کراچی سے تعلق رکھنے والی صحافت کی طالبہ ام کلثوم نے ای میل بھیجی ہے‘ جس میں اس نے لاہور میں ہونے والی ایک ثقافتی تقریب کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ پاکستانی فیشن ماڈلز نے ایسے بے باک کپڑے زیب تن کررکھے تھے کہ لاہور ،شانزے لیزے سے دو چار قدم آگے دکھائی دیا۔ 90ء کی دہائی کا آغاز تھا۔بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی اپنے جیون ساتھی اورممبئی سے آئے ہمارے دوست جاوید اختر کے ساتھ لاہورمیں تھیں۔دونوں میرے ایک پروگرام میں سوالات کے جواب دے رہے تھے۔مجھے آج بھی یاد ہے میرے ایک سوال پر شبانہ اعظمی نے مجھے male chauvinism )مردوں کا احساس برتری) کا نمائندہ ہونے کا طعنہ یوںدیاتھا ’’آپ ! ہم عورتوں پر اپنی مرضی ٹھونسنا چاہتے ہیںجو انسانی حقوق کے خلاف ہے‘‘۔ شبانہ اعظمی سے سوال یہ تھاکہ آپ بھارتی عورتوںکے حقوق کی علمبر دار ہیں، عورتوں کے حقوق کی خاطر آپ اکثر بھوک ہڑتال بھی کرتی ہیں،بالی وڈ میں عورت (ہیروئن) کو بالکل بے پردہ کر دیا گیا ہے، بھارتی فلموں میںعورت کے کردار کوصرف ایک ’’جنسی پراڈکٹ‘‘ بنا کررکھ دیاگیاہے۔آپ بالی وڈ کی ان ’’مظلوم عورتوں ‘‘ کے خلاف ہونے والے اس ’’ظلم‘‘ کے خلا ف آواز بلند کیوں نہیںکرتیں؟شبانہ اعظمی کا جوابی طعنہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں۔ شبانہ اعظمی نے میرے سوال کے جواب میں میری اچھی خاصی ’’کلاس ‘‘ لی تھی۔اس لمحے مجھے محسوس ہواتھاکہ میں ابھی ’’ہاف بوائلڈ پروگریسو‘‘ ہوں۔بطور اداکارہ میں شبانہ اعظمی کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن پاکستان کے پروگریسو دوستوں اور کامریڈز کا کہنا ہے کہ شبانہ اصلی کامریڈ نہیں ہیں۔ وہ ایک عرصہ سے سیاسی اور نظریاتی طور پر ’’کمرشل آنٹی‘‘ بن چکی ہیں۔ اُم کلثوم نے کئی ایک دوسرے سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ فیشن کی تعریف کیاہے،کیافیشن کلچر کے تابع ہوناچاہیے اوریہ بھی کہ آخر ہمارا کلچر ہے کیا؟کلچر کا تعلق دھرتی سے ہوتا ہے یا پھر ضروریات زندگی کی طرح کلچر بھی کوئی امپورٹیڈ ’’پراڈکٹ‘‘ ہوتی ہے۔ علم الانسان کے طلبہ کہتے ہیںکہ ہر وہ کام جو بنی نوع انسان نے بہ حیثیت انسان سرانجام دیا‘ تہذیب یاکلچر کے ضمن میں آجاتا ہے۔دوسری طرف ابن خلدون اور سپنگلر نے تمدن کو شہری زندگی تک محدود کردیاہے۔بعض اہل علم نے تہذیب اورتمدن کے معانی میں تفریق کرتے ہوئے کہاہے کہ تمدن انسان کی خارجی ترقی کانام ہے جبکہ تہذیب سے مراد اس کا داخلی یا ذہنی ارتقا ہے۔ تاریخ ،روایات اورعمرانیات کو سائنسی اصولوںسے پرکھنے والے علی عباس جلالپوری نے لکھا ہے کہ ان کے خیال میں جس طرح علم ذہن اورمادے کے باہمی عمل وردعمل کی مربوط وبامعنی صورت ہے۔اسی طرح تمدن بھی انسان کے خارجی ماحول اور اسکے ذہن کے باہمی عمل وردعمل ہی کی ایک تخلیقی شکل ہے۔چنانچہ اس نے تمدن کی ترکیب کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کیاہے یعنی اس میں تہذیب بھی مشمول ہے۔زرعی انقلاب کے ساتھ جب انسان نے فصلیں اگانے کا راز دریافت کر لیاتو شکار کی تلاش میں مارے، مارے پھرنے کے بجائے وہ دریائوں کے کناروں پر کھیتی با ڑی کرنے لگا۔بستیاں بسا کررہنے لگااور پھران بستیوں میں بستے بستے ایک دوسرے کے دلوں میں بسنے لگا۔یہی وہ مرحلہ تھاجب وہ وحشت کے دور سے نکل کر تمدن کے دور میں داخل ہوگیا۔متمدن زندگی کا آغاز ہوئے کم وبیش 10ہزار سال گذر چکے ہیں۔ اگرچہ دس ہزار سال کا یہ عر صہ انسانی تاریخ میں بڑاطویل دکھائی دیتاہے مگر کائنات کا ظہور جو کروڑوں سال پہلے ہواتھا اس میں اسکی حیثیت ایک لمحے سے بھی کم ہے۔ کارخانہ قدرت میں اگرچہ 10ہزار سال کا عرصہ کوئی معنی نہیںرکھتا لیکن اسی ’’ قلیل فرصت ‘‘ میںانسان نے شاندار کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔کلچر اورتہذیب کے الفاظ 18ویں صدی سے پہلے اس مفہوم میں مستعمل نہیں تھے جیسے یہ آج ہیں۔شائستگی ،تہذیب اورکلچر صرف رئوسااورامراء طبقے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور ان پر صاحب ثروت طبقات کی اجارہ داری تھی۔عوام کا اس سے کوئی عمل دخل نہیںہوتاتھا۔ فیض صاحب نے کہاتھاکہ تہذیب کو اگر فکر کی تیز دھار سے تقسیم کریں تو اس کے دو واضح حصے بنتے ہیں ۔ایک حصہ وہ ہے جس سے ہمارے رسم ورواج ،رہن سہن کے طریقے ، ہمارے عقائداوران عقائدپربغیر کسی ذہنی کاوش یا روک ٹوک عمل کرناسب کلچر ہے۔ ہمارا لباس، ہماری زبان،ہمارے کھانے پینے کے طریقے، ہماری نشست و برخاست، ہمارے بزرگوں اورچھوٹوں سے پیش آنے کے سلیقے جسے آداب ِ مجلس بھی کہاجاسکتا ہے سب شامل ہیں۔کلچر کے دائرہ میں شعوری اورغیر شعوری رسوم اوراقدار شامل ہوتی ہیں۔ عقائد اور مذہب انسان کا سلسلہ اورمعاملہ ہوتا ہے۔دنیا کی کثیر آبادی کو تین انقلا بات نے متاثر کیا۔ جن میں اول صنعتی انقلاب، دوم انقلاب ِ فرانس ،سوم انقلاب ِ روس شامل تھا۔ پاکستان کا قومی تشخص اورکلچر کیاہے؟ تشخص کے لئے قوم کا ہونا لازمی ہے اس کے بغیر یہ تصور ممکن نہیں ہوپاتا۔تہذیب یا کلچر کوئی آئسولیٹ(تجریدی)چیز نہیںہے۔ہمارا ملک پاکستان ہے تو ہمارا قومی تشخص،تہذیب اورکلچر پاکستانی ہی ہوگا۔پاکستان میں بسنے والے ہررنگ ،نسل اورمذہب کے لوگ پاکستانی ہیں۔ارض پاک پر بسنے والے تمام لوگ پاکستانی ہیں۔ ان میں کی جانے والی تقسیم نہ صرف حقائق کے خلاف ہوگی بلکہ انسانی اورمعاشرتی اخلاق کے منافی ہوگی۔یہ احساس بھی ذہن میں رہناچاہیے اگرچہ پاکستان 1947ء میں معرض وجود میں آیا،لیکن اس خطہ میں انسانی زندگی اوراس کی تہذیب وتمدن کی تاریخ 5ہزار سال پرپھیلی ہوئی ہے۔ لہٰذا اس نسبت سے ہم اس ملک کو نوزائیدہ نہیںکہہ سکتے۔ ہمارے ہاں کلچر کا پھڈا بھارت دشمنی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔بعض زعماء پاکستان کی تاریخ کا آغاز 1947ء سے کرتے ہیں اورپھر ایک ا یسے کلچر کو تراشنے کی ضد کرتے ہیںجس کا اس خطہ سے ہٹ کر وجود ممکن ہی نہیںہے۔کلچر اور قوم بننے کے لئے تین زاویے اہم ہو تے ہیں۔اول اس کا طول یعنی تاریخ۔دوم اس کا عرض جس سے مراد اس کا محل وقوع لیاجاتاہے ۔اسے بہ الفاظ دیگر ملک کی حدود اوراس کاجغرافیہ بھی کہاجاتاہے۔سوئم اس کی گہرائی یعنی اس ملک میں کن لوگوںکا کلچر ہے اوراس کی رسائی کہاں تک ہے۔کلچر کا تعلق کسی خطہ میں آباد انسانوں کے انفرادی اوراجتماعی رہن سہن ،رسم ورواج ،روایات اور عقائد سے ہوتاہے ۔لیکن اس میںسب کی اپنی جگہ اہمیت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اگرچہ غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے‘ ارض پاک میں عیسائی،پارسی،ہندو،سکھ اوردوسرے مذاہب کے افراد بھی شامل ہیں سب کا وطن پاکستان ہے جو سب پاکستانی ہیں۔اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 25کروڑ کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔بنگلہ دیش میں بھی20کروڑمسلمان ہیں، جوکبھی پاکستانی مگر اب ہمارے بنگالی مسلمان بھائی ہیں۔بھارت کے مسلمان پاکستانی نہیں بلکہ ہمارے بھارتی مسلمان بھائی ہیں ۔ اسی طرح سعودی عرب کے مسلمان ہمارے سعودی مسلمان بھائی ہیں۔قوم اورقومیت کسی ایک ملک میں اکٹھے رہنے سے قائم ہوتی ہے۔جن احباب کے ذہنوں میں عالمگیر برادری کا تصور ہے وہ اپنی مرضی سے کسی اسلامی ملک میں کوئی جائیداد،پراپرٹی یاکوئی قطعہ اراضی خرید سکتے ہیں؟ قوم اورکلچر کے ’’بمپر پیکج‘‘ میںدھرتی، قوم، عقائد، مذہب سب کے اپنے اپنے نمبرز ہوتے ہیں۔انہیں ایک دوسرے میں گڈمڈ کرنا چاہیے اورنہ ہی انکی حیثیت کو ایک دوسرے کے سامنے کم کرنا چاہیے۔ قوم اورقومیت کی حیثیت کو انفرادی اوراجتماعی دونوں سطحوں پر تسلیم کرنا چاہیے۔ ہم بلوچی کو بلوچی بھی سمجھیں اور پاکستانی بھی۔ پنجابی، سندھی، پختون، کشمیری، پوٹھوہاری، سرائیکی سب کی قومیتوں کو سلام کرنا چاہیے‘ یہ سب ہمارے بھائی ہیں اورہم سب پاکستانی ہیں۔جہاں تک اس سوال کے جواب کا تعلق ہے کہ کلچر کوئی امپورٹیڈ شے کانام ہے؟ شبانہ اعظمی کے شوہرنامدار جاوید اخترنے کلچر کی بابت میرے ایک سوال کے جواب میں کہاتھاکہ کلچر کی مثال اس پتنگ کی طرح ہے جس کا رخ چاہے آسمانوں کی جانب ہومگر اس کا دوسرا سرا آپ کے ہاتھ میں رہنا چاہیے۔دھرتی سے جُڑا رہنا چاہیے اپنی روایات سے جُڑا رہنا چاہیے… اگرچہ موضوع وسعتوں کاتقاضا کرتاہے مگر امید ہے ام کلثوم کو اپنے سوال کا تھوڑا بہت جواب مل گیاہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved