تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     24-08-2021

غمزدہ مینارِ پاکستان

یوم آزادی 14 اگست کو مینارِ پاکستان پر ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے ساتھ جو شرمناک واقعہ پیش آیا تھا اس پر طرح طرح کی رنگ برنگی بحثیں جاری ہیں۔ کوئی اس واقعے کی آڑ میں اپنی اقدار کو کوس رہا ہے‘ کوئی بقراط خواتین کے گھروں تک مقید ہونے کو اس کا سبب بتا رہا ہے‘ کوئی ہمارے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان حائل ''دیوارِ چین‘‘ کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے اور کوئی جنسی بھوک میں اس ہولناک جرم کے نفسیاتی عوارض کا تجزیہ کر رہا ہے۔ یقینا حادثہ یا سانحہ دفعتاً نہیں ہوتا ۔تاہم یوم آزادی کو جو کچھ ہوا‘ وہ انتہائی شرمناک‘ افسوسناک اور ناقابل یقین ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔مظلوم عائشہ اکرم نے اس سانحہ کے بارے میں وڈیو پر جو کچھ کہا اسے سننے کا یارا تھا اور نہ اسے دہرانے کا حوصلہ۔ ذرا سوچئے کہ یہ واقعہ کسی گائوں یا قصبے کے کسی سنسان گلی کوچے میں نہیں‘ زندہ دلانِ لاہور کے شہر میں واقع مینارِ پاکستان پر دن کے پانچ بجے یوم آزادی کے روز ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں پیش آیا۔ مختلف وڈیوز اور عائشہ اکرم کے بیان کے مطابق سینکڑوں نوجوان کہ جن کی کم از کم تعداد 400 ہوگی وہ اس کے ساتھ بدتمیزی کرتے رہے‘ اس کے لباس کو تار تار کرتے رہے‘ اسے ہوا میں اچھالتے رہے‘ بنت ِحوا کی اس بے حرمتی سے وہ حظ اٹھاتے رہے۔ کیا اس روز سارے زندہ دلانِ لاہور ''مردہ دلانِ لاہور‘‘ ہو گئے تھے؟
اسی روز موٹر سائیکل رکشے میں خاتون سے کھلے عام دست درازی کی ویڈیو نے دیکھنے والوں کو رُلا دیا۔ اس ویڈیو کے مطابق لاہور کے رش والے علاقے میں رکشے میں موجود دو خواتین اور ایک بچی پر پہلے موٹر سائیکل سوار اوباش نوجوان آوازے کستے رہے اور پھر ایک بے حیا دوڑ کر رکشے کی پچھلی سیٹ کے پائیدان پر چڑھ گیا اور اس نے دست درازی کی کوشش کی۔ اس پر دونوں خواتین نے جوتے اتار لیے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج سے چند برس قبل انہی گلیوں محلوں سے خواتین گزرتیں تو جوان انہیں کنکھیوں سے تو شاید دیکھتے ہوں مگر بظاہر ادھر اُدھر دائیں بائیں چھٹ جاتے تھے اور بے ہودگی کی تو کسی کو جرأت ہی نہ ہوتی کیونکہ اس وقت تک ان روایتی آبادیوں میں بزرگوں کی ڈانٹ ڈپٹ سے نوجوان خوفزدہ رہتے تھے۔ مگر اب کیا ہوا ہے کہ چھوٹے بڑے سب اِلّا ماشاء اللہ ایسی بے ہودگی اور غنڈہ گردی سے لاتعلق ہو گئے ہیں۔
یقینا نوجوانوں کی بے ہودگی اور معاشرے کی عمومی بے حسی کے اَن گنت اسباب ہیں اور اُن کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئے مگر میں آپ کے سامنے اس واقعے کا سب سے بنیادی سبب پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اگر اس سبب کا سدباب کر لیا جاتا تو یقینا یہ واقعہ اوّل تو پیش ہی نہ آتا اور اگر خدانخواستہ یہ رونما ہو بھی جاتا تو محض چند منٹوں کے شوروغوغا سے آگے نہ بڑھتا۔ کیا یوم آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی ہے؟ کیا اس روز عام پولیس‘ ٹریفک پولیس‘ ڈولفن پولیس‘ خفیہ پولیس سب کو چھٹی پر بھیج دیا جاتا ہے؟ ڈیڑھ دو ہزار مجمع والا کوئی سیاسی جلسہ ہو تو اس کے لیے ہر طرح کے سکیورٹی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ لیکن اب تو کچھ مدت سے یوں لگتا ہے کہ پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص پولیس لا اینڈ آرڈر کی طرف کماحقہٗ توجہ نہیں دے رہی۔ یہ تو بھلا ہو کہ جب کوئی وڈیو سامنے آتی ہے تو وزیراعلیٰ کے دفتر سے ایک بنا بنایا‘ ڈھلا ڈھلایا بیان سامنے آتا ہے کہ مجرموں کو گرفتار کرنے کے لیے ہم آخری حد تک جائیں گے۔ یہ کیسی گورننس ہے کہ ایک عام ایف آئی آر اُس وقت تک درج نہیں ہوتی جب تک کہ کسی دلدوز واقعے کی وڈیو پہلے سوشل اور پھر مین سٹریم میڈیا سکرینوں پر دکھا نہیں دی جاتی۔
ہر ''قتل‘‘ کے بعد یہاں جفا سے توبہ کرنے کا اور مجرموں کو ''سبق سکھانے‘‘ کا ایک رواج بھی موجود ہے۔ 20 اگست جمعۃ المبارک کے روز وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر قانون راجہ بشارت‘ آئی جی پولیس اور کئی دیگر متعلقہ افسران بھی موجود تھے۔ اجلاس میں یہ حقیقت میٹنگ کے شرکا کے لیے باعثِ خفت تھی کہ مینارِ پاکستان پر متعلقہ مظلوم لڑکی کے ساتھ بے ہودگی کا آغاز تقریباً 5 بجے شام دن کی روشنی میں ہوا۔ میٹنگ میں بیان کردہ حقائق کے مطابق یہ بدسلوکی چار گھنٹے تک جاری رہی۔ عائشہ اکرم کے ساتھیوں کی طرف سے پولیس کو 15 پر پہلی کال پانچ بجکر اٹھائیس منٹ پر وصول ہوئی تھی۔ میٹنگ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ اس کال کے بعد تین مزید کالیں کی گئیں مگر مدد کے لیے پکارنے والوں کی ہر صدا‘ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ میٹنگ میں پولیس کی مجرمانہ غفلت کا اقرار کیا گیا اور اسی لیے وزیراعلیٰ پنجاب نے کئی سینئر پولیس افسران کو ان کی پوسٹوں سے ہٹا دیا اور کئی جونیئر پولیس ذمہ داران کو ملازمت سے معطل کر دیا ہے۔
لاہور کی شرمناک موٹرسائیکل رکشہ وڈیو کے بعد اتوار کے اخبارات میں ایک اور نہایت دل دہلانے والی وڈیو کی خبر شائع ہوئی ہے۔ اس خبر کے مطابق ٹانڈہ کے بازار میں بااثر خاندانوں کے سات افراد نے موٹر سائیکل رکشے میں سوار دو بہنوں کا کار اور موٹر سائیکلوں پر پیچھا کیا۔ اُن خواتین کے ساتھ فحش حرکات کے علاوہ ایک کی انگلی کو بھی نوچ ڈالا۔ ان وڈیوز کے آئینے میں پولیس اپنی انتہائی ناقص کارکردگی اور حکومت اپنی گورننس کی بدحالی دیکھ سکتی ہے۔ ایسی وڈیوز اور روزمرہ شائع ہونے والی خبروں سے یوں لگتا ہے کہ جیسے جنسی ہوس اور ذہنی افلاس کے مارے یہ نوجوان بھوکے بھیڑیوں کی طرح سڑکوں پر شکار کی تلاش میں دندناتے پھرتے ہیں۔ انہیں کسی پولیس یا قانون کا کوئی ڈر نہیں۔ جن ملکوں میں قانون کی عملداری ہو وہاں ہر کوئی قانون سے ڈرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور یورپ وغیرہ میں کوئی اس طرح کی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ادھر اُن کے دل میں اس طرح کا کوئی خیال آئے گا تو اُدھر قانون کا خوفناک کوڑا اُن کے سروں پر لہرانے لگے گا۔
29 مئی 1985ء کو برسلز کے ہیسل سٹیڈیم میں فٹ بال کے یورپین کپ کا فائنل شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے اٹلی کے کلبوں اور برطانیہ کی لیورپول کلب کے حمایتیوں اور تماشائیوں کے مابین تصادم ہوگیا جس میں 39 افراد ہلاک اور 600 شدید زخمی ہوئے۔ اس موقعے پر اُس وقت کی برٹش وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے کہا کہ برطانوی تماشائیوں اور کھلاڑیوں کا طرزِعمل میرے لیے ندامت کا باعث ہوا ہے۔ یہ سوچ کر میرا سر شرم سے جھک گیا کہ ہم اندر سے کتنے وحشی اور درندہ صفت ہیں۔ اس موقع پر مارگریٹ تھیچر نے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کے لیے کئی پروگرام وضع کرنے کا اعلان بھی کیا تھا؛ تاہم ہمارے ملک پاکستان میں حکمرانوں یا سیاستدانوں کی طرف سے ایسی بداخلاقی کا سدباب کرنے کے لیے کوئی تکلف نہیں کیا جاتا۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اخلاقی بحران ہے مگر معمارانِ قوم اس طرف معمولی سی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں۔
ممتاز ادیب اور بیوروکریٹ جناب مختار مسعود نے بحیثیت کمشنر لاہور مینارِ پاکستان تعمیر کروایا تھا۔ جناب مختار مسعود نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''آوازِ دوست‘‘ میں اپنی روحانی و جذباتی کیفیت اور تحریک آزادی کی کہانی کو ایک ایسے اسلوبِ نگارش سے بیان کیا ہے جس نے اُن کی کتاب کو لازوال بنا دیا ہے۔ ''آوازِ دوست‘‘ کا ایک شاہکار ''مینارِ پاکستان‘‘ کے نام سے لکھا گیا طویل مضمون ہے۔ مینارِ پاکستان کا پیغام کیا ہے؟ یہ صرف دو سطروں میں مختار مسعود کی زبانی سنیئے کیونکہ کالم کی تنگ دامانی اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔''مینارِ پاکستان نظریاتی دفاع کی ضرورت‘ تحریک آزادی کی علامت‘ دین کی سرفرازی کا گواہ اور ہماری تاریخ کا ایک نشانِ خیر ہے‘‘۔ 14 اگست کے واقعے پر ہم شرمندہ و افسردہ ہوں یا نہ ہوں مگر اپنے زیر سایہ پیش آنے والے اس شرمناک سانحے پر مینارِ پاکستان بہت غمزدہ ہے‘ بہت افسردہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved