تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     22-08-2021

سپر پاورز کے قبرستان میں

افغانستان سے امریکہ بہادر اور ان کے اتحادی واپس ہو رہے ہیں یا یہ کہیے کہ دُم دبا کر بھاگ رہے ہیں۔ فوجیوں کے ساتھ ساتھ ان کے مقامی معاونین کو بھی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن محفوظ انخلا کو ایک بڑا کارنامہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، اور اپنی قوم سے تھپکی کے طلب گار ہیں، لیکن ان کے مخالفین تو کیا حامی بھی نکتہ چیں ہیں، افغانستان میں امارت اسلامیہ کی بحالی ان سے ہضم نہیں ہو پا رہی۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق امریکہ نے افغان حکومت کے نو بلین ڈالر کے زر مبادلہ ذخائر کو منجمد کر دیا ہے، اور اعلان کیا ہے کہ ان میں سے ایک ڈالر تک بھی طالبان کی رسائی نہیں ہو گی۔ نیٹو ممالک کبھی اپنا سر پکڑتے ہیں، کبھی دوسروں کا۔ خواتین کے حقوق کی دہائی دی جا رہی ہے، انسانی حقوق کا رونا رویا جا رہا ہے کہ طالبان کے ہاتھوں ان کو خطرہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی جو درگت برسوں سے بنائی جا رہی ہے، اس پر ان عالی مرتبت رہنمائوں کی کبھی نظر نہیں گئی۔ وہاں لاکھوں افراد کو گھروں میں محصور کر کے مہینوں ہر طرح کی سہولت سے محروم رکھا گیا، اس پر بھی کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، لیکن افغان خواتین کے حوالے سے شورِ قیامت برپا ہے، حالانکہ کسی نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا، اور ان کے حقوق کا احترام کرنے کے اعلانات (طالبان کی طرف سے) مسلسل جاری ہیں۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں امن و امان قائم ہے۔ معمولاتِ زندگی بحال ہو رہے ہیں۔ کابل ایئر پورٹ کھلا ہے، امریکی فوجی وہاں موجود ہیں اور اپنے لوگوں کو گن گن کر واپس لے جا رہے ہیں۔ کسی نے جانے والوں کو نہیں روکا، آہستہ آہستہ خوف دور ہوتا جا رہا ہے۔ طالبان نے امارت اسلامی کی بحالی کا اعلان کر دیا ہے، انہیں جو کامیابی نصیب ہوئی، اور جس طرح افغان فوج ان کے سامنے ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی، اس نے ان کے اندازوں سے بھی پہلے انہیں کابل پہنچنے پر مجبور کر دیا ہے اور یوں دُنیا سوویت یونین کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پسپائی کا نظارہ دیکھ رہی ہے۔ افغانستان میں ایک اور سپر پاور کا ''مزار‘‘ تعمیر، یا یہ کہیے کہ وہاں موجود سپر پاورز کے قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ ہو چکا ہے۔ برطانیہ اور سوویت یونین کے حشر سے امریکہ بھی دوچار ہو چکا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بیس برس پہلے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی پاداش میں امارت اسلامیہ افغانستان پر چڑھائی کی تھی، اور اپنی مرضی کی حکومت وہاں لا بٹھائی تھی۔ دنیا کی اس طویل ترین جنگ میں ہر طرح کا اسلحہ استعمال کیا گیا، ہزاروں ارب ڈالر جھونکے گئے، کٹھ پتلی حکومت کی فوج کھڑی کرنے کے لیے بھی دن رات جتن کیے گئے۔ تین لاکھ کے قریب لوگوں کو وردیاں پہنا کر اور ہاتھوں میں بندوقیں تھما کر افغانستان کے مستقبل کو اپنے تئیں ''محفوظ‘‘ بنا دیا گیا۔ امریکی کٹھ پتلیوں کی حفاظت ان کی ذمہ داری تھی، لیکن دنیا نے یہ محیر العقول منظر دیکھا کہ سب سے بڑی سپر پاور کو بالآخر انہی کے ساتھ معاملہ کرنا پڑا، جن کو اس نے بزعم خود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار سے نکال باہر کیا تھا۔ صدر جارج بش نے جس ''جارحیت‘‘ کا آغاز کیا تھا، صدر اوبامہ اور ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوتے ہوئے وہ جو بائیڈن کے سر پڑی، اور انہوں نے یہ بوجھ اتار پھینکا۔
طالبان نے عام معافی کا اعلان کر کے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ وہ خون کے دریا بہا دیں گے، وہ انگشت بدنداں ہیں۔ فتح مکہ اور (صلاح الدین ایوبی کی) فتح فلسطین کے بعد مورخ کی آنکھ نے تیسری بار پُر امن انقلاب کا نظارہ کیا ہے۔ غالب آنے والوں نے اپنے مخالفین بندوقوں کی باڑ کے سامنے کھڑے کئے ہیں، نہ انہیں پھانسیوں پر لٹکایا ہے، نہ ''گلوٹین‘‘ کیا ہے، نہ ان پر جیلوں کے دروازے کھولے ہیں۔ سب کا سب کیا دھرا بُھلا دیا ہے، انہیں معاف کر دیا ہے، اور آگے بڑھنے کی دعوت دی ہے۔
ابھی تک کسی حکومتی ڈھانچے کا اعلان نہیں ہوا۔ طالبان کے اپنے مخالفین سے صلاح مشورے جاری ہیں۔ ہر طرف سے وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے کے مشورے دیے جا رہے ہیں۔ پاکستان سے بھی یہ آوازیں تسلسل سے اٹھ رہی ہیں۔ شمالی اتحاد کے کئی رہنما یہاں آ کر اپنے نقطہ نظر کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان جیسا ماحول اپنے ملک میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں کہ جہاں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتیں آزادانہ کام کر رہی ہیں، کسی کو کسی سے جان کی امان درکار نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہزار خامیوں اور خرابیوں کے باوجود پاکستان کا دستوری ڈھانچہ اپنے لوگوں کی حفاظت کر رہا ہے۔ حصولِ اقتدار کے لیے ووٹ کی طاقت کو تسلیم کر کے اس نے معاشرے میں ٹھہرائو پیدا کر دیا ہے، یا یہ کہیے کہ اسے استحکام بخش رکھا ہے، لیکن افغانستان، پاکستان کا ہمسایہ ہونے کے باوجود پاکستان نہیں ہے، اس کے تاریخی تجربات اور سماجی ڈھانچہ اپنا ہے۔ یہاں بندوق کی طاقت اپنے آپ کو آزماتی اور منواتی رہی ہے، اور گزشتہ چالیس سال میں تو یہاں کے لوگوں کو دو سپر پاورز سے پنجہ آزمائی کرنا پڑی ہے۔ پہلے سوویت فوجوں نے اسے تاراج کیا، تو بعد ازاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہاں ہتھیار آزمائی کی۔ اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے والے افغانوں نے ہار نہ مان کر اپنی جیت کا سامان کیا ہے۔ انہیں افغان مجاہدین کہا جائے یا طالبان کے نام سے پہچانا جائے، مزاحمت انہوں نے جاری رکھی ہے، اور اپنے معاملات کو غیروں کے ہاتھ میں دینے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔
گزشتہ بیس سال کے دوران افغانستان کے جن عناصر نے حملہ آور فوجوں کا ساتھ دیا، ان کی سرپرستی میں حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا، اور ان کے ساتھ مل کر اپنے آپ کو دوام بخشنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ان سب کے حصے میں ناکامی آئی ہے۔ وہ طالبان سے فتح کے بعد وہ منوانا چاہتے ہیں، جو غیر ملکی فوجوں کی موجودگی میں نہیں منوا پائے۔ یہ درست ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام باقی رکھنے کے لیے تمام عناصر کو شراکت کا احساس دلانا چاہئے، ایسا دستوری نظام وضع ہونا چاہئے، جس میں سب اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں، کسی کو بھی بندوق اٹھانے کی ضرورت یا جسارت نہ ہو، لیکن اس کے لیے ''شکست خوردہ عناصر‘‘ کو بھی قناعت کا مظاہرہ کرنا ہو گا، جو کچھ جنگ کے میدان میں حاصل نہیں کیا جا سکا، وہ جنگ ہارنے کے بعد کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے، جو وہ امریکہ کی بے پناہ طاقت کے ذریعے حاصل نہیں کر پائے، وہ پاکستان جیسے (نسبتاً) کہیں کمزور ملک کے ذریعے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ وسیع البنیاد حکومت کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ جیتنے والے سے اُس کی جیت چھین لی جائے۔ اس کے مزاج، نفسیات، نظریات کو پیش نظر رکھ کر ہی آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔ طالبان سے جہاں وسیع القلبی کا تقاضہ درست ہے، وہاں جنگ ہارنے والے ''ویٹو‘‘ حاصل نہیں کر سکتے، ان کا ترکش خالی ہے، وہ سارے تیر آزما چکے، اس لیے اب وہ صبر اور حوصلے سے کام لیں۔ صبر اور حوصلہ طالبان کے لیے بھی بہت کارآمد ہیں کہ فاتح کا قد انہی کے ذریعے اونچا ہوتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved