تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     24-08-2021

سقوط ِکابل اورخطے کا مستقبل!

افغانستان میں اِس وقت وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی خاطر افغان دھڑوں میں جاری رسہ کشی میں ہی امریکیوں کو اپنی شکست کی خجالت چھپانے کی امید دکھائی دے رہی ہے۔ لاریب دنیا کی واحد سپر پاور کو جنگی ہزیمت کے مضمرات کم کرنے کی خاطر کابل میں ایسی ہی خانہ جنگی کی ضرورت ہے جیسی1988ء میں روسی افواج کے انخلا کے بعد یہاں شروع ہوئی تھی اور جس نے چشم زدن میں افغان مجاہدین کی دس سالوں پہ محیط طویل جدوجہد کو رائیگاں بنا دیا تھا۔ حیرت انگیز طور پہ حالات کے دھارے کا طالبان کے حق میں مڑ جانا امریکی توقعات کے منافی تھا اور یہ سب کچھ اشرف غنی حکومت کے باعث ہی ممکن ہوا۔ امر واقعہ یہی ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے امریکی اِسی پلاننگ کے ساتھ بتدریج اپنی فوجی قوت کو کابل میں مرتکزکرکے طالبان کو پیشقدمی کا موقع دیتے رہے کہ آخرکار دمشق کی طرح کابل میں قلعہ بند ہو کر طالبان کے خلاف طویل مزاحمت کی جائے گی لیکن اشرف غنی نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اقتدار سے الگ ہو کر اس لاحاصل جنگ کے امکانات کو معدوم بنا دیا، شاید اسی لیے واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن نے افغانستان کے فوجی اور سیاسی رہنماؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''ان دونوں میں لڑنے کی خواہش کا فقدان ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اشرف غنی نے امریکا کو ان وعدوں کے ساتھ گمراہ کیا جو پورے نہیں کئے گئے۔
اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ امریکی مقتدرہ افغانستان چھوڑنے سے قبل یہاں افغانوں کے مابین ایسی سول وارکی منصوبہ بندی کر چکی تھی جس کے شعلے پڑوسی مملکتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ امریکیوں کے انہی عزائم کو بھانپ کر جہاں ملحقہ ممالک نے اپنا کردار ادا کیا‘ وہاں افغان قیادت نے بھی تشدد کی آگ بھڑکانے سے گریز کرکے خطے کی فضائوں پہ منڈلاتی خانہ جنگی کی کالی گھٹاؤں کو ٹالنے کا فرض خوب نبھایا؛ تاہم اب بھی مغربی تہذیب کے ذہنی غلاموں نے افغانستان کی سول سوسائٹی کو اپنے ہم وطنوں کے خلاف صف آرا دیکھنے کی خاطر تباہ حال افغانوں کو اشتعال دلانے کی قبیح مہم چھوڑی نہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے علاوہ انڈین اور ہمارے میڈیا کے بھی مخصوص حلقے اُن افغانوں کو سماجی آزادیوں اور جمہوری حقوق کے حصول کا سبق پڑھانا چاہتے ہیں جنہوں نے کم و بیش چالیس سال روسی اور امریکی حملہ آوروں کی غلامی میں گزار دیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غلامی کے دن قوموں کی آدھی مردانگی چھین لیتے ہیں، غلامی چاہے کتنی ہی منصفانہ کیوں نہ ہو‘ روح کیلئے پنجرے کی حیثیت رکھتی ہے۔
گزشتہ بیس سالوں کے دوران امریکیوں نے اپنے خطرناک اور جانبدارانہ اصولوں کے تحت افغانستان میں جس نوع کے مصنوعی جمہوری عمل کی داغ بیل ڈالی، وہ سماج کی روح میں جگہ نہیں بنا سکا، وہ چاہتے تو افغانستان کے معاشرتی دھارے کو مقامی ثقافت کے فطری خطوط پر استوار کر سکتے تھے لیکن انہوں نے افغانستان کی سنگلاخ زمین میں مغرب کی افسردہ کن تہذیب کی آبیاری کی کوشش میں اُس قبائلی بندوبست کو توڑ دیا جس نے ایک مسلح سوسائٹی میں طاقت کا توازن قائم کر رکھا تھا۔ امریکی نفسیات کو جاننے والے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکا سمیت مغربی طاقتوں کی پالیسی ہمیشہ دو نکات کے محور میں گھومتی ہے، اول یہ کہ اسلام کی پرانی توقیر کی بحالی کو روکا جائے۔ دوسرا، دنیا کے وسائل پہ مطلق تصرف حاصل کیا جائے۔ جلد یا بادیر‘ دنیا اس حقیقت کو قبول کر لے گی کہ افغانستان کی مٹی سے ابھرنے والے طالبان گروہوں کے سوا کوئی بھی افغانستان میں عسکری تشدد اور باہمی جنگ و جدل کے امکانات کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ خود مغربی میڈیا کہہ رہا ہے کہ سویڈن کے بعد یہ افغانستان ہی ہے جہاں پچھلے پندرہ دنوں میں کرائم ریٹ صفر رہا۔ لاریب! یہ طالبان کی بالادستی کا نفسیاتی اثر تھا جس نے جرائم کے علاوہ انارکی اور مہیب شورش کی لہروں کو روک دیا۔ شمالی افغانستان کے روایتی وار لارڈز سمیت سیکولر طرزِ حکومت کے حامی سیاستدان بھی قومی شعور کے باعث مل کر اُن داخلی بحرانوں پہ قابو پانے پہ متفق ہیں جو اُن کی اگلی نسلوں کے مستقبل کو تاریک بنا سکتے ہیں۔
افغانستان سے امریکی پسپائی کے نفسیاتی اثرات نے جہاں جنوبی ایشیا کی تزویراتی حرکیات کو بدل دیا ہے، وہاں اسی تغیر سے مغربی تہذیب کی روح بھی گھائل ہوئی ہے۔ سقوطِ کابل کے بعد بڑی طاقتیں ایسے مخمصے میں مبتلا دکھائی دیتی ہیں جس سے نجات کیلئے انہیں عالمی بالادستی سے دستبرداری یا پھر کسی بڑی جنگ کی تیاری کرنا پڑے گی۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ دونوں صورتوں میں تباہی ان کا استقبال کرے گی۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں 1938ء کے میونخ معاہدے پر ونسٹن چرچل کے ان تاریخی الفاظ کی گونج سنائی دے رہی ہے جس میں انہوں نے برطانوی وزیراعظم نیول چیمبرلین سے کہا تھا ''تمہیں جنگ یا بے عزتی میں انتخاب کا آپشن دیا گیا، تم نے بے عزتی کو چن لیا مگر پھر تمہیں جنگ بھی لڑنا پڑی‘‘۔ یہ عین ممکن ہے کہ جس طرح میونخ امن معاہدے کے بعد برطانیہ کو دوسری عالمی جنگ میں اترنا پڑا تھا‘ بالکل اسی طرح دوحہ کے امن معاہدے کے بعد دنیا میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کی خاطر امریکی مقتدرہ کو ایک نئی جنگ کی منصوبہ بندی کرنا پڑے۔ اس وقت مغربی اشرافیہ نے بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی کے بحران کو امریکی ساکھ کیلئے تباہ کن دھچکا قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں جوبائیڈن کے پاس افغانستان کے دلدل سے نکلنے کیلئے تین امکانات موجود تھے۔ وہ امریکا کو اس طویل ترین جنگ سے باوقار اور منظم طریقے سے نکالتے۔ ایسی حکمت عملی اپنائی جاتی جو افغانستان میں طالبان کی فتح کے باوجود امریکی قوت اور عالمی سطح پر اس کے وقار کو متاثر نہ کرتی۔ امریکی شہری چونکہ افغان جنگ سے نجات کیلئے بے چین تھے، اس لیے اس ناپسندیدہ انخلا پہ ووٹرز زیادہ ردعمل ظاہر نہ کرتے لیکن صدر جوبائیڈن ایسا کچھ کرنے میں سراسر ناکام رہے۔ اگرچہ صدر نے اپنی تقریر میں فوجی انخلا کے فیصلے کا سختی سے دفاع کرتے ہوئے اس امرکی نشاندہی کرنا ضروری سمجھی کہ انہیں یقین ہے کہ وہ نہ صرف مملکت کو اپنے مقام پہ برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ یہ انخلا امریکی ساکھ کو کمزور کرنے کے بجائے مزید بہتر بنائے گا۔ اس میں کوئی شبہ باقی نہیں کہ اس پسپائی نے عالمی معاملات بالخصوص جنوبی ایشیا اورمشرقِ وسطیٰ پہ امریکی گرفت کمزور کر دی ہے۔ بہت جلد مشرق کی ابھرتی ہوئی مملکتیں نئے عہد سے ہم آغوش ہو کر مغرب کی عالمی بالادستی کو پیچھے دھکیل دیں گی لیکن صدر بائیڈن کا ماننا ہے کہ دور افتادہ ملک میں لڑی جانے والی ایسی غیر دلچسپ جنگ کا خاتمہ بحث کے قابل نہیں، لیکن ایک ہی وقت میں افغانستان میں مضبوط حکومت اور منظم فوج بنانے میں ناکامی کے بعد اپنے نقصانات کو کم کرنا ہی حقیقت پسندی اور دانشمندی کا مظہر سمجھا جائے گا اور یہ جنگ ویتنام کی مانند امریکا کی تاریخ کو داغدار ضرور بنائے گی۔ انخلا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے کہ امریکا مشرقی ایشیا میں بنیادی خطرات پر توجہ مرکوز رکھنے کی خاطر افغانستان کے وار تھیٹر میں اپنی تلویث کم کرے۔ امریکی حکومت دنیا کے اس دور دراز خطے میں کبھی نہ تھمنے والی جنگ کو جاری رکھنے کیلئے عسکری وسائل اور سیاسی ساکھ کی صورت میں بھاری قیمت کیوں چکائے؟ کیا روس اور چین دونوں کیلئے افغان عسکری گروپ امریکا سے زیادہ بڑا اور براہِ راست خطرہ نہیں ہیں؟ حیرت انگیزطور پر یہ ایک ایسی جنگ تھی جسے شروع ہی میں بے حد مقبول بنایا گیا اس لیے امریکی عوام کی نظروں میں یہ اہمیت اختیار کر گئی؛ تاہم جب ابتدائی جوش و خروش ختم ہوا تو عوام کی دلچسپی بھی کم ہو گئی۔خاص طور پر جب عراق میں نیا ایڈونچر شروع ہوا تو دنیا نے افغان جنگ کو فراموش کر دیا۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سترفیصد امریکی جنگ سے نکلنے کے حامی تھے، جیسا کہ خارجہ پالیسی کے سکالر سٹیفن بڈل نے حال ہی میں مشاہدہ کیا کہ جنگ عملی طور پر امریکی سیاست میں ایک بعد کی سوچ ہے؛ تاہم صدر اوباما، صدر ٹرمپ اور صدر بائیڈن‘ سب اسی لعنت سے بچنے کی خاطرافغان جنگ سے نکلنے سے پہلو بچاتے رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved