تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     22-08-2021

امریکی جہاز سے گرنے والے

چار؟ صرف چار؟ ارے چار نہیں تھے بھئی۔ سینکڑوں یا ہزاروں بھی نہیں، لاکھوں کروڑوں تھے۔ صرف افغان نہیں تھے، پاکستانی بھی تھے، عرب بھی تھے، ہندوستانیوں کی تو بہت بڑی تعداد تھی۔ ہر قوم کے لوگ تھے جو امریکی جہاز سے گرے۔ کچھ پروں پر سوار تھے کچھ چھت پر بیٹھے اور لیٹے ہوئے تھے۔ کچھ انجنوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ کچھ کو کہیں جگہ نہ ملی تو پہیوں سے لٹک گئے۔ جہاز سپر پاور کا تھا، بہت بڑا، سو تعداد بھی بہت بڑی تھی۔
کچھ لوگ جہاز پر نہ چڑھ سکے۔ وہ رن وے پر دوڑتے جہاز کے ساتھ بھاگ رہے تھے۔ جتنا قریب ممکن تھا اتنا قریب۔ ان بھاگنے والوں کے نزدیک وہ سب قابل رشک تھے جو جہاز کے کسی حصے سے چمٹے ہوئے تھے‘ اور جو لوگ بہت دور تھے اور جہاز تک پہنچ نہ سکے تھے وہ جہاز کے ساتھ ساتھ بھاگنے والوں کو رشک سے دیکھ رہے تھے۔ سوچ رہے تھے‘ کیا نصیب ہے ان کا کہ وہ جہاز کے قریب ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ بھی جہاز سے لٹک جائیں۔ ہوسکتا ہے یہ بھی اس جنت میں پہنچ جائیں جس کے گیت ہم 20 سال گاتے رہے، جس کی روٹی ہم 20 سال کھاتے رہے۔
عام میڈیا اور سوشل میڈیا کے تمام ذریعوں کو مغالطہ ہے کہ امریکی جہاز سے لپٹنے اور گرنے والے صرف چار تھے اور صرف افغانی تھے۔ میں کیا، آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ لاکھوں کروڑوں میں تھے۔ 2001 میں جب یہی جہاز کابل میں اترا تھا تو اس سے برآمد ہونے والوں نے اعلان کیا تھا کہ ہم یہاں دہشتگردوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے آئے ہیں۔ ہم یہاں عورتوں‘ بچوں کو آزادی دلانے آئے ہیں۔ ہم اس پسماندہ ملک کی تقدیر بدلنے آئے ہیں۔ ہم اس کی تعمیروترقی کے لیے آئے ہیں۔ ہم ملاؤں کو اس ملک کے کوہ و دمن سے نکالنے آئے ہیں۔ ہم اس ملک میں انصاف بانٹنے آئے ہیں۔ ہم اس ملک...
حملہ آوروں کی تعداد بہت سہی، لیکن انہیں پھر بھی بہت لوگ درکار تھے۔ لوگ بھی ایک طرح کے نہیں دو تین قسم کے۔ حملہ آور بوریوں میں پیسے بھرکر جہازوں میں لائے تھے۔ مالدار ترین ملکوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئیے تھے۔ ان بوریوں کے منہ کھلے تو لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ لپکنے والے دور دور سے لپک لپک کرآئے۔ بنجر ٹیلوں والی وادیوں میں اترنے والے گورے سپاہیوں کو نہ مقامی زبان آتی تھی نہ مقامی تہذیب کا پتہ تھا، نہ علاقوں کا۔ اس لیے انہیں مقامیوں کی سخت ضرورت تھی۔ مترجمین، سہولت کار، ٹھیکے دار، سپلائرز، نچلے اور متوسط درجے کے ملازمین، گائیڈز۔ یہ سب عملی ضرورت کے لوگ تھے۔ ان کی بھرتیاں اور تقرریاں شروع ہوگئیں۔ پیسے ملنے شروع ہوئے تو اگلے گروہوں کی زبانیں بھی لٹکنا شروع ہوگئیں۔ یہ زیادہ تعلیم یافتہ اور اہم لوگ تھے۔ وہ لوگ جو دنیا کو حملہ آوروں کی برتری پر قائل کرسکیں۔ جوان کے عزائم کے لیے پالیسیاں بنا سکیں۔ ان کی راہ میں مزاحم لوگوں کو کچل سکیں۔ بڑے لوگ اور بڑے اہم لوگ۔ صرف افغانستان میں نہیں پاکستان میں بھی جو ذیلی ہدف تھا۔ صرف ان دونوں ملکوں میں نہیں پوری دنیا میں۔ جو اپنی اپنی جگہ رہ کر قابضین کے رعب کی تشہیر کریں۔ ان کے نظریے کی پاکیزگی ثابت کریں اور یہ بتائیں کہ یہ انسانی حقوق کے کتنے بڑے علمبردار ہیں۔ کتنے انصاف پسند ہیں۔ جو اس انصاف میں مزاحم ہو، اسے کچل کر رکھ دیں۔ منہ بھرنے شروع ہوئے تو ہاتھ اور زبانیں بھی چلنے شروع ہوگئیں۔ سب جت گئے۔ حملہ آوروں کی فتوحات کی تاریخ۔ موجود اسلحے کی دہشت انگیز تفصیلات۔ جدید ترین ٹیکنالوجی۔ ان کی روزمرہ کی کارروائیاں۔ چن چن کر مارے جانے والوں کی ویڈیوز‘ تصاویر‘ حسب حکم کام بھرپور طریقے سے شروع ہوچکا تھا۔
سب سے اہم گروہ کی بھرتی ابھی باقی تھی۔ وہ لوگ جو ان کے لیے جان دے سکیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ حملہ بھی گورے کریں اور جانیں بھی وہی دیں۔ مجبوری کے معاملات الگ سہی لیکن جانیں تو اسی مٹی کے لوگوں کو اسی مٹی پر دینی چاہئیں۔ اپنے ہم وطنوں کو مارتے اور مرتے ہوئے۔ تنومند نوجوانوں کی بھرتی شروع ہوئی۔ ساڑھے تین لاکھ منتخب کیے گئے۔ ہر ایک کو ہزاروں ڈالر تنخواہ دی گئی۔ بہترین یونیفارم، جدید ترین اسلحہ، بیش قیمت آلات اور اعلیٰ ترین گاڑیاں دی گئیں۔ بہترین ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز، ڈرون سپرد کئے گئے۔ بہترین تربیت کرنے والے بلوائے گئے۔ ہندوستان کو افغانستان کی پسماندگی کا غم کھائے جارہا تھا لہٰذا تعمیر، ترقی اور تربیت کا کام اس نے بھی سنبھال لیا۔ زمینی اور فضائی کارروائیوں کی تربیت دی گئی۔ نوجوانوں کو بتایا گیا کہ انہیں اپنے ہم وطنوں کو کیسے مارنا چاہیے اور انہیں مارنے کے کتنے فائدے ہیں۔ ساڑھے تین لاکھ کی فوج تیار ہوگئی جن کی جانیں گوری چمڑی کی نسبت ارزاں تھیں۔ وہ آگے رہ کر گولی مارنے اور گولی کھانے کے لیے تھے۔ سو مارنے والے بھی افغان، مرنے والے بھی افغان۔ جو بے گناہ سویلین مررہے تھے وہ بھی افغان۔
واٹسن انسٹی ٹیوٹ، براؤن یونیورسٹی کے ایک تخمینے کے مطابق جو بی بی سی نے 16اگست کو شائع کیا، 2,41,000 لوگ اس بیس سالہ جنگ میں مارے گئے تھے۔ ان میں 69,000 افغان فوجی تھے۔ لگ بھگ 51000 بیگناہ سویلین افغان تھے‘ اور 51000 کے قریب طالبان تھے‘ یعنی دونوں طرف مرنے والے افغانوں کی کل تعداد 1,71,000 کے لگ بھگ رہی۔ میں ان میں نہ زخمیوں اور اپاہج ہونے والوں کی تعداد شامل کررہا ہوں، نہ جنگ کے نتیجے میں مصیبتوں کا شکار ہوکر مرنے والے شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں اتحادیوں کے مرنے والے فوجیوں کی کل تعداد 3502 ہے‘ جن میں امریکن فوجی 2448 تھے۔ امریکن کنٹریکٹرز جو مرے ان کی تعداد فوجیوں سے زیادہ یعنی 3846 تھی۔ 444 ورکرز اور 72 صحافی موت کا شکار ہوئے اور یہ موتیں تقسیم کرنے کے لیے دو کھرب چھبیس ارب ڈالرز جھونکے گئے۔ 2.26 ٹریلین ڈالرز۔
پونے دو لاکھ افغانوں کے مقابلے میں 7348 گورے۔ اب آپ کو پتہ چلا کہ انصاف کیا ہوتا ہے اور کس طرح برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے؟ ایک سوال یہ بنتا ہے کہ اگر طالبان کی کل تعداد تھی ہی 60 ہزار کے لگ بھگ‘ اور ان میں سے 51000 کے لگ بھگ مارے گئے تو باقی 9 ہزار نے پورے ملک پر قبضہ کیسے کرلیا؟ ہے نا ہنسنے کی بات‘ لیکن سوال تو اور بھی بہت سے بنتے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ حملہ آوروں کے اس نقصان کے اعدادوشمار کس حد تک قابل یقین ہیں؟ انسانی تاریخ کی اتنی بڑی جنگی مشین جو کبھی دیکھی نہیں گئی، ایسی جدید ترین ٹیکنالوجی اور ایسی منظم ترین افواج کے ساتھ ہار کیسے گئی؟ اور ہار بھی ایسی کہ منہ چھپائے نہ بنے۔ جیسے کوئی لنگوٹی چھوڑ کر فرار ہوتا ہے۔
16اگست کو سپرپاور امریکہ کے جہاز نے فرار کیلئے ان لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ کر اڑان بھری جو اس کے مترجمین، سہولت کار، ٹھیکیدار، سپلائرز، نچلے اور متوسط درجے کے ملازمین، گائیڈز تھے۔ جن کے ہاتھوں میں اس کے سرٹیفکیٹس تھے اور وہ مسلسل وہ وعدے دہرا رہے تھے جو امریکہ نے ان سے کئے تھے کہ ہم تمہیں ساتھ لے کر جائیں گے۔ ہم تمہیں اپنی نیشنلٹی دیں گے۔ ہم تمہیں طالبان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔ ان چلانے والوں کو معلوم نہیں تھاکہ ایسے حملہ آور وقت نکل جانے کے بعد کسی کے نہیں ہوتے۔ ان کے وعدے ان کے ساتھ ہی اڑان بھرجاتے ہیں۔ جیسے ویت نامی سہولت کاروں کے ساتھ ہوا تھا۔ جیسے دنیا میں اور امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ہوا تھا۔ یہی ان کا انصاف، یہی طریقہ ہے۔
امریکی طیارہ فرار کی اڑان بھرکر بلندی پر پہنچا تو بہت سی لاشیں زمین پر آگریں۔ لاکھوں نہیں کروڑوں۔ یہ مغالطہ ہے کہ وہ صرف چار افغان تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved