تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     24-08-2021

مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ

چند روز قبل الیکٹرانک میڈیا کی سکرینوں پر ملک کے کروڑوں نہیں تو لاکھوں لوگوں نے ایک شخص کو لاہور کے قلعے میں نصب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے گھوڑے پرسوار مجسمے کو ہتھوڑے سے توڑ کر نیچے گرانے کی فوٹیج دیکھی۔ پنجاب کے اس سکھ رہنما کے مجسمے کو نقصان پہنچانے کی پچھلے چند ماہ میں یہ دوسری کوشش تھی۔ بہت سے حلقوں کی طرف سے اس حرکت پر مذمت کی گئی ہے۔ ان میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیمار ذہنیت کی علامت ہے۔ یہ محض اتفاق ہے یا کچھ اور کہ یہ واقعہ افغانستان میں طالبان کے کابل پر قبضے کے دوسرے دن پیش آیا۔ طالبان سے اس واقعہ کی نسبت بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ستمبر 1996 میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کرکے تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود کو پنج شیروادی کی طرف پسپا ہونے پر مجبورکر دیا تھا تو راقم الحروف ایک ریسرچ پروجیکٹ کے سلسلے میں پشاور میں موجود تھا۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے اگلے دن پشاورسے چھپنے والے ایک اخبار میں خبر چھپی کہ کچھ شرپسندوں نے پشاور کی الیکٹرانک مارکیٹ پر دھاوا بول دیا اور وہاں پڑی ہوئی چیزوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی‘ مگر دکانداروں نے اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ کیا اور انہیں مار بھگایا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کی ہائی کمانڈ نے تو طالبان کے فتح کا جشن منانے کی مخالفت کر دی ہے‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاکستانی ویری اینٹ سے صبر نہیں ہو پا رہا اور انہوں نے اپنے طریقے سے افغانستان میں اوریجنل طالبان کی فتح کا پاکستان میں جشن منانے کا فیصلہ کر لیا اور ایک جری ا ور قابل مگر غیر مسلم حکمران کے مجسمے کو نقصان پہنچا کر اس کی ابتدا کی۔ یاد رہے کہ طالبان نے بھی اپنے دور میں بامیان کے مہاتما بدھ کے چودہ سو سال پرانے مجسمے کو گولیوں کا نشانہ بنا کر پاش پاش کردیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ جس شخص نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کو گھوڑے سے گرایا ہے‘ اس کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے ہے۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی پر موصوف کی طرف سے ایک ہدیہ تبریک ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے درست کہا ہے کہ یہ فعل بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور حکومت پنجاب کا یہ بیان بھی خوش آئند ہے کہ مجسمے کو دوبارہ اپنی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا‘ لیکن معاونِ خصوصی اور حکومت پنجاب سے کہنا یہ ہے کہ اگر بچوں کو اپنی دھرتی کی اصل داستان یعنی تاریخی حقائق سے بے خبر رکھا گیا اور اصل ہیروز کی جگہ نقلی یا جعلی ہیروز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تو نہ صرف اس ذہنیت کے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے بلکہ اس قسم کے واقعات کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔ آج لاہور کے شاہی قلعے میں نصب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا ہے تو کل پاکستان کے عجائب گھروں میں مہاتما بدھ کے مجسموں کی بھی باری آ سکتی ہے۔ اس کے بعد گندھارا‘ ہڑپہ اور موہنجوڈارو تہذیبوں کی نمائندہ تصویروں اور مجسموں اور یادگاروں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایسا سب کچھ عراق اور شام میں ہو چکا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنوبی ایشیا خصوصاً اس کا وہ حصہ جو پاکستان کہلاتا ہے‘ مشرقِ وسطیٰ کے حالات سے بہت جلد متاثر ہوتا رہا ہے۔ اس ذہنیت کے پیدا ہونے کا اصل سبب حکمران طبقے کی طرف سے اپنی نسلوں کو جان بوجھ کر وطن کی تاریخ کے اصل حقائق سے بے خبر رکھنا ہے تاکہ کورے ذہنوں پر نقلی ہیروز کی تصاویر کو چسپاں کیا جا سکے۔ پنجاب کی پانچ ہزار سال سے زائد ریکارڈ شدہ تاریخ کے جن حصوں کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں جگہ نہیں دی گئی ان میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا طویل دور بھی شامل ہے۔ پنجاب کے لئے ان کی خدمات اور خصوصاً شمال مغرب کی طرف سے دریائے سندھ سے دریائے بیاس تک پنجاب کو بیرونی حملہ آوروں کی لوٹ مار سے ہمیشہ کیلئے محفوظ کرنے کے کارنامے پنجاب کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لاہور کے تخت پر بیٹھنے سے پہلے اس عظیم تاریخی شہر کے ساتھ ساتھ پورا پنجاب لا قانونیت اورعدم تحفظ کا شکار تھا۔ مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور ہر طرف مسلح جتھوں کا دوردورہ تھا۔کہنے کو پنجاب ابھی تک مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا لیکن اصل طاقت سکھوں کے مختلف گروہوں‘ جنہیں مثل کہا جاتا تھا‘ کے ہاتھ میں تھی۔ لاہور پر قبضے کیلئے ان سکھ مثلوں کے درمیان مسلسل کشمکش سے لاہور کا امن و امان ‘ کاروبار اورسکون تباہ ہو رہا تھا۔ اس انارکی سے نجات حاصل کرنے کیلئے لاہور سے مسلمان زعما کا ایک وفد خود گوجرانوالہ گیا جہاں سکھوں کی بھنگی مثل کا نوعمر سربراہ رنجیت سنگھ قیام پذیر تھا‘ اور لاہور کی چابیاں اس کے حوالے کیں تاکہ وہ شہر کا انتظام و انصرام سنبھال کر عام لوگوں کو آئے دن کی لوٹ مار سے نجات دلا سکے۔لاہور پر قبضہ مستحکم کرنے کے بعد رنجیت سنگھ نے سکھوں کی تمام مثلوں کو متحدکرکے ایک مضبوط حکومت قائم کی اور زیرِ کنٹرول علاقوں میں مکمل امن و امان قائم کیا۔
1815 میں واٹر لو کے مقام پر جب یورپ کی متحدہ فوج کے ہاتھوں نپولین کو شکست ہوئی تو اس کی جدید فنون حرب میں ماہر انتہائی تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوج تتربتر ہو گئی۔ اس فوج کے کچھ آفیسر بھاگ کر پنجاب میں رنجیت سنگھ کے دربارمیں ملازمت کیلئے حاضر ہوئے۔ رنجیت سنگھ نے انہیں فوراً اپنی فوج کو جدید خطوط پر تربیت دینے کے لئے رکھ لیا۔ ان فرانسیسی افسروں کی تربیت سے اور رنجیت سنگھ کی جنرل شپ میں خالصہ (سکھ آرمی) اتنی طاقتور ہو گئی کہ رنجیت سنگھ کی وفات(1839 ) کے دس سال بعد تک انگریزوں‘ جو اس اثنا میں تمام ہندوستان ‘ سندھ اور بلوچستان پر قابض ہو کر افغانستان اور ایران کی سرحدوں تک پہنچ چکے تھے‘ کو پنجاب کی طرف سے رخ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ رنجیت سنگھ کے جانشینوں میں اقتدار کی رسہ کشی اور سکھ سرداروں کی آپس میں ریشہ دوانیوں کی وجہ سے جب سکھ ریاست میں کمزوری کے آثار نمایاں ہونے لگے تو انگریزوں نے پنجاب کو فتح کرنے کیلئے پیش قدمی شروع کر دی۔ اس کے باوجود انگریزوں کو اس قدر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر رنجیت سنگھ کی فوج کا مشہور جرنیل گلاب سنگھ سکھوں کا ساتھ چھوڑکر انگریزوں سے نہ مل جاتا تو پنجاب اتنی جلدی انگریزوں کے ہاتھ نہ آتا، رنجیت سنگھ سے پہلے پنجاب اور پنجاب میں رہنے والوں ‘ جن میں نہ صرف شہر کے باسی بلکہ کھیتوں میں کام کرنے والے کسان بھی تھے‘ کو درپیش سب سے سنگین مسئلہ ہرسال فصلوں کی کٹائی کے بعد سندھ عبورکرکے افغانوں کے لشکروں کا حملہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جونہی فصلپک کر تیار ہوتی اورپنجاب کے کسان تھریشنگ سے فارغ ہوتے تو عین اسی موقع پر یہ حملہ آور کھلیانوں سے یہ جنس اٹھا لیتے۔ اگر کوئی کسان اپنی سال بھر کی کمائی گھر لے جانے میں کامیاب بھی ہو جاتا تو حملہ آور گھر گھر تلاشی لینے کے بعد پنجابیوں ہی کے گھوڑوں اور بیلوں پر جنس لاد کر دریائے سندھ کے پار اپنے علاقوں میں لے جاتے۔ یہ عمل ہرسال دہرایا جاتا کیونکہ انہیں روکنے والی کوئی مضبوط حکومت نہ تھی۔ رنجیت سنگھ نے اپنے قابل جرنیل ہری سنگھ نلوا کی مدد سے دریائے سندھ کے پار جمرود تک تمام افغان علاقے‘ جو اب پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں‘ کو مستقل طور پر سکھ سلطنت میں شامل کر کے درہ خیبر کے راستے پنجاب کے میدانوں پر حملہ آور ہونے والوں کا پہلی دفعہ اور ہمیشہ کیلئے راستہ روک دیا۔ رنجیت سنگھ نے شمال میں کشمیر‘ مغرب میں کوہ ہندوکش‘ جنوب میں ملتان اورمشرق میں دریائے بیاس تک ایک ایسی سلطنت پر حکومت کی جس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی‘مگر اس نے سکھوں‘مسلمانوں یا ہندوئوں کے ساتھ انصاف پر مبنی سلوک کیا۔ اس نے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر پنجاب میں ایک ایسی مضبوط سٹیٹ قائم کی کہ اس کے جیتے جی انگریزوں کو پنجاب کا رخ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved