تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     21-08-2021

زہر، دانت اور بدلہ

جب امریکا پاکستان اور افغانوں کے ذریعے اپنی پراکسی جنگ سوویت یونین کے خلاف لڑ رہا تھا تو اس جنگ کے حق میں اس وقت ریمبو سیریز کی ایک بڑی ہالی ووڈ فلم بھی بنائی گئی جس میں اس وقت کے سب سے بڑے امریکی ہیرو 'سلویسٹر سٹالن‘ نے ایک جنگی ہیرو کے طور کام کیا تھا۔ اس فلم کا ایک کلپ اب وائرل ہورہا ہے جس میں ایک افغان امریکی ہیرو کو یہ بتا اور سمجھا رہا ہے کہ افغانستان تمام بڑی طاقتوں کے لیے ایک دلدل ثابت ہوا ہے، وہ کہتا ہے کہ قدیم فوجیں دعا مانگا کرتی تھیں کہ خدا انہیں تین چیزوں سے بچا کر رکھے، کوبرا کا زہر، چیتے کے دانت اور افغانوں کا بدلہ۔ پھر وہ ہیرو سے پوچھتا ہے کہ تم سمجھ گئے کہ اس کا کیا مطلب ہے تو جواباً امریکی ہیرو کہتا ہے کہ You Guys Don't take any shit (تم لوگ کسی کو اپنی بے عزتی نہیں کرنے دیتے)۔ یہ فلم امریکا نے افغانوں کی بہادری اور جنگجو صلاحیتوں کے اعتراف میں بنائی تھی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اس فلم میں ہیرو کو افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے پشاور شہر میں پھرتے دکھایا گیا‘ مطلب پاکستان کے کردار کا بھی اس میں اعتراف کیا گیا تھا۔ سرد جنگ میں پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا پاکستان اور افغانستان کے ساتھ کھڑی تھی۔ شاید یہی وہ غلط فہمی یا خوش فہمی تھی جو امریکا کو مروا گئی کہ سوویت یونین کی افغانستان میں شکست صرف امریکا کی مدد کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی تھی۔
افغانوں کی فتح اور امریکی شکست کے موقع پر انتہائی دلچسپ صورتِ حال بھارتی چینلز پر دیکھنے کو ملی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نیا محاورہ ترتیب دیا گیا ہے ''بیگانی لڑائی میں بھارت دیوانہ‘‘۔ بھارتی چینلز اور تجزیہ کار ایک بات تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ طالبان کی مدد اور ٹریننگ پاکستان کرتا رہا ہے‘ اگر اس بھارتی بیانیے کو تسلیم کر لیا جائے تو اس بات کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ پھر امریکا کے مقابلے میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ افغان جنگ میں امریکا کی واضح شکست پر مغرب سے دانہ‘ پانی اور مشروبِ مغرب میسر ہونے کی وجہ سے‘ پوری دنیا میں بیٹھے ''دیسی دانشور‘‘ اس پر براہِ راست تبصرہ کرنے کے بجائے ماضی کی طالبان حکومت کے انتہائی سخت اور غیر منطقی طرزِ حکومت کا رونا روتے نظر آتے ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں اتنی زیادہ جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے کہ موجودہ طالبان کے ضابطہ اخلاق اور طرزِ حکومت کے ابتدائی اعلانات کا بھی انتظار تک نہیں کیا۔ ان کو نہ صرف اب خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اسی چکر میں ان کی دانشوری کے ''کرایہ پر چڑھے ہونے‘‘ کا بچا کھچا پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ان کے نام نہاد تجزیوں، تبصروں اور پیش گوئیوں کے برعکس طالبان نے نہ صرف یہ کہ عام معافی کا اعلان کردیا بلکہ خواتین ڈاکٹروں اور صحافیوں سمیت دیگر شعبہ جات میں بھی خواتین کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ سرکاری چینل پر خواتین کو صرف سر پر دوپٹے کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے، سب سے بڑھ کر محرم الحرام میں تمام مذہبی آزادی دے کر تمام خدشات ہی دور کر دیے گئے۔ اس تناظر میں ششدر کردینے والی بات یہ ہے کہ کوئی شک نہیں کہ ماضی کی طالبان حکومت بہت حد تک جابر تھی مگر کیا امریکی حکمرانی میں نیٹو افواج کی آمد اور کارکردگی کسی بھی طور انسانی ضابطوں اور اخلاقیات کے تحت تھی؟ یہ وہی جنگ ہے جس کے نتیجے میں پاکستان براہِ راست زیرِ حملہ رہا بلکہ اگر جانی کے ساتھ مالی نقصان کو شامل کر لیا جائے تو پاکستان کا نقصان افغانستان سے زیادہ ہوا ہے۔ 80 ہزار سے زائد پاکستانی اس جنگ میں شہید ہوئے، سوا سو ارب ڈالر کا مالی نقصان پاکستان کے حصے میں آیا، کاروبار تباہ ہو گئے، لوگ ذہنی اذیت کاشکار ہوئے۔ ماہرین تو درکنار‘ عام آدمی کو اس بات کا خدشہ بھی لاحق ہوگیا تھا کہ پاکستان کسی بڑے سانحے کا شکار ہوسکتا ہے؛ تاہم پاکستان کے عسکری اداروں، پولیس اور سکیورٹی فورسز نے انتھک کاوشوں سے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی بلکہ ملک کا مستقبل بھی محفوظ بنایا۔ اس جنگ میں پاکستان کے عام عوام کی قربانیاں کسی طور بھی افغانستان سے کم نہیں ہیں۔
افغان جنگ میں امریکا کا نیٹو افواج سے بھی بڑا پارٹنر بھارت رہا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کی گئی چالیس صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان مخالف دہشت گردی کے لیے بھارت 87 ٹریننگ کیمپس چلا رہا ہے، ان میں سے 66 افغانستان اور 21 بھارت میں قائم ہیں۔ بھارت نے مالی طور پر قدرے مستحکم افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دی ہوئی ہے۔ افغان فوج کو تربیت بھی بھارت نے ہی دی، افغان فوج اور ایجنسیوں میں گہرے اثر و رسوخ کے باعث بھارت افغان سرزمین سے پاکستان مخالف کارروائیاں کرتا رہا‘ یہاں تک کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کے ہولناک واقعے کیلئے قصداً 16 دسمبر‘ سقوطِ ڈھاکہ کا دن چنا گیا۔ بھارت کی جانب سے بظاہر تاثر ایک سیکولر ملک ہونے کا دیا جاتا ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارت نے آزادی کے وقت اپنا قومی جانور شیر کو قرار دیا تھا مگر اندراگاندھی نے 1972ء میں اس کو بدل کر‘ پنڈتوں کے کہنے پر‘ چیتے کو قومی جانور کو قرار دیا۔ اب طالبان نے کابل پر 15 اگست کو کنٹرول حاصل کیا ہے تو بھارت شش و پنج کا شکار ہے کہ اس کی تاریخ پر غور کرے یا اس جنگ میں ہونے والی ہزیمت پر غور کرے۔ ایک بھارتی مبصر نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے کہ بھارت اپنی جس افغان پالیسی کو Strategic Patience قرار دے رہا تھا‘ اصل میں وہ Strategic Paralysis بن گئی ہے مطلب جس کو صبروتحمل کی حکمت عملی کہا جا رہا تھا وہ اب بھارت کی معذوری ثابت ہوئی ہے۔
اب ایک عام مگر اہم بات کا ذکر‘ معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا اب خاص طورپر طالبان اور پاکستان مخالف مہم جوئی کے حوالے سے ایک مشن میں مصروف ہو چکے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا پر خاص نظر رکھیں، بلا وجہ اپنے اداروں، حکومت یا شخصیات کے خلاف کوئی پوسٹ شیئر نہ کریں، اختلاف کریں‘ ضرور کریں مگر تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اس ضمن میں یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا پر اپنے ملک، نظریات اور کلچر کا دفاع کرنے والوں کو ہی سائبر فورس کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی بہت زیادہ ایکٹو ہیں۔ اس ضمن میں ایک ذاتی واقعہ بھی بیان کر دیتا ہوں کہ ایک یونیورسٹی نے چین، پاکستان، ایران اور ترکی کے حوالے سے ایک آن لائن کانفرنس کا انعقاد کیا، اس میں مجھ سمیت تقریباً ایک درجن شرکا تھے۔ جیسے ہی سیمینار شروع ہوا تو لنک ہیک کرکے شرکا سے چار گنا زیادہ بھارتی اس میں گھس گئے اور شور شرابہ، گالی گلوچ اور بیہودہ وڈیوزکی یلغار کر دی، مجبوراً یہ سیمینار روکنا پڑا اور آدھ گھنٹے کے بعد سکیورٹی اداروں کی مدد سے ایک نیا لنک بنا کر اس کانفرنس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ آج کل اس قسم کے حربوں سے سوشل میڈیا پر ایک جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس لیے اپنے حصے کا کردارادا کریں۔ آپ کسی سیاسی پارٹی کے حامی ہیں یا مخالف، کسی شخصیت کے ناقد ہیں یا شیدائی‘ یہ سب چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں‘ سب سے پہلے ایک مسلمان اور ایک پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ ہم نے بھارت کو افغانستان کی حد تک شکست دے دی ہے۔افغانستان کے حوالے سے ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ طالبان کی ایک نئی نسل ہے، انہوں نے بیس سال جنگ لڑی ہے اور اب ابتدا سے ہی ان میں نرمی اور بہترین انسانی رویے کی جھلک نظر آرہی ہے، ماضی کے برعکس ایران سے کوئی مخاصمت نظر نہیں آ رہی، اس بار ایران نے بھی کشادہ دلی سے طالبان کے حق میں بیان دیے ہیں اور امریکی افواج کے انخلا کو واضح طور پر شکست قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان کسی بھی سمندری راستے سے تجارت کیلئے ایران اور پاکستان پر ہی انحصار رکھتا ہے۔ ان کے علاوہ چین‘ تاجکستان‘ ازبکستان اور ترکمانستان کو ملا کر چھ ممالک افغانستان کے پڑوسی ہیں، ان میں سے ایران اور چین کے علاوہ پاکستان ہی وضح طور اس وقت افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن پورے خطے کی ترقی اور کامیابی کا ضامن ہے اور فی الوقت یہ منزل نظر آرہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved