تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     25-08-2021

کلچرل شاک

2006 ء کی بات ہے۔ مجھے برطانیہ میں پڑھنے کیلئے شیوننگ سکالرشپ ملا۔سکالرشپ کو پانے کا پراسیس طویل اور مشکل تھا۔ پانچ چھ ہزار مڈ کیریئر پروفیشنلز اپلائی کرتے‘چھانٹی ہوتی‘تحریری ٹیسٹ کے بعد گورے پینل انٹرویو کرتے اور پھر جا کر آپ سلیکٹ ہوسکتے تھے۔14 فروری 2006 ء کو برٹش کونسل کا خط ملا کہ آپ کو منتخب کر لیا ہے۔ خوشی کے ساتھ ٹینشن بھی ہوئی کہ نئے ملک اور نئے شہر میں کیسے ایڈجسٹ ہو پائیں گے۔اس کا حل برٹش کونسل کے پاس موجود تھا۔ ہم سب کو برٹش کونسل میں بلا کر ایک طویل لیکچر دیا گیا بلکہ ہم سے پہلے جو پاکستانی طالبعلم برطانیہ سے اس سکالرشپ پر پڑھ کر آئے تھے انہیں بھی مدعو کیا گیا تھاکہ وہ ہماری کونسلنگ کریں کہ ہم نے برطانیہ پہنچ کر زندگی کیسے گزارنی ہے‘ کن کن باتوں کا خیال رکھنا ہے۔اس کونسلنگ کا نام انہوں نے ''کلچرل شاک ‘‘رکھا ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ تھرڈ ورلڈ سے لوگ فرسٹ ورلڈ میں جاتے ہیں تو وہاں ایڈجسٹ ہونے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کیلئے وہ تیار نہیں ہوتے۔
اگرچہ کونسلنگ سے فرق پڑا لیکن اصل تجربہ آپ کو گراؤنڈ پر ہوتا ہے۔ جب لندن پہنچے تو میرے لیے نئی بات تھی کہ آپ کے کالج کی لڑکیاں چاہے کلاس فیلوز ہوں یا دیگر ڈیپارٹمنٹس کی‘ اگر آپ ان کو دیکھ رہے ہیں یا اچانک آئی کنٹیکٹ ہوا ہے تو وہ آپ کو دیکھ کر مسکراہٹ دے گی۔ اب ذرا تصور کریں میرے جیسے پینڈو جو اس کلچر سے گئے ہوں کہ ''ہنسی تے پھنسی‘‘ ان کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ یہ بھی کسی نے بتایا تھا کہ یہاں لڑکی کو تین چار سکینڈ تک دیکھنا اوکے ہے‘ وہ لڑکی بھی مائنڈ نہیں کرتی لیکن چار کے بعد پانچویں سکینڈ تک بھی آپ اسے دیکھ رہے ہیں تو اسے گھورنا کہتے ہیں اور گھورنا ہراسمنٹ میں آتا ہے اور اس پر سزا بھی ہوسکتی ہے۔گھورنے سے یاد آیا کہ جب لندن سے واپس آنے لگے تو ایک دوست نے گھر کھانا کیا۔ میزبان کی بیگم صاحبہ نے میری بیوی سے پوچھا :آپ یہاں پردہ نہیں کرتیں؟ میری بیوی نے جواب دیا: اب ہم پاکستان جارہے ہیں وہاں پردہ شروع کروں گی۔ اس خاتون نے حیرانی سے پوچھا: وہ کیوں؟ میری بیوی نے جواب دیا: یہاں سال سے زائد ہوگیا ہے مجال ہے لندن کی بس‘ ٹرین‘ سب وے یا راہ چلتے کسی گورے نے دیکھا یا گھورا ہو۔ گھورنے کا کام ایشین نوجوان‘ بزرگ سب کرتے ہیں لہٰذا لندن میں پردے کا فائدہ نہیں تھا۔ پاکستان میں اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوگا کہ ہماری نوجوان نسلیں آپ کو باہر دم نہیں لینے دیتیں۔اسی طرح لندن میں اپنے کالج میں پہلی دفعہ یہ سیکھا کہ آپ اگر دروازے سے گزر رہے ہیں تو ایک لمحے کیلئے مڑ کر دیکھیں کوئی پیچھے آرہا ہے تو اس کیلئے دروازہ کھول کر کھڑے ہوں‘ اسے گزرنے دیں۔تھینک یو اور سوری کا استعمال میں نے اپنے استادوں اور کلاس فیلوز سے سیکھا۔ میرے لیے نئی بات تھی کہ یہاں سوری بھی کہنا ہے ورنہ میں تو اس معاشرے سے گیا تھا جہاں سوری کہنا مردانگی کی شان کے خلاف ہے۔ بزدل اور کمزور ہی سوری کرتے ہیں یا پھر شکریہ کہنا بھی ہتک اور توہین ہے کہ کسی نے کوئی فیور کر دی یا اچھا سلوک کر دیا تو کون سا احسان کر دیا۔ لندن سے ہی سیکھا کہ اچھا ڈرائیور دوسروں کو راستہ دیتا ہے اور اگر اسے کوئی راستہ دے تو اس کا شکریہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ میرے دو بچے جو وہاں چانسلری لین پر ایک سکول میں پڑھتے تھے‘ سوری اور تھینک یو کے عادی ہوگئے تھے۔ جب ہمارے ساتھ پاکستان لوٹے تو تین ماہ بعد سوری اور تھینک یو بھول چکے تھے کیونکہ پاکستانی سکولز میں یہ رواج نہ تھا۔ وہاں بیڈ ٹائم سٹوریز پڑھنے کی سختی تھی‘ پاکستان میں اس پرتوجہ نہیں ہے۔ یوں بچے لندن میں تھے تو وہاں کے رواج اور کلچر میں ڈھل رہے تھے پاکستان لوٹے تو یہاں کے کلچر میں ڈھل گئے۔ لندن میں گاڑی میں سفر کرتے ہوئے احساس ہوا کہ ریڈ سگنل توڑنا سب سے بڑا جرم ہے۔ لندن جانے سے پہلے شاید میں بھی اشارے توڑتا ہوں گا لیکن یاد نہیں پڑتا کہ لندن سے لوٹ کر میں نے کبھی اشارہ توڑا ہو‘ چاہے رات کے تین کیوں نہ بجے ہوں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ رام لیلا کیوں سنائی جارہی ہے؟یہ اس لیے سنائی جارہی ہے کہ جو کچھ لاہور مینار پاکستان گراؤنڈ میں لڑکی کے ساتھ تین چار سو نوجوانوں کے ہجوم نے کیا مجھے اس پرافسوس تو ضرور ہے لیکن حیرانی نہیں ۔ ان میں سے اکثریت‘ جیسے حکومت کا کہنا ہے ‘لاہور سے باہر کے علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔ زیادہ اکثریت مضافاتی علاقوں کی ہے۔ یہ سب اس کلچرل شاک کا شکار ہوئے ہیں جو میرے جیسے پینڈو لندن میں گوری لڑکی کی مسکراہٹ دیکھ کر ہوتے ہیں۔ گوری کی مسکراہٹ کا مطلب اس کے نزدیک کچھ اور ہم پینڈو اس کا مطلب کچھ اور سمجھتے ہیں۔ ہر شہر کا اپنا کلچر‘ رواج اور تہذیب ہوتی ہے۔ باہر سے آنے والے ان روایات کو نہیں سمجھتے اور وہ وہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے ہاں کیا جاتا ہے۔ اب شہروں میں موٹرسائیکل سواروں کا ریڈ سگنل توڑنا عام کلچر بن چکا ہے کیونکہ چھوٹے شہروں میں ریڈ سگنل کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر سگنل ہے بھی تو کوئی پروا نہیں۔ لڑکیوں کو چھیڑنا‘ آوازیں کسنا‘ ٹچ کرنا اور جینا حرام کرنا وہاں بازاروں میں عام ہے۔ گلی محلے میں بیٹھ کر دوسرے کی ماں بہن کے سکینڈلز بنانا ایک شغل ہے۔ اپنی بہن کو بائیک پر بھائی نہیں بٹھا کر لے جاتا کہ دوسرے نوجوان گھوریں گے‘ آوازیں کسیں گے کیونکہ وہ بھائی صاحب خود یہ کام دوسروں کی بہنوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس لیے جب میرے جیسا بندہ شہر آتا ہے تو اسے کلچرل شاک لگتا ہے جہاں برقعہ پردہ زیادہ نہیں‘ لڑکیاں اسے گاڑیاں یا بائیک چلاتی نظر آتی ہیں تو اسے وہ عزت دار نہیں لگتیں۔ اس کے نزدیک عزت دار صرف اس کی بہن یا ماں ہے جو گھر سے باہر نہیں نکلتی یا جسے وہ نہیں نکلنے دیتا۔ جو گھر سے باہر نکلتی ہے وہ عزت کے قابل نہیں بلکہ اسے چھیڑنا یا اس پر جھپٹنا مردانگی ہے۔ وہ سب کام جو اس کے گائوں یا قصبے یا چھوٹے شہر میں اپنی اپنی کلچرل روایات کے تحت نہیں ہوتے لیکن جب وہ بڑے شہروں میں ہوتے دیکھتا ہے تو وہ اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کی فرسٹریشن کا یہی حل ہے جو باہر سے لاہور آئے ہجوم نے مینار پاکستان گراؤنڈ میں کیا۔ ایک ماڈرن لڑکی کو دیکھ کر سب حواس کھو بیٹھے اور جھپٹ پڑے۔ جو ان نوجوانوں کا سوشل میڈیا پر دفاع کررہے ہیں یہ سب انہی جیسے ہیں جو موقع کی تلاش میں ہیں۔
لاہور چھوڑیں اب اسلام آباد میں عورتوں اور لڑکیوں کا گاڑی چلانا بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں موٹر سائیکل سوار نوجوانوں نے خواتین ڈرائیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔یہ سب ان علاقوں سے آئے ہیں جہاں کوئی عورت گاڑی چلانے کا تصور تک نہیں کرسکتی۔ وہی بات کہ جو اکیلی گھر سے نکلی ہے‘ اچھے کپڑے اور اچھی گاڑی پر سوار ہے اسے چھیڑنا لازم ہے کیونکہ اس کے اپنے گائوں یا قصبے میں کوئی عورت گاڑی نہیں چلاتی‘ جو چلاتی ہے ‘ اس کے نزدیک وہ اچھے کردار کی مالک نہیں ہے۔ یہ وہ ذہنیت ہے جس کا شکار اس وقت بڑے شہر ہورہے ہیں۔ ہم بڑے شہروں میں آ تو گئے لیکن بڑے شہروں کے رواج اور کلچرل ایشوز ساتھ کے ایڈجسٹ نہیں ہو پا رہے۔ ہم شہروں کے ساتھ جڑنے کے بجائے وہاں کے ماڈرن رہائشیوں کو اپنی Tribal روایت کو فالو کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسی کش مکش ہے جو اس وقت آپ کو ہر بڑے شہر میں نظر آرہی ہے اور یوں عورتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔لاہور کے واقعے اور اسلام آباد میں موٹر سائیکل سواروں کے خواتین ڈرائیوز کو ہراساں کرنے کے نئے کلچر کو دیکھ کر مجھے خیال آیا لندن والے گورے سیانے ہیں‘ میرے جیسے بندے کو سکالرشپ پر بھیجنے سے پہلے باقاعدہ کونسلنگ کرتے ہیں کہ کہیں موصوف کا بڑے شہر پہنچ کر دماغ الٹ نہ جائے کہ'' ہنسی تے پھنسی‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved