دنیا بھر کی اقوام اپنی نئی نسل کی تربیت پر خاص توجہ دیتی ہیں کیونکہ آگے چل کر نئی نسل نے ہی ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے۔ اس امر پر خاص توجہ دی جاتی ہے کہ بچوں کی صلاحیتوں پر کام کیا جائے اور ان کو وہ پیشہ اختیار کرنے میں مدد دی جائے جو انہیں پسند ہے؛ تاہم ہمارے ملک میں اس کے برعکس سب کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ ڈاکٹر بنے یا انجینئر، حالانکہ سب بچے ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتے۔ کوئی استاد بنے گا، کوئی سائنس دان، کوئی کھلاڑی تو کوئی اداکاری یا گلوکاری کی طرف جائے گا۔ کچھ بچے اپنی مرضی بھی کرتے ہیں لیکن بہت سی صورتوں میں انہیں خاندان کا کہا ہی ماننا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بنا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ بڑوں کی بات ماننا یقینا بھلائی ہے لیکن بچوں کی خواہشات اور ان کے ٹیلنٹ کو دیکھ کر فیصلے کرنا چاہئیں تاکہ وہ ایک کامیاب شہری بن سکیں۔
آج کل کی نوجوان نسل میں سے زیادہ تر کے پاس موبائل ہے، نوجوان سارا سارا دن ہاتھ میں موبائل پکڑے‘ اسی میں گم نظر آتے ہیں اور والدین کو کچھ نہیں پتا ہوتا کہ بچے موبائل پر کیا کر رہے ہیں۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ آج کی نسل کھیلوں اور ورزش جیسی مثبت سرگرمیوں سے دور ہوگئی ہے، بس انٹرنیٹ ہی ان کی زندگی بن کر رہ گیا ہے۔ فیس بک‘ ٹویٹر‘ انسٹاگرام‘ وٹس ایپ‘ ٹک ٹاک‘ سنیپ چیٹ اور پب جی وغیرہ‘ اس کے علاوہ وہ فون‘ ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ سے سر ہی اوپر نہیں اٹھاتے۔ کچھ لوگ ہمارے نوجوانوں کی ان صلاحیتوں کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ یہی بچے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر لاکھوں روپے کماسکتے ہیں لیکن ان بچوں کو بھٹکا دیا گیا ہے۔ کوکنگ چینلز‘ پاکستان کی ثقافت‘ دستکاریوں اور سیروسیاحت کے فروغ کے بجائے وہ مختلف جماعتوں‘ گروہوں‘ اداروں اور غیر ممالک کی بی ٹیم بن کر سوشل میڈیا پرنئے طرز کے اولمپک گیمز کھیل رہے ہیں۔ یہ آگ کا کھیل ہے جس میں یہ لوگ منظم طور پر کسی بھی شخص کی زندگی‘ کیریئر اور نیک نامی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ اس 'کھیل‘ میں گالی گلوچ عام بات ہے، اگر دل کو قرار نہ آئے تو یہ لوگ دھمکیوں پر بھی اتر آتے ہیں۔ مردوں پر عمومی طور پر ان کے کام کے حوالے سے تنقید کی جاتی ہے لیکن خواتین کی کردار کشی سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔ یہ لوگ ٹیم کی صورت میں کام کرتے ہیں اور مل کر مذکورہ شخص پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگر ان کے ٹویٹس اور سٹیٹس کا بغور جائزہ لیں تو ان میں زیادہ تر فیک اکائونٹس نظر آئیں گے۔ کاپی‘ پیسٹ کرکے ایک ٹویٹ کو پھیلا کر یہ ظاہر کیا جاتا ہے جیسے ہزاروں لوگ ان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ہزاروں جعلی اکائونٹس کی سپورٹ خرید کر یہ ٹویٹر ڈیک کے ذریعے انہیں استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں جاری ان ''اولمپک گیمز‘‘ میں الزامات تمغوں کی صورت میں مفت دیے جاتے ہیں‘کچھ مجھے بھی مل چکے ہیں۔ یہ الزام اور دھمکیاں ٹرولز ٹیم دیتی ہے اور تھوک کے حساب سے دیتی ہیں۔ آپ کو یہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں بس اس ملک کا ذمہ دار شہری بننا ہو گا، قانون کی پاسداری کرنا ہو گی اور دکھی انسانیت کیلئے آواز بلند کرنا ہوگی، بس اس کے بعد آپ اپنا مؤقف سوشل میڈیا‘ فیس بک اور ٹویٹر پر پوسٹ کر کے دیکھیں‘ یہ ٹرولز آپ کو خود ہی ڈھونڈ لیں گے۔
پہلا الزام آپ کے مذہبی عقائد پر لگے گا‘ آپ چاہے کتنے ہی باعمل مسلمان ہوں لیکن یہ 15 سے 25 ہزار ماہوار پر رکھے گئے سوشل میڈیا ٹرولز آپ کو ایک پل میں دائرہ اسلام سے خارج کردیں گے۔ کچھ تو ایسے ٹرولز بھی ہیں جو پچاس ہزار تک تنخواہ وصول کررہے ہیں‘ ان میں سے اکثرپڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے‘ نہ انہوں نے کوئی دینی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے لیکن یہ دوسروں کو لادینیت کے میڈل دینے میں ماہر ہیں۔ کچھ اہم شخصیات اور بہت سے اینکر بھی ان کو جان بوجھ کر ری ٹویٹ کرتے ہیں‘ اس طرح ان لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے جو کسی چیز پر ان سے اختلا ف رکھتے ہیں۔ دوسری چیز جو مفت میں لڑائی جھگڑوں اور سوشل میڈیا مباحثوں پر آپ کو ملتی ہے وہ ہے غداری کا ٹھپہ۔ آپ بات کچھ اور کررہے ہوں گے مگر یہ لوگ آپ کو غدارِ وطن قرار دے کر فوری طور پر جلاوطن کرنے کا حکم بھی صادر کر دیں گے۔ اسی طرح ایک مقابلہ گالیوں کا بھی جاری ہے‘ فیک اکائونٹس اور بعض اوقات اصل اکائونٹس سے بھی لوگوں کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ اس پر زور و شور سے مقابلہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ غلیظ گالیاں کون دیتا ہے۔ جب سوشل میڈیا پر کوئی مباحثہ ہورہا ہو تو اس وقت لوگ اچھی بات سمجھانے کے ساتھ بھی گالی د ے دیتے ہیں۔ ایسے مناظر دیکھنے کے بعد میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ اس ملک میں اخلاقیات کو کیا ہوگیا ہے۔ ایک اور مقابلہ بھی سوشل میڈیا پر عام دیکھنے کو ملتا ہے‘ اس پر بھی بہت سے لوگ میڈل کے حقدار ہیں اور وہ ہے مجرم کی پشت پناہی اور مظلوم کی کردار کشی۔ کوئی بھی واقعہ ہوجائے‘ یہ ٹرولز فوری طور پر مظلوم کی کردار کشی شروع کردیتے اور مجرم کے دفاع میں سامنے آجاتے ہیں۔ ایسی ایسی تاویلیں لاتے ہیں کہ انسان سر پکڑ کر رہ جائے۔ اس کے علاوہ جو چھوٹے چھوٹے مقابلے ہمہ وقت جاری رہتے ہیں‘ ان میں سے ایک ''دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فضیحت‘‘ ہے۔ خود ان لوگوں میں ہر طرح کی برائی پائی جاتی ہو گی لیکن وہ دوسروں کو جج کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں گے، ان کو نیچا دکھائیں گے، سارا دن درس دینے کے بعد خود بھی خواتین کو ہراساں کریں گے، کون سی ایسی اخلاقیات ہوں گی جن کا درس نہیں دیا جائے گا مگر اپنی نجی زندگی پر یہ نظر نہیں ڈالیں گے۔
پاکستان میں جاری ان اولمپک مقابلوں میں اندھی عقیدت بھی سرفہرست ہے، ہرطبقۂ فکر سے اور سیاسی وابستگی رکھنے والے لوگ اس میں پورا پورا حصہ ڈالتے اور گوبر کو حلوہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اندھی عقیدت ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ اس نے ذہنی و فکری نشوونما اور مثبت مباحثے کے رجحان کو ختم بلکہ مفقود کردیا ہے۔اس ساری صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو ان ٹیموں کو فنڈز دے رہے ہیں، ان کی مدد سے فیک ٹویٹس‘ فیک ٹرینڈز بنواکر یہ داد و تحسین وصول کررہے ہیں کہ دیکھو! ہماری کتنی فین فالوونگ ہے، ہم کتنی جلدی ٹرینڈز بنالیتے ہیں۔ میری طرح کے وہ لوگ‘ جو سوشل میڈیا پر گہری نظر رکھتے ہیں‘ فوری طور پر پہچان جاتے ہیں کہ یہ ٹرینڈز فیک اکائونٹس کی مدد سے بنائے گئے ہیں۔ عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ہزار ری ٹویٹ ملتے ہیں لیکن غور کریں کہ جو لوگ اشتعال انگیزی کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ انہیں پہلے 15 منٹ میں ہی ہزار ری ٹویٹ مل جاتے ہیں اور شام تک یہ گراف تین ہزار کراس کرجاتا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین جانتے ہیں کہ یہ فیک رِیچ ہے۔ جیسے ہی ٹویٹر انتظامیہ کے علم میں ایسی باتیں آتی ہیں‘ ایسے جعلی اکائونٹس معطل کردیے جاتے ہیں اور ٹویٹر پینل سے ٹرینڈ بھی ہٹا دیا جاتا ہے اس لیے فیک فالوونگ‘ فیک ری ٹویٹس اور فیک ٹرینڈز کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس وقت اُن خواتین صحافیوں کی آواز کو دبانے کی خصوصی کوششیں ہو رہی ہیں جو اس استحصالی نظام میں پسنے والے طبقے کیلئے آواز بلند کررہی ہیں۔ ان کے خلاف ٹویٹس کیے جاتے ہیں‘ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے اورانہیں کھلے عام قتل کی دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔ انتہاپسندی کے یہ مقابلے پاکستان میںزور وشور سے جاری ہیں اور انتہا پسندی کے ان مقابلوں کی وجہ سے ہی ہم دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم کرکٹ کے میدان میں ہار جاتے ہیں ،اولمپکس میں ہار جاتے ہیں کیونکہ ایتھلیٹ کا تو کوئی مستقبل نہیں لیکن سوشل میڈیا پر گالیاں دینے والوں کو فوری طور پر نوکری مل جاتی ہے، ان کو وظیفے دیے جاتے ہیں، کورسز کرائے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایوارڈز بھی مل جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں اس ملک میں کھلاڑی نہیں پیدا ہوں گے‘ صرف ظاہر جعفرجیسے جنونی قاتل ہی پیدا ہوں گے۔ اس ملک کو سوشل میڈیا ٹیمز اور ٹرولز کی نہیں‘ اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے۔