تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-08-2021

سرخیاں، متن،پنچم اور تازہ غزل

پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے
کی کوشش ناکام ہو گئی: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش ناکام ہو گئی‘‘ جبکہ ویسے بھی عیدِقربان کافی عرصہ پہلے گزر چکی ہے، علاوہ ازیں اگر پاکستانی عوام تین سال سے قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں تو اصولی طور پر اسی کو کافی سمجھنا چاہیے، اس لیے حکومت پوری طرح سے مطمئن ہے اور اس سلسلے میں مزید کسی کارروائی کی ضرورت نہیں سمجھتی کیونکہ انسانی تاریخ میں اتنی بڑی قربانی صحیح معنوں میں ایک ریکارڈ ہے جس کے ٹوٹنے کا کوئی خدشہ نہیں ہے اور یہ محاورہ بھی اسی تناظر میں وضع کیا گیا ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ آپ اگلے روز فلپائنی سفیر سے ملاقات اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جس کارکردگی پر منہ چھپانا چاہیے، حکومت
اس پر خوشیاں منا رہی ہے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''جس کارکردگی پر منہ چھپانا چاہیے، حکومت اس پر خوشیاں منا رہی ہے‘‘ اگرچہ ہماری کارکردگی اس سے ذرا مختلف تھی لیکن ہم نے اس پر واقعی منہ چھپا لیا تھا اور آج تک چھپائے ہوئے ہیں اور اگر احتسابی ادارے اتنا تردد نہ کرتے تو بھی سب کچھ ظاہر تھا کیونکہ سارا کچھ سب کے سامنے ہو رہا تھا اور خیال تھا کہ شاید کبھی اس کا حساب نہ دینا پڑے لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا چھپایا ہوا بھی دنیا بھر کی آنکھوں کے سامنے آ گیا؛ تاہم ہم نے اس کارکردگی پر خوشیاں نہیں منائی تھیں کیونکہ یہ کام اس قدر مزیدار تھا کہ اور کچھ کرنے کی فرصت اور ضرورت ہی نہیں تھی۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اتنی جلدی محل سے نکلا کہ بوٹ بھی نہ پہن سکا: اشرف غنی
سابق صدر افغانستان اشرف غنی نے کہا ہے کہ ''اتنی جلدی محل سے نکلا کہ بوٹ بھی نہ پہن سکا‘‘ حالانکہ میں نے اس مقصد کے لیے جاگرز بھی خرید رکھے تھے جو بھاگنے میں کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں، اور چپل بھی میں اس وقت پہنے ہوئے تھا ورنہ یہ فریضہ برہنہ پا ہی سر انجام دینا پڑتا، جبکہ ان چپلوں کو تاریخی حیثیت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ جب میری تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ان کا باقاعدہ ذکر ہوگا، اس لیے انہیں محفوظ رکھنے کی خاطر میں نے ابوظہبی پہنچتے ہی انہیں سرکاری مال خانے میں جمع کرا دیا تھا کیونکہ تاریخ کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہونا چاہیے کہ یہی ہمارا ثقافتی اثاثہ بھی ہے جسے ہمارے ساتھ ہی یاد بھی رکھا جائے گا۔ آپ اگلے روز ابوظہبی سے ایک وڈیو پیغام ارسال کر رہے تھے۔
مرکز اور پنجاب میں اِن ہائوس تبدیلی زیر غور نہیں: رانا ثناء
سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ''مرکز اور پنجاب میں ان ہائوس تبدیلی زیر غور نہیں‘‘ کیونکہ یہ پہلے ہی کافی سے زیادہ زیر غور رہ چکی ہے اور رہ رہ کر اس کے بارے بیانات بھی دیے جاتے رہے ہیں لیکن بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اِن ہائوس تبدیلی ووٹوں سے ہوگی جو تلاشِ بسیار کے باوجود دستیاب نہ ہو سکے جبکہ پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی بھی کوئی خاص امید نہیں تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس تبدیلی کا براہِ راست فائدہ ہمیں ہوگا حالانکہ یہ بھی ان کی خام خیالی ہی تھی کیونکہ کچھ عرصے سے ہمیں طرح طرح کے نقصانات ہی سے پالا پڑ رہا ہے اور کسی فائدے کی شکل تک دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں نجی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی تین سالوں میں نئے پاکستان
کی بنیاد بھی نہ رکھ سکی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی تین سالوں میں نئے پاکستان کی بنیاد بھی نہ رکھ سکی‘‘ حالانکہ بنیاد رکھنا کوئی مشکل کام نہ تھا اور صرف فیتہ ہی کاٹنا تھا لیکن یہ حکومت اتنا بھی نہ کر سکی، کاہلی اور غفلت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے، بلکہ اگر ہمیں کہا جاتا تو ہم یہ کام خوشی سے کر دیتے جبکہ ہمارے پاس کوئی خاص مصروفیت نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ میں روزانہ بیان دے کر ہی اپنے منصب اور فرض سے سبکدوش ہو جاتا ہوں اور اس میں بھی کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑتا کیونکہ حکومت مخالف بیانات خاصی تعداد میں تیار کرا کر رکھ لیے گئے ہیں جن میں سے روزانہ ایک جاری کر دیا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
پنچم
مقصود ثاقب کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونے والے اس ماہانہ رسالے کا یہ شمارہ اپریل تا جون 2021ء ہے جس کا سرورق فرانز مارک کی بنائی ہوئی ایک تصویر سے مزین ہے۔ آغاز میں نجم حسین سید کا انٹرویو ہے جو عذرا وقار نے لیا ہے۔ اس کے بعد سنت رام اداسی اور بلبیر سنگھ کی نظمیں ہیں۔ پھر جگجیت سنگھ آنند کی آپ بیتی کا پہلا حصہ ہے۔ اس کے بعد بلونت گارگی کے دو افسانے‘ جس کے بعد سیکرت کی یادداشتیں، بھائی ظفر کا افسانہ، عذرا وقار کی تحریر، احمد یوسف کی کہانی، کامریڈ رام چندر کی آپ بیتی کا آغاز، رومی فائزہ، راجہ صادق اللہ، فیاض باقر، عرفان اسلم اور تنویر قاضی کی نظمیں، کامریڈ رام چندر کا مضمون، رگھونند ہندل کی سیموئل جان سے ملاقات، ہما صفدر کا مضمون اور صفدر ڈوگر کی نظم، مختصر پیش لفظ ایڈیٹر کے قلم سے ہے۔ 177 صفحات پر مشتمل عمدہ پنجابی تحریروں کا یہ گلدستہ کسی سوغات سے کم نہیں ہے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
کبھی ملے بھی نہیں اور جدائی ہو گئی ہے
جو قید ہی نہ تھے ان کی رہائی ہو گئی ہے
ہمارا کام بھی پورا ہوا ہے، ان کا بھی
کہ ناز اٹھا لیے، فرمانروائی ہو گئی ہے
جو کی ہیں دور سب آلائشیں محبت کی
چمک اٹھا ہے یہ دل، کیا صفائی ہو گئی ہے
خدا جو ہم سے بہت خوش ہے آج کل، شاید
ہمارے ہاتھوں کسی کی بھلائی ہو گئی ہے
عجب تو یہ ہے کہ تھی ہی جہاں نہ گنجائش
وہیں کہیں پہ ہماری سمائی ہو گئی ہے
ملی ہے مفت میں خواب و خیال کی دولت
کہ ہاتھ بھی نہ ہلے، اور کمائی ہو گئی ہے
وہاں کسی کو بھی اس کا یقین نہیں آیا
جہاں جہاں بھی تری رونمائی ہو گئی ہے
اگرچہ تجھ سے بہت دور ہیں ابھی، لیکن
کچھ اپنے آپ تلک تو رسائی ہو گئی ہے
ستم تو یہ ہے کہ اچھائی بھی ہماری، ظفرؔ
ہماری اپنی نظر میں برائی ہو گئی ہے
آج کا مقطع
جو حلقہ زن ہوں زمانوں سے اپنے گرد‘ ظفرؔ
یہ میں نہیں ہوں مرا چار سُو دھڑکتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved