تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     25-08-2021

برطانوی راج، میڈیا اور مزاحمت

دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں بھی ظلم، زیادتی، دھونس اور دھاندلی سے لوگوں کو مفتوح کیا گیا وہاں مزاحمت کا جذبہ تحریکوں میں ڈھل گیا‘ البتہ مزاحمت کے رنگ مختلف تھے۔ کہیں مزاحمت مسلح جدوجہد کی شکل میں تھی‘ جب جبر کا مقابلہ طاقت سے کیا گیا۔ کہیں یہ مزاحمت انفرادی سطح پر سامنے آئی۔ کہیں مسلح گروہ جبر کے راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہندوستان میں فرنگی راج کے خلاف بھی مزاحمت کے کئی روپ سامنے آئے۔ مسلح مزاحمت کا نقطۂ عروج 1857 کی جنگِ آزادی تھی جس میں مسلمان، ہندو، سکھ اور ہندوستان کی دوسری قومیتوں نے مل کر فرنگی حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا‘ ملک کے طول و عرض میں مزاحمت جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور مزاحمت کی شدت سے فرنگی راج کا سنگھاسن ڈول گیا تھا۔ مزاحمت کی دوسری قسم ڈسکورس (Discourse) کی تھی۔ مزاحمت کی اس قسم میں طاقت کا استعمال نہیں تھا بلکہ اس کے لیے سماجی اداروں کے خاص طور پر تعلیمی اداروں اور میڈیا کا استعمال کیا گیا۔ مزاحمت کی اس قسم میں جوابی بیانیے کی تشکیل ایک اہم مقصد تھا اور بیانیے کی تشکیل کے لیے میڈیا کا استعمال کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ابھی ہماری زندگیوں کا حصہ نہیں بنے تھے۔ صرف پرنٹ میڈیا کا زمانہ تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے خلاف مزاحمت میں میڈیا کے کردار پر نظر ڈالیں، یہ ضروری ہے کہ ایک سماجی ادارے کے طور پر میڈیا کی اہمیت کا ادراک کیا جائے۔یہ حقیقت ہے کہ سماجی حقائق (Social realities) سماجی اداروں (Social Instiitutions) کی مدد سے تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ ان سماجی اداروں میں روایتی طور پر خاندان، سکول، مذہب اور عدلیہ شامل ہیں اور سماجی حقیقت کی تعمیر کے لیے مخصوص ڈسکورس کا استعمال کرتے ہیں۔ ان سماجی اداروں کی مدد سے دقیانوسی تصورات (Stereotypes) کی تعمیر ممکن ہے۔
ماضی میں سکول، مکتب یا مدرسہ سماجی حقائق کی تشکیل کے لیے سب سے طاقت ور سماجی ادارہ سمجھا جاتا تھا۔ ماضی میں، سکول کے ادارے کو دو دیگر سماجی اداروں، مذہب اور خاندان کا تعاون حاصل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دو اہم پیش رفت ہوئیں جنہوں نے سارا منظرنامہ بدل ڈالا۔
سب سے پہلے سکول کا ادارہ، جو سب سے مضبوط سماجی ادارہ ہوا کرتا تھا‘ مذہب اور خاندان کے سماجی اداروں کے الگ ہونے کی وجہ سے اپنی طاقت کھو بیٹھا۔ اس کے نتیجے میں سکول ایک سماجی ادارے کے طور پر کمزور ہو گیا۔ دوسری پیش رفت اتنی ہی اہم تھی جب ایک نیا سماجی ادارہ 'میڈیا‘ منظر پر ابھرا اور دیگر تمام سماجی اداروں کو گہنا دیا۔ ذرائع ابلاغ کی طاقت اس کارکردگی میں ہے جو کہ اس کی رسائی، برق رفتاری اور دل آویزی کی وجہ سے اسے حاصل ہے۔ آئیے ان تین پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میڈیا کی رسائی جغرافیائی حدود کی پابند نہیں۔ میڈیا کا پیغام جغرافیائی حدود کے پار لوگوں تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح پیغام کو بہت کم وقت میں زیادہ سامعین تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ میڈیا کی تیسری امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے پیغام عام طور پر ایک دل چسپ انداز میں پہنچایا جاتا ہے۔ انہی امتیازی خصوصیات کے ساتھ، میڈیا کو دوسرے سماجی اداروں مثلاً خاندان، سکولوں وغیرہ پر برتری حاصل ہے۔ انسانی تاریخ میں میڈیا کو جہاں تسلط حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا وہیں یہ مزاحمت کا ایک موثر ہتھیار بھی بنا۔
سماجی حقیقتوں (Social Realities) کی تشکیل میں میڈیا کے مرکزی کردار کو سمجھنے کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں برطانوی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے میں پرنٹ میڈیا نے کیا کردار ادا کیا۔ 1857 سے پہلے کے دور میں گریش چندر گھوش کا 'ہندی محب وطن‘، دادابھائی نوروجی کا 'راستی گفتار‘، اور رام موہن رائے کے 'بنگدوت‘ نے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
1857 میں 'پیام آزادی‘ (ہندی اور اردو میں) نے برطانوی سلطنت کو چیلنج کیا اور اس کے بنیاد پرست موقف کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی۔ 'سلطان الاخبار‘ جو کہ ایک فارسی جریدہ تھا‘ نے بہادر شاہ ظفر کا فرمان شائع کیا، ہندوستان کے لوگوں پر زور دیا کہ وہ برطانوی سلطنت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ فارسی اخبار ''سراج الاخبار‘‘ کے مدیر عبدالقادر تھے۔ اس اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس کی پریس کو برطانوی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے ضبط کر لیا گیا تھا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جرائد کے ایڈیٹرز نے فعال سیاست میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ان رہنماؤں میں سبرامنیا ایئر کا ''دی ہندو‘‘ چپلنکر کا ''مراٹھا‘‘ دادابھائی نوروجی کا ''راستی گفتار‘‘ فیروز شاہ مہتا کا ''بمبئی کرانیکل‘‘ پنڈت مدن مالویہ کا ''ہندوستان‘‘ موتی لال نہرو کا ''لیڈر‘‘ جواہر لال نہرو کا ''نیشنل ہیرالڈ‘‘ لالہ لاجپت رائے کے ''دی پنجابی‘‘ ''بندے ماترم‘‘ ''دی پیپل‘‘ گاندھی کے ''ینگ انڈیا‘‘ ''نیو جیون‘‘ ''ہریجن‘‘ ''ہریجن سیوک‘‘ اور ''ہریجن بندھو‘‘ حسرت موہانی کا ''اردوئے معلیٰ‘‘ سبھاش چندر بوس کا ''فارورڈ‘‘ اور سی آر داس کا ''ایڈوانس‘‘ شامل تھے۔
''زمیندار‘‘ کی بنیاد ظفر علی خان کے والد سراج الدین احمد نے 1903 میں رکھی تھی، بعد میں ظفر علی خان اس کے مدیر بنے اور برطانوی حکومت کیخلاف مزاحمت کیلئے استعمال کیا۔ اسی طرح مولانا محمد علی جوہر نے انگریزی میں ''کامریڈ‘‘ اور اردو میں ''ہمدرد‘‘ نکالا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ''الہلال‘‘ کی بنیاد رکھی جو تنقیدی تجزیوں کے ساتھ ایک مقبول رسالہ تھا۔ سر سید احمد خان نے ''تہذیب الاخلاق‘‘ کی تدوین کی جس میں لوگوں کے سماجی‘ سیاسی شعور پر توجہ دی گئی۔ قائداعظم محمد علی جناح ''ڈان‘‘ (انگریزی) اور ''منشور‘‘ (اردو) کے سرپرست تھے۔ حمید نظامی‘ مجید نظامی کا ''نوائے وقت‘‘ اور میر خلیل الرحمن کا ''جنگ‘‘ مسلمانوں کی آواز تھے۔
پرنٹ میڈیا نے برطانوی راج کے تسلط کو چیلنج کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ غیر معمولی تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے مزاحمت کے عمل میں ہندو اور مسلمان برابر کے شریک تھے۔ اخبارات اور جرائد نہ صرف انگریزی میں بلکہ ہندوستان کی بڑی مقامی زبانوں میں بھی شائع ہوتے تھے تاکہ ان کی بڑے پیمانے پر رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ میڈیا مزاحمت کا بنیادی مقصد برطانوی راج کی طرف سے تشکیل کردہ ان تصورات (Stereotypes) کو چیلنج کرنا اور اداریوں، نظموں اور کارٹونوں کے ذریعے برطانوی حکمرانی کے آمرانہ چہرے کو بے نقاب کرنا تھا۔
برطانوی حکومت نے میڈیا کی آواز دبانے کیلئے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جن میں لارڈ کیننگ کا گیگنگ ایکٹ اور بعد ازاں لارڈ لٹن کا 1878 کا ورنیکلر پریس ایکٹ شامل تھے۔ ان اقدامات کا مقصد مقامی پریس کو برطانوی پالیسیوں کی مخالفت سے روکنا تھا۔ اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کیلئے انگریزوں نے مختلف ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جن میں اشاعتوں پر پابندی، سکیورٹیز روکنا، پرنٹنگ پریس ضبط کرنا، بھاری جرمانے عائد کرنا، اور مالکان/ایڈیٹرز کو گرفتار کرنا شامل تھے‘ تاہم، آزادی کی یہ آوازیں خاموش نہ ہو سکیں کیونکہ ایڈیٹرز/مالکان نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ جیل جائیں گے، جرمانے ادا کریں گے، سکیورٹی کے پیسے اور پرنٹنگ مشینوں کا نقصان برداشت کریں گے، اخبارات کو مختلف عنوان سے یا کسی دوسرے شہر میں دوبارہ شروع کریں گے لیکن ہار نہیں مانیں گے۔ ہندوستان میں فرنگی راج کے خلاف مزاحمت کی کہانی ان بہادر صحافیوں کے ذکر کے بغیر ادھوری ہو گی‘ جنہوں نے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر وطن کی آزادی کے حصول میں اہم کردار ادا کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved