تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     21-08-2021

جب ریٹنگ اور ٹرینڈنگ ہی نصب العین ہو

جس معاشرے کا سب سے بڑا اور اولین مسئلہ اخلاقیات ہوں وہاں سماجی اقدار لیرولیر ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ٹاپ ٹرینڈنگ کے چکر میں کیسا کیسا چکر چلایا جاتا ہے‘ بس کچھ نہ پوچھیے۔ سوشل میڈیا ایسا بے لگام گھوڑا بن چکا ہے‘ جس کی رفتار پر کوئی کنٹرول ہے نہ سمت کا کوئی تعین۔ سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ اکثر حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں پر اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ زمینی حقائق اور پورا سچ سامنے آنے تک حالات و واقعات کی شکل ہی بگاڑ کر رکھ دی جاتی ہے۔ ایسی افراتفری کا سماں دکھائی دیتا ہے کہ حکمرانوں سے لے کر انتظامی افسران اور عوام الناس تک سبھی اندھا دھند بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بھیڑ چال نے حکمرانوں کو ایسے اپنے تابع کیا ہے کہ وہ بعض اوقات پس منظر اور اصل صورتحال معلوم کیے بغیر ہی عجلت میں ایسے انوکھے فیصلے کر ڈالتے ہیں جو نہ صرف قانون اور ضابطوں کو آزمائش سے دوچار کرتے ہیں بلکہ سماجی و اخلاقی بگاڑ کے ذمہ داروں کو بھی اشیرباد دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی قندیل بلوچ تو کبھی مفتی قوی‘ کبھی حریم شاہ تو کبھی کوئی اور۔ نجانے کتنے ہی کردار وطن عزیز میں بسنے والوں کے لیے اخلاقی آزمائش کے ساتھ ساتھ اعصاب اور نفسیات پر کیسے کیسے عذاب توڑتے ہیں۔ ٹاپ ٹرینڈنگ اور ریٹنگ کے چکر میں کیسے کیسے زمین سے آسمان پر جا چڑھتے ہیں یا آسمان سے زمیں بوس ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی ریٹنگ اور ٹرینڈنگ کی بھینٹ چڑھ کر قندیل بلوچ پہلے ہی منوں مٹی تلے جا چکی ہے۔ ایک سرکاری ہسپتال کی سٹاف نرس تازہ ترین ٹاپ ٹرینڈ بن کر ایوان وزیر اعلیٰ سے لے کر گلی محلوں تک موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ اس کی درخواست پر درج کیے جانے والے مقدمے میں مدعیہ کے گھر کا ایڈریس غلط ہونے کے ساتھ ساتھ تفتیشی افسر کا فون نمبر بھی سرگودھا کے ایک رہائشی کے زیر استعمال ہے جو منڈی میں لوڈر کا کام کرتا ہے۔ ایف آئی آر میں دو اہم غلط اندراج ابہام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ واقعہ کے پس منظر اور اہداف کے بارے بھی کئی اشارے کررہے ہیں۔ گریٹر اقبال پارک میں ہونے والے واقعہ کو مینار پاکستان سے منسوب کر کے جو جذباتی اور ماتمی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے اس کے بینی فیشری بھی سوشل میڈیا ایکسپرٹ ہی ہیں۔
مملکت خداداد سے لے کر ہماری غیرتِ قومی اور سماجی و اخلاقی اقدار پر غلاظت کے ٹوکرے الٹانے والے ہوں یا سنگ باری کرنے والے‘ سبھی کا ہدف ریٹنگ اور ٹاپ ٹرینڈنگ ہی تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ وقوعہ کی مرکزی کردار کے بارے میں تضادات اور ماضی کے چند واقعات آنے والے وقت میں مزید انکشافات کا باعث بھی ہو سکتے ہیں‘ تاہم آج نہیں تو کل پورا سچ ادھورے سچ کو ضرور کھا جائے گا اور یہ پورا سچ بھی سوشل میڈیا پر اسی شدت سے وائرل ہوگا جو سوشل میڈیا کی روایت ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ گریٹر اقبال پارک میں رونما ہونے والے اس واقعہ کے سبھی کردار ناصرف بے نقاب ہوں گے بلکہ افشا ہونے والا یہ بھید بھی ٹاپ ٹرینڈ بنے گا۔ قانونی موشگافیوں کے ساتھ ساتھ کئی کرداروں کی آنیوں جانیوں کے علاوہ سبھی ڈرامے بازیاں انتہائی مہارت اور کاری گری سے ترتیب دی گئی تھیں۔ کرداروں کی آمد اور نشست و برخاست بھی سکرپٹ کا حصہ نظر آتی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ مملکت خداداد میں ایسا اندھیر نہیں مچاکہ راہ چلتی بنت حوا اس طرح عدم تحفظ کا شکار ہو جیسا بھیانک پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ اس گمراہ کن مہم میں شامل سبھی کردار پاکستانی معاشرے کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ چولہے میں جائے ایسی دانشوری‘ بھاڑ میں جائے یہ تہذیبِ نو...رہی بات دانشوری کی‘ تو ہمارے ہاں ایسا ایسا دانشور عقل و دانش سے عاری ہونے کے باوجود اپنی دانشوری پر نازاں اور اترائے پھر رہا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ اکثر مناظر دیکھنے اور بھگتنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب دانشوروں کے لیے دانش کا ہونا ضروری نہیں رہا۔ شاید انہیں حالات اور نام نہاد دانشوروں کے بارے میں ہی جون ایلیا نے کہا تھا ''کچھ لوگوں کو ابھی پڑھنا چاہیے جبکہ وہ مسلسل لکھ رہے ہیں‘‘ ہمارے ہاں لکھنے والے تو ایک طرف‘ سوشل میڈیا پر دِکھنے والوں نے وہ اُدھم مچا رکھا ہے کہ الامان والحفیظ۔ رہی بات تہذیبِ نو کی تو مولانا ظفر علی خان نے تو پچھلے زمانے میں ہی اس کا علاج دریافت کر لیا تھا۔
ملک بھر میں ایک مباحثے کا سماں ہے۔ گویا یہ ہمارا واحد اور آخری مسئلہ ہو۔ مرضی‘ من مرضی اور خود غرضی کا ایسا ایسا شرمناک اور قابلِ فکر نمونہ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے کہ سر پیٹنے کے سوا اور کیا ہی کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح اس واقعہ پر دانشوری بگھاری جا رہی ہے اور ہر لمحہ سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے‘ اخلاقی اور سماجی قدروں پر بمباری کی جا رہی ہے‘ بخدا بمشکل اپنے جذبات اور قلم کو سنبھال پا رہا ہوں کیونکہ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ احتیاط اور اختصار کے ساتھ رب سے یہی دعا ہے کہ ایسے نام نہاد دانشورانِ قوم سے اس ملک کو محفوظ فرما۔ ان کی توجیہات، ان کے جواز اور ان کی منطقیں جس طرح پوری قوم کو ذہنی کرب سے دوچار کیے ہوئے ہیں‘ خدا ہماری اخلاقی و سماجی اقدار اور فکری رجحانات کی حفاظت فرمائے۔
پوری قوم کو کس بے مقصد بحث میں الجھا ڈالا گیا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہو۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس تو زمانوں سے سنتے آئے ہیں یعنی ''لاٹھی میرے ہاتھ میں ہے تو بھینس بھی میری ہی ہو گی‘‘۔ بات اب لاٹھی اور بھینس سے نکل کر کچھ یوں شکل اختیار کر چکی ہے کہ میری حکومت میری مرضی‘ میری پارٹی میری مرضی‘ میرا صوبہ میری مرضی‘ میری گاڑی میری مرضی‘ میرا جسم میری مرضی وغیرہ وغیرہ کے بعد اب میرا کیمرہ میری مرضی والوں نے من مرضی کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ یہ مرضی اب من مرضی اور خود غرضی کی تمام حدود پار کرکے اخلاقی اور معاشرتی قدروں کے لیے دہشتگردی سے کم نہیں۔ اس کیمرے کے توسط سے دکھائے جانے والے بھاشن اور دانشوری کے نام پر ہماری اخلاقی و سماجی قدروں پر سوالات اٹھا کر ریٹنگ حاصل کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ ٹاپ ٹرینڈنگ کی دوڑ میں غیرت قومی کا جنازہ نکال رہے ہیں۔
احتجاج اور یکجہتی کرنے والے ہوں یا تضادات کی وجہ سے واقعہ پر اختلاف رائے رکھنے والے‘ سبھی پاکستانی ہیں لیکن یہ پاکستانی جب ریٹنگ اور سیلف پروموشن کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں تو یہ سبھی ٹاپ ٹرینڈ بن کر بہت آگے نکل جاتے لیکن پاکستانیت بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
میں نے بہت کوشش کی کہ ریٹنگ اور ٹاپ ٹرینڈنگ سے جڑے واقعات اور ان کے ''پرچارکوں‘‘ سے دور ہی رہوں اور کئی دن تک لاتعلقی بھی اختیار کیے رکھی‘ لیکن قومی میڈیا پر ہو یا سوشل میڈیا پر اس بحث کو قومی مباحثہ بنانے والوں پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ کچھ دن کڑھنے اور اندر ہی اندر ملامت کرنے کے بعد اب نہیں رہا گیا اور انتہائی بوجھل دل اور منتشر خیالات کے ساتھ اس موضوع پر خود کو لکھنے پر آمادہ کیا۔ یہ ''تہذیبیے‘‘ کون سی تہذیب کی بات کرتے ہیں؟ کون سی اخلاقی اور سماجی قدروں کا چورن بیچ رہے ہیں۔ ٹک ٹاکر ٹاپ ٹرینڈ بننے کی خاطر کون سا گل نہیں کھلا رہے؟ گھر بیٹھے مشہور ہونے سے لے کر لمبا مال کمانے تک کون سا حربہ استعمال نہیں کر رہے؟ اخلاقی و سماجی قدروں سے بے نیاز یہ سبھی ٹک ٹاکیے اپنے خاندان سے لے کر پورے معاشرے تک کو کیسی کیسی آزمائش سے دوچار کررہے ہیں۔ ویڈیو ہِٹ ہونی چاہیے بس‘ منظر اخلاق باختہ ہو یا حواس باختہ‘ سب چلتا ہے۔ جہاں سب چلتا ہے تو پھر ایسے واقعات بھی رونما ہو ہی جاتے ہیں اور جب تہذیب ثانوی اور اقدار بے معنی ہو۔ ریٹنگ اور ٹرینڈنگ نصب العین بن جائے تو پھر مشہور ہونے کے لیے چھوٹی موٹی قربانیاں تو بنتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved