جس نے خود کو اپنے لیے نہیں‘ کسی بڑے مقصد کے لیے وقف ہونے کا تہیہ کیا‘ وہ اقبالؔ کے قول کا پابند ہوتا ہے۔ فرمایا ؎
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی
یہی قول اور یہی بات چیانوالی سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے بوٹا سنگھ اپل(جو مولانا عبیداللہ سندھی کے نام سے مشہور ہوئے ) کے لیے سچ ثابت ہوتی ہے۔
جو فقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
مولانا عبیداللہ سندھی واحد پنجابی ہیں جو اس لقب سے مشہور ہوئے۔ سندھی تو انہوں نے نام کے ساتھ لگا لیا مگر ان کی ساری خوبیاں اسلاف والی تھیں جو مسلم قومیت پر یقین رکھتے تھے اور سندھی یا پنجابی ہونا جہاں باعثِ فخر نہیں‘ ایک مسلم ہونا زیادہ فخر کی بات ہے۔
بوٹا سنگھ اپل سکھ گھرانے میں پیدا تو ہو گیا مگر اس کی بیوہ ماں نہیں جانتی تھی کہ اس بچے کے اندر کی آگ کسی سچے مذہب کے پانیوں سے بجھنی ہے اور اسے گھر بار ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ اسے علم تھا کہ اس کے خاوند نے بھی مذہب تبدیل کیا تھا‘ اس بچے کے جینز میں تجسس اور سچ کی تلاش ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے نام سے مشہور ہونے والا بچہ رام سنگھ ولد جسپت رائے کے گھر پیدا ہوا۔ نانا کی ترغیب پر آپ کے والد رام سنگھ سکھ ہوئے‘ قیاس اغلب ہے کہ ان کے دادا جسپت رائے ہندو مذہب کے تھے۔ ماں کو علم نہیں تھا کہ زرگر کے بیٹے اور ذاتی زندگی اکیلے میں گزارنے والے بوٹا سنگھ نے ڈاکٹر طہٰ حسین اور محمد حسین ہیکل کے لیکچر سننے ہیں۔ الازھر میں دورانِ تعلیم پتا چلنا ہے کوئی جبہ و دستار میں ہو تو شیخ‘ اور جبہ و دستار اتر جائے تو آفندی۔ اس کے بیٹے نے ترکی، افغانستان، روس، مصر اور حجازِ مقدس میں زندگی کسی بڑے مقصد کے لیے گزارنی ہے۔ کہاں چیانوالی سیالکوٹ (بوٹا سنگھ اپل کا گائوں) اور کہاں کابل اور سردار حبیب اللہ کے ساتھ مختلف امور پر گفت و شنید ہی نہیں اسے مشاورت میں مدد بھی دینا۔ کہاں بوٹا سنگھ اور کہاں شیخ الہند محمود الحسن کی محبت سے بھرپور شاگردی۔
مولانا عبیداللہ سندھی کو ہماری تاریخ کے ایک پُراسرار کردار کے طور پر پینٹ کیا گیا ہے اور ان کی اصل شخصیت کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ عبیداللہ سندھی نہیں تھے خالص پنجابی تھے۔ ضلع سیالکوٹ کے ایک گائوں چیانوالی میں ایک سکھ گھرانے میں اپنے باپ کے انتقال کے چار ماہ بعد پیدا ہوئے۔ جام پور ان کے ماموں تھے‘ وہ پٹواری تھے۔ وہ اپنی بیوہ بہن اور اس کے یتیم بچوں کو اپنے پاس لے گئے۔ وہیں ان کے اندر ایک مدرسے سے ایک روشنی پھوٹی اور سب کچھ چھوڑ کر بوٹا سنگھ اپل سندھ کی جانب چل پڑا۔ جہاں تاریخ اس بچے کا ایک نیا کردار تخلیق کرنے جا رہی تھی۔ اس وقت اس بچے کی عمر سولہ برس تھی۔ راستے میں اس بچے کے ذہن میں کیا کیا خیال آ رہے تھے‘ سب سے بڑا اپنی ماں کی جدائی کا معاملہ تھا۔ جو راستہ اس بچے نے چن لیا تھا وہ اسے اپنے گھر والوں سے، ماں سے اور بہنوں سے ہمیشہ کے لیے الگ کرنے والا تھا۔ وہ زندگی میں جب بھی ماں کا ذکر کرتے تو آبدیدہ ہو جاتے۔
انہوں نے بلا کا دماغ اور حافظہ پایا تھا‘ کہتے تھے کہ میں نے سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ چار دن میں پڑھ لی تھیں اور سراجی محض دو گھنٹوں میں ختم کی۔ ایسا عالی دماغ ہندوستان کی مسلم سیاست کے لیے بھی شاندار خدمات انجام دے سکتا تھا مگر انہوں پین اسلام ازم کو مقدم جانا۔ تاریخ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ 1870ء کی دہائی مسلم تاریخِ بر صغیر پاک و ہند میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس دہے میں بہت سارے بڑے مسلم زعما اور رہنما پیدا ہوئے جنہوں نے پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا یا انہوں نے مسلم قومیت کے لیے کام کیا۔ یوں وہ زمین تیار کی جو اگلے تیس‘ چالیس سالوں میں ہندوستان کی سیاست میں بالعموم اور مسلم سیاست میں بالخصوص ایک انقلاب لے آئی۔ یہ لوگ عظیم رہنما ثابت ہوئے۔ اس میں سب سے اہم نام خود قائد اعظم محمد علی جناح کا ہے جو 1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ اسی طرح علامہ محمد اقبال 1877ء، مولانا شوکت علی جوہر ‘مولانا ظفر علی خان اور شیرِ بنگال فضل حق 1873 ء، سر آغا خان سوم 1877ء، مولانا محمد علی جوہر 1878ء۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی اسی دہائی میں‘ 1872ء میں اس جہانِ آب و گل میں آنکھ کھولی۔ مسلم تشخص اور پین اسلام ازم کی تحریک چلانے والے بھی یہی‘ خلافت موومنٹ کے دوران قربانیاں دینے والے بھی یہی اور پاکستان بنانے والے بھی یہی رہنما تھے۔ تحریک ِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران 1946ء کے نتیجہ خیز الیکشن میں پنجاب سے فیروز خان نون، ممتاز دولتانہ، سردار سکندر حیات، افتخار حسین ممدوٹ، میاں افتخار الدین اور عمر حیات ملک انتخاب جیت کر نمایاں ہوئے۔ افتخار حسین ممدوٹ فیروزپور بھارت کے رہنے والے تھے۔ الیکشن جیت کر پاکستان تشریف لائے۔ میاں افتخار الدین لاہور کے رہنے والے تھے۔ برطانیہ سے پڑھے ہوے تھے کٹر کانگریسی تھے۔ انہوں نے ہی کشمیر کے شیخ عبداللہ کو جواہر لعل نہرو سے متعارف کروایا تھا۔ یہی نہیں‘ انہوں نے قرارداد ِ پاکستان کی مخالفت بھی کی تھی۔
میاں افتخار الدین 1945ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کمیونسٹ دوست لیڈر کے کہنے پر ہی انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت حاصل کی تھی۔ قائد کی نظر میں یہاں ایسی قیادت میسر نہیں تھی جس کی وجہ سے انہوں نے براہ ِ راست طلبہ کے ساتھ تعلق قائم کیا۔ پنجاب کے ساتھ ساتھ سرحد (خیبر پختونخوا) میں بھی باچا خان کے اثر کو زائل کرنے کے لیے انہوں نے وہاں طلبہ کو اپنا رفیقِ کار بنایا۔ مولانا عبیداللہ کا خاندانی پس منظر بھی ایسا نہیں تھا کہ وہ سیاست میں براہِ راست حصہ لیتے۔ انہوں نے مسلم تشخص اور تشخص کی تڑپ عوام میں پیدا کی۔ میاں افتخار الدین ہمارا موضوع نہیں مگر جب وہ کشمیر کے معاملے کے لیے شیخ عبداللہ کو قائد اعظم سے ملوانے کے لیے لائے تو قائد نے ان سے ملاقات کرنے سے انکار دیا۔ قائد کو پنجاب میں عبیداللہ سندھی جیسے ذہن درکار تھے۔ ایک دنیا مولانا کی ژرف نگاہی کی قائل ہے۔ حجازِ مقدس میں بارہ سالہ طویل قیام کے بعد جب واپس ہندوستان آنے کا قصد کیا تو انہوں نے ایسی باتیں کیں جن سے صاف پتا چلتا تھا کہ کوئی مسلم ریاست کن خطوط پر چل کر کامیاب ہو سکتی ہے۔ 1936ء میں حجاز سے آپ کی واپسی کی کوشش انڈین نیشنل کانگریس نے ہی کی تھی مگر انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ کانگریس کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔ احیائے اسلام کے لیے وقف آدمی نے کانگریس کو جان لیا تھا۔ مولانا نے اس وقت یہ بھی کہا تھا کہ اسلام کا مستقبل بہت روشن ہے مگر اس کا ڈھانچہ تبدیل ہو جائے گا۔ یہ حقیقت مسلمان جتنی جلد جان لیں‘ بہتر ہے۔
عوام تک ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں صحیح معلومات نہ ہونے کی بنا پر انہیں کچھ رنج بھی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لاہور کے اخبارات میرے متعلق محبت آمیز مقالات شائع کرتے ہیں۔ ان کا میں دل سے احترام کرتا ہوں مگر میرے خاندان‘ ابتدائی تعلیمات کے بارے میں ایسی فاش غلطیاں ہیں کہ میں بدون شرم محسوس کیے بغیر پڑھ نہیں سکتا۔ اس لیے تصحیح کے چند واقعات لکھنے پر مجبور ہوں۔ سندھی کی نسبت ہی ان کا سابقہ بن گئی کہ وہیں سے اصل سفر شروع کیا تھا۔ انتقال سے قبل وہ بھارت کے انتہائی جنوب تامل ناڈو کے شہر کمبوکانام میں تھے کہ آخری سفر پر روانگی ہونا تھی۔ کہاں تامل ناڈو کا شہر اور کہاں رحیم یار خان کا دورافتادہ گائوں‘ جو خانپور کٹورہ کے قریب دین پور تھا۔ کہا جاتا ہے وہ اپنی بیٹی کے پاس آ گئے‘ وہیں مرض الموت کے آثار ظاہر ہوئے۔ ان کی ذاتی ڈائری میں درج ہے کہ ان کی شادی مولوی محمد عظیم خان یوسفزئی کی صاحبزادی سے ہوئی۔ اکیس اگست 1944 ء مولانا کا یومِ وفات ہے۔
ایسے سفر میں ہی وہ منزل آ جاتی ہے جب آدمی نہ پنجابی نہ سندھی‘ نہ لاہوری نہ پشاوری‘ نہ ترک نہ ہندی‘ نہ بنگالی نہ پٹھان رہتا ہے۔ بلھا استغراق کی جانب ہو جاتا ہے اور عبیداللہ سندھی عمل کا راہی۔
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی