقانی نیٹ ورک اور دیگر نان سٹیٹ ایکٹرز کی حمایت کے الزامات ہم پر تواتر سے لگتے رہے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد سے ہماری پالیسی ضرور بدلی لیکن پرانی شہرت نے ہمارا تعاقب کیا اور آج تک کر رہی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا میں ہماری آواز نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارا اپنا میڈیادن رات داخلی لا یعنی بحثوں میں لگا رہتا ہے۔ انگریزی زبان کا ہمارا صرف ایک چینل ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ پاکستان سے باہر دیکھا بھی جاتا ہے یا نہیں۔ وزارت اطلاعات میں یوں تو خارجی پبلسٹی کے لیے ایک ونگ ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی کمزور ہے۔ ایک زمانے میں اسے وزارت خارجہ میں ضم کر دیا گیا تھا جو کہ بڑا ہی صائب فیصلہ تھا‘ جسے جلد ہی واپس لے لیا گیا۔
ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا کہ پاکستان سے افغانستان میں مداخلت ہوتی رہی ہے‘ کیا یہ جاری رہے گی۔ میرا جواب یہ تھا کہ مداخلت تو افغانستان کی سرزمین سے ہمارے سرحدی علاقوں اور بلوچستان میں ہوتی رہی ہے، اور ہم چاہیں گے کہ اب یہ سلسلہ بند ہو۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ پاکستان میں افغانستان میں ممکنہ بدامنی کے حوالے سے ڈر خوف تو نہیں؟ میرا جواب تھا کہ وہاں بد امنی کا پاکستان میں لا محالہ منفی اثر ہو گا۔ ہم خوش حال اور پُرامن افغانستان چاہتے ہیں جس کے ساتھ پاکستان تجارت کر سکے۔ جس کے ذریعے پاکستان ازبکستان تک ریلوے لائن بچھا سکے۔ ترکمانستان سے گیس لا سکے۔ تاجکستان سے بجلی امپورٹ کر سکے۔نئے افغانستان کے حوالے سے ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں کابل حکومت کا مؤقف کیا ہو گا۔ میڈیا کی اطلاعات ہیں کہ افغان جیلوں سے رہا ہونے والوں میں ٹی ٹی پی کے جنگجو بھی شامل ہیں۔ نئی افغان حکومت کی طرف سے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تو ہے کہ افغان سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی‘ لیکن اسلام آباد کو یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی یا کسی ملک کی پاکستان دشمن کارروائی ہمارے لیے ریڈ لائن ہو گی۔ ایک بات جس کا خدشہ تھا وہ ٹل گئی ہے اور وہ خدشہ یہ تھا کہ امریکہ اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرائے گا۔ ہوا یوں کہ اشرف غنی کا دم دبا کر ڈرامائی انداز میں فرار ہونا میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ امریکہ میں صدر بائیڈن پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں کہ اتنی عجلت میں فوجیں نکالنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بھی سوال بار بار پوچھا جا رہا ہے کہ اربوں ڈالروں سے تیار کردہ تین لاکھ افغان فوج دس دن میں کیسے کافور ہو گئی۔ کئی امریکی مبصر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ امریکی وزارتِ دفاع یعنی پنٹاگون سیاسی قیادت کو سبز باغ دکھاتی رہی کہ فوجی طاقت سے یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
انٹرنیشنل کمیونٹی کو یہ بھی خدشہ ہے کہ طالبان کا افغانستان پھر سے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کا گڑھ بن سکتا ہے۔ میرا جواب یہ تھا کہ اس طرح کی تنظیمیں عموماً ایسے ممالک میں پھلتی پھولتی ہیں جہاں حکومت کی رٹ کمزور ہو۔ طالبان کی حکومت چونکہ مضبوط ہو گی لہٰذا دہشت گردوں کے واپس لوٹنے کا چانس بہت کم ہے۔ دوسرے یہ کہ آج کی طالبان قیادت ماضی والے طالبان سے خاصی مختلف ہے۔ ان لوگوں نے بیس سال میں کافی کچھ سیکھا ہے۔ یہ قیادت خواتین کو ان کے جائز حقوق دے گی۔ نئی طالبان قیادت کو اس بات کا بڑا احساس ہے کہ دوسرے ممالک کا نئی حکومت کو جلد تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ تمام پڑوسی ممالک بشمول چین، روس، پاکستان، ترکی اور ایران ایک پیج پر ہیں اور چاہتے ہیں کہ کابل میں دیرپا حکومت بنے اور پائیدار حکومت وہی ہو سکتی ہے جس میں تمام دھڑے شامل ہوں۔ چند مغربی اینکرز کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جمہوریت اور تعددیت یعنی Pluralism کا آنا مشکل ہے کیونکہ اس کے ہمسایہ ممالک میں یا تو جمہوریت ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو کمزور ہے۔ میرا جواب تھا کہ پاکستان اور ترکی میں جمہوریت ہے اور متعدد سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ پاکستان نئی حکومت کو کب تسلیم کرے گا؟ تو میرا خیال ہے کہ پاکستان اس مرتبہ نئی حکومت کو تسلیم کرنے میں جلد بازی نہیں کرے گا بلکہ دوست ممالک کے ساتھ مشاورت کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کرے گا۔ طالبان سپوکس مین کی پریس کانفرنس میں خاصی پختگی نظر آئی۔ عام معافی کا اعلان‘ سفارت خانوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کا عزم اور خواتین کے حقوق کا تحفظ‘ تمام خوش آئند باتیں ہیں۔ مغربی مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان قیادت جلد یا بدیر دو دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ ایک حصہ اصلاح پسندوں کا ہو گا اور دوسرا گروپ قدامت پسند ملائوں کا اور یہ منقسم شدہ حکومت اپنے ہی بوجھ سے گر جائے گی۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved