تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     25-08-2021

ہمارا حشر بھی کہیں ایسا نہ ہو

افغانستان میں طالبان کی جیت کا مطلب ہے کہ اسلامی ذہن رکھنے والے اُس ملک کے حکمران بن گئے ہیں۔ اِن اسلامی ذہن رکھنے والوں نے امریکہ کو شکست دی اور منطقی طور پہ حکمرانی بھی اِنہی کے ہاتھوں میں آنی تھی۔ اِن لوگوں کو آپ طالب کہیں یا مولوی اِن کا دین ایمان اسلام ہے۔ ظاہر ہے یہ لوگ کارل مارکس پڑھنے والے نہیں، اِن کی رہبری اور انسپائریشن (inspiration) اسلام سے ہے۔ یہ پہلے والے طالبان نہ رہیں، ماڈریٹ (moderate) ہو جائیں، دوسروں کو حکومت میں ملا لیں لیکن بنیادی بات بہرحال اِن کا اسلامی پن ہے۔ یہ لوگ کسی اشرافیہ کی نمائندگی نہیں کرتے، یہ افغانستان کے دیہاتوں میں رہنے والے غریب طبقات کی پیداوار ہیں‘ اور افغانستان کے حکمران یہ لوگ اِس لئے بنے ہیں کہ جو مغربی طرز کی اشرافیہ افغانستان میں ہوا کرتی تھی وہ حکمرانی میں ناکام رہی۔ وہ افغانستان سنبھال نہ سکی اور بالآخر یہ مولوی لوگ آ گئے۔
بیشک طالبان افغان سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ مفروضے کے طور پہ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے نئے حکمران پذیرائی نہیں بخشیں گے۔ لیکن ایک چیز کو تو کوئی نہیں روک سکتا۔ طالبان کے آنے سے پاکستان میں اسلامی ذہن رکھنے والوں کو تقویت ملے گی۔ یہاں ایسا ذہن رکھنے والے لوگ ضرور سوچیں گے کہ اگر وہاں اسلامی حکومت قائم ہو سکتی ہے تو یہاں کیوں نہیں۔ عمومی طور پہ یہاں کے اسلامی ذہن رکھنے والے لوگ بھی پاکستانی اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ اِن کا تعلق معاشرے کے نچلے طبقات سے ہے‘ یعنی پاکستان کی حکمرانی میں اِس ذہن والے لوگوں کی نمائندگی زیادہ نہیں ہے۔ پاکستان میں اقتدار اُن طبقات کے پاس ہے جن کی تعلیم اور سوچ مغربی طرز کی ہے۔ ایسے لوگوں کی تعلیم عموماً انگریزی سکولوں میں ہوتی ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کسی مغربی درسگاہ سے حاصل کریں۔ یہ نہیں ہے کہ اسلامی ذہن رکھنے والے برطانیہ یا امریکہ نہیں جاتے لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پاکستا ن میں اقتدار اُن ہاتھوں میں ہے جن کی سوچ بہرحال طالبان کی سوچ سے یکسر مختلف ہے۔
مسئلہ البتہ یہ ہے کہ مغربی سوچ رکھنے والی حکمرانی یہاں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ حکمرانی تب کامیاب ہوتی اگر انصاف پہ مبنی معاشرہ قائم ہوتا‘ لیکن ایسا ناممکن تھا کیونکہ حکمران طبقات کا مطمح نظر کبھی انصاف نہیں رہا۔ ہم جو کہتے پھریں وہ الگ بات ہے۔ جیسے ہر صاحبِ نظر کو بخوبی علم ہے جو ہمارا نظام ہے وہ ناانصافی پہ مبنی ہے۔ یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے۔ سماجی انصاف کی بنیاد تعلیم اور صحت کے شعبوں پہ ہوتی ہے۔ صحیح ہوش و حواس میں کوئی پاکستانی کہہ سکتا ہے کہ اِن دو شعبوں کی تشکیل انصاف پہ ہے؟ خواص کی تعلیم الگ اور بیشتر عوام کی کچھ اور۔ صحت کے میدان میں بھی یہی صورتحال کارفرما ہے۔ وسائل پہ قبضہ اوپر کے طبقات کا ہے۔ معاشرہ مسلمان ضرور ہے لیکن زیادہ تر ہماری مسلمانی نعروں اور رسومات تک محدود ہے۔
ایسے میں جب پڑوس میں ایک انقلاب برپا ہو چکا ہے... اور امریکہ کی شکست اور طالبان کی جیت کسی انقلاب سے کم نہیں... تو بے وسیلہ طبقات جو بھاری اکثریت میں ہیں لیکن جن کا حصہ حکمرانی میں برائے نام ہے‘ وہ نہیں سوچ سکتے کہ اگر وہاں یہ کچھ ہو گیا ہے تو ایسا یہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟ پاکستان میں سماجی انصاف کا بول بالا ہوتا تو ایسے خدشات بے محل ہوتے‘ لیکن جیسے اوپر عرض کیا ہے ہمارا بنیادی مسئلہ سماجی انصاف کا فقدان ہے۔ امیر اور بے وسیلہ وہ تو ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن خطرے کی گھنٹی وہاں بجتی ہے جہاں خواص و عام میں خلیج بہت بڑھ جائے۔ یہاں ایسی خلیج ہمیشہ رہی ہے لیکن موجودہ وقت میں صورتحال یہ ہے کہ یہ خلیج بیہودہ حد تک وسیع ہو گئی ہے۔
کسی سوشلسٹ انقلاب کا یہاں کبھی ڈر نہیں رہا۔ یہاں اِس قسم کے انقلاب کے حالات کبھی نہ تھے۔ جسے ہم ریڈیکلزم (Radicalism) کہتے ہیں وہ حالیہ سالوں میں یہاں اسلامی طرز کی پیدا ہوئی ہے۔ اِس ریڈیکلزم کا گہرا تعلق افغانستان کے حالات سے رہا ہے۔ نام نہاد افغان جہاد سے ہمارے مدرسوں کے طالب علم ریڈیکلائز ہوئے، یعنی اُن کے ذہنوں پہ افغانستان کے حالات کا گہرا اثر پڑا۔ اب تو افغانستان کے حالات اُس سے بھی زیادہ ڈرامائی شکل اختیارکر چکے ہیں۔ اب وہاں یہ اندیشہ نہیں کہ مجاہدین (یا اُنہیں آپ جو بھی کہیں) آپس میں لڑ رہے ہوں گے۔ اب وہاں ایک مضبوط سنٹرل حکومت قائم ہونے جا رہی ہے جس کا سارا فلسفہ اور آئین اور منشور ایک اسلامی سانچے میں ڈھلا ہو گا۔ یا تو یہاں کے نوجوانوں کے پاس کچھ ہو، نوکریاں ہوں، وسائل سے قربت ہو، مستقبل کے بارے میں کچھ امید ہو، پھر تو سب ٹھیک ہے۔ اِس صورت میں افغان طالبان سے کسی نے کیا اِنسپائر ہونا ہے‘ لیکن جب آپ کے پاس کچھ نہ ہو اور آپ کی آنکھیں گواہی دہے رہی ہوں کہ اِس ریاست میں کچھ ہاتھوں میں سب کچھ ہے اور وسیع اکثریت کے پاس سوائے کھوکھلے نعروں کے کچھ نہیں تو پھر ذہنوں میں مختلف قسم کے خیالات اٹھ سکتے ہیں۔
پرانی مذہبی جماعتیں گھس پِٹ چکی ہیں۔ اِن کے پیچھے اسلامی ذہن رکھنے والے نوجوان چلنے کو تیار نہیں‘ لیکن ہمارے سامنے ایک مثال خادم حسین رضوی کی بھی ہے۔ اُن کے خیالات سے لاکھ اختلاف کیا جائے لیکن اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ لاکھوں نوجوان اُن کے پرچم تلے جمع ہو گئے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان والے بھی ہیں۔ اِن کی سوچ بڑی خطرناک ہے۔ وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے قبائلی علاقے ہم آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ طالبان اِن سے مکمل ہاتھ کھینچ بھی لیں اپنے آبائی علاقوں میں یہ لوگ آ تو سکتے ہیں‘ اور آکے پھر شر بھی پھیلا سکتے ہیں۔ بلوچستان کے حالات بھی مثالی نہیں۔ آئے روز چھوٹے بڑے واقعات ہوتے رہتے ہیں لہٰذا اگر کوئی سمجھے کہ طالبان کی جیت کا اثر اسلامی ذہن رکھنے والوں کے ذہنوں پہ نہیں ہو گا تو یہ خام خیالی ہے۔ ریاستِ پاکستان کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔
ایسے خطرات ہوں تو کیا کرنا چاہئے؟ جواب بڑا واضح ہے لیکن جتنا واضح‘ اُس سے زیادہ پیچیدہ بھی ہے۔ طاقتور طبقات وسائل پہ اپنا قبضہ تھوڑا کم کریں اور سماجی انصاف کی طرف کچھ قدم اٹھائیں۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ نچلے طبقات بے آواز ہیں اور اوپر کے طبقات سماجی انصاف جیسی کہانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ پاکستان کا حال تو یہ ہو گیا ہے کہ جو فیصلے کر سکتے ہیں اُن کی ملک کے ساتھ کمٹمنٹ بڑی واجبی سی رہ گئی ہے۔ کرید کے دیکھ لیں، یوں لگتا ہے کہ بڑے لوگوں نے یا تو اپنے ٹھکانے باہر بنا لئے ہیں یا بنانے کے چکر میں ہیں۔ جس کسی سے پوچھو بچے اُن کے باہر پڑھ رہے ہوں گے۔ جن کی استطاعت ہے کہیں نہ کہیں باہر جائیداد بنائی ہو گی۔ اگر اوپر کے طبقات کا یہ حال ہے تو سماجی انصاف کا بیڑہ کون اٹھائے گا؟
حکمرانی کی یہاں عجیب منطق بن چکی ہے۔ کہتے ہیں معیشت کی ترقی کے لیے کنسٹرکشن انڈسٹری میں تیزی آنی چاہئے اور اس مقصد کے لیے اس انڈسٹری کو مراعات ملنی چاہئیں۔ یہاں عوامی بہبود کے کام ہو رہے ہوتے پھر درست ہے کہ کنسٹرکشن کو فروغ ملنا چاہئے‘ لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ بیشتر کنسٹرکشن ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں ہو رہی ہے۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ سوسائٹیاں زیادہ تر غریبوں کے لیے نہیں امیروں کے لیے ہیں‘ یعنی جن کے پاس پہلے ہی بہت کچھ ہے وہ مزید اکٹھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالات ایسے ہی رہے تو یہ نہ ہو کہ بے وسیلہ لوگ متبادل راستوں کا سوچنے لگیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved