1976ء کی ایک شام‘ لاہور کینٹ میں اس وقت کی ایک اہم شخصیت کے گھر کے وسیع گیراج میں کھڑی اس دور کی شاندار اور انتہائی قیمتی جیپ ہر ایک کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی۔ چکوال سے آئی ہوئی اس شخصیت کے خاندان کی ایک خاتون نے جیپ کے دروازوں اور اندر کے خوشنما انٹیریئر اور اس کی چمک دمک کو دیکھنے کے بعد پوچھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے تو انہوں نے لاپروائی کے سے انداز میں بتایا کہ ... نے بھجوائی ہے۔ اس وقت کے انتہائی قیمتی اور تمام فیملی کو بھا جانے والے اس تحفے نے آگے چل کر اُس خاندان کو‘ جس کے سربراہ نے یہ گاڑی بھجوائی تھی‘ پورا پورا حق ادا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دنوں میں وہ شخصیت‘ جنہیں یہ تحفہ دیا گیا تھا‘ پنجاب میں انتہائی طاقتور حیثیت سے موجود تھی اور پھر اس نے ملکی سیاست کے حوالے سے کیے جانے والے فیصلوں میں گاڑی دان کرنے والوں کیلئے جو اہم کردار ادا کیا وہ ملکی سیاسی تاریخ میں پوری طرح سے محفوظ ہے۔ اس کے کئی دہائیوں کے بعد یہ منظر بھی دنیا نے دیکھنا تھا کہ بسترِ مرگ پر پڑی اس شخصیت کو ایک صوبے کا آئینی عہدے دینے کے لیے اسے آئی سی یو کے بیڈ سے بلانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا کہ اس شخصیت کی اُن کی بیش بہا خدمات کا‘ چاہے برسوں بعد ہی سہی‘ صلہ دینا مقصود تھا اور ساتھ ہی دوسروں کو یہ جتلانا بھی کہ جو ہمارا دوستی کا ہاتھ تھامتے ہیں‘ ہم انہیں بھولتے نہیں اور جب بھی موقع ملے‘ ضرور نوازتے ہیں۔ کتنے ہی لوگوں کو میں جانتا ہوں جو ان سے محض چند بار ملنے کے بعد ہی کروڑوں‘ اربوں پتی ہو گئے۔
یہ 1997ء دسمبر کی ایک شام تھی‘ جب لاہور میں شام کی سرمئی چادر آسمان پر تنی ہوئی تھی،عین اس وقت ایک سینیٹر کو کوئٹہ لے جانے کے لیے ایک خاص طیارہ پرواز کیلئے تیار کیا جا رہا تھا۔ اسلام آباد کی جانب سے سول ایوی ایشن اتھارٹی کوئٹہ کو اس خصوصی طیارے سے متعلق ایک ارجنٹ حکم موصول ہوا جس نے ایک لمحے کیلئے انہیں چکرا کر رکھ دیا، وہاں موجود اہلکار و افسران یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ایک ایسے وقت میں جب اسلام آباد میں (اُس وقت کے) چیف جسٹس اور وزیراعظم کے مابین کھینچا تانی چل رہی تھی‘ کوئٹہ اس قدر اہم کیسے ہو گیا کہ رات کی تاریکی میں کسی انتہائی اہم شخصیت کو لے کر ایک سپیشل جہاز کوئٹہ پہنچ رہا ہے۔ اگرچہ اس بات کو چوبیس برس گزر چکے ہیں مگر آج بھی‘ پی آئی اے اور کوئٹہ ایئر پورٹ کے اہلکار جانتے ہیں کہ‘ جیسے ہی شام کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں‘ کوئٹہ کیلئے کوئی بھی پرواز شیڈول نہیں ہوتی۔ کوئٹہ ایئر فیلڈ کو اس وقت صرف یہی بتایا گیا تھا کہ جو شخصیت اس سپیشل ہوائی جہاز سے آ رہی ہے‘ اسے وی وی آئی پی پروٹوکول دینا ہے اور ساتھ ہی سختی سے یہ تاکید بھی کی گئی کہ اس شخصیت کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہ ہو‘ اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری کوئٹہ ایئر فیلڈ عملے پر ہو گی، گویا اس شخصیت کی آمد کو انتہائی راز میں رکھنے کا حکم علیحدہ سے جاری کیا گیا تھا۔
''Instructions have been recieved from Islamabad with the details that the special flight carrying the visiting dignitrary, must be kept confidetial and not reported''.
کوئٹہ ایئر فیلڈ کی جانب سے اس شخصیت کی آمد سے متعلق ملنے والے حکم کے بعد وہاں کی لاگ بک میں لکھے گئے یہ الفاظ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہوں گے۔ اس خفیہ اور جیمزبانڈ ٹائپ شخصیت نے ایک مخصوص خاندان کیلئے جو اہم ترین کارنامہ سر انجام دیا‘ وہ آج کوئی راز نہیں رہا بلکہ گزشتہ بیس برسوں میں یہ سارا معاملہ زبان زد عام ہو چکا ہے اور آج لوگ نہ صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ شخصیت کون تھی بلکہ یہ بھی ان کے علم ہے کہ اس شخصیت کے سامان میں موجود جو بریف کیس تھے‘ ان میں کیا تھا اور کس مقصد کے لیے تھا۔ اب آئے روز ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لوگ اس حوالے سے طنز کے تیر برساتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب یہ اہم مشن مکمل ہوا تو کچھ ہی عرصے بعد وہ شخصیت‘ جس نے یہ سنہری کارنامہ سر انجام دیا تھا‘ اپنے دوستوں اورساتھیوں کو بڑے مزے لے لے کر یہ قصے سناتی دکھائی دی۔ ''کوئٹہ مشن‘‘ اس قدر کامیاب ہوا کہ سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ سے مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا گیا۔ بدلے میں اس شخصیت کو کیا ملا وہ تو سب جانتے ہیں‘ مگر کیسے یہ شاید بہت سوں کو معلوم نہ ہو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں منعقد ہونے والی کامن ویلتھ ایتھنک بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ سارا معاملہ دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ جس اہم شخصیت کے ذریعے میری منتخب حکومت کا خاتمہ کرایا گیا‘ نواز شریف اس کی خدمات کے عوض پاکستان کے انتہائی اہم آئینی عہدے سے اسے نواز رہا ہے۔ جب اہم ترین آئینی عہدے کے انتخاب کا مرحلہ قریب آیا اور اس اہم شخصیت نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے مگر اس وقت کے چیف الیکشن کمیشن نے کاغذاتِ نامزدگی اعتراضات لگا کر واپس کر دیے، جس پر چاروں جانب ایک بھونچال آ گیا۔ ہر طرف تھرتھلی مچ گئی کہ اب کیا کیا جائے، پھر وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو اس سے قبل پنجاب میں اختیار کیا گیا تھا؛ تاہم اس وقت کارِ خاص ''ملک صاحب‘‘، جن کو محترمہ بے نظیر اور آصف علی زرداری کو مرضی کی سزا دلوانے کیلئے ٹیلی فون کیا گیا تھا اور جس کی ریکارڈڈ گفتگو اب ہر جگہ عام دستیاب ہے، اپنی والدہ کے انتقال کی وجہ سے رخصت پر تھے، اس کے باوجود انہیں فوری طور پر حاضری کا حکم سنایا گیا اور انہوں نے بھی آئو دیکھا نہ تائو‘ کاغذاتِ نامزدگی‘ جو الیکشن کمیشن نے مسترد کرتے ہوئے مذکورہ شخصیت کو نااہل قرار دیا تھا‘ کو منظور کرتے ہوئے انہیں انتخاب میں حصہ لینے کی خصوصی اجا زت دے دی اور اس طرح وہ شخصیت ملک کی آئینی سربراہ منتخب کر لی گئی۔ اس شخصیت سمیت اس کے خاندان پر اپنے لیے درجنوں غیر معمولی کارنامے انجام دینے کے عوض جو عنایات کی گئیں وہ اب ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان کو اس طرح نوازا گیا کہ بزرگوں کے بعد ان کی اولادیں اور اگلی نسلیں اور خاندان کے دیگر لوگ‘ آج بھی اس احسان کے بدلے میں پُرکشش مراتب کے مزے لے رہے ہیں۔
ڈان لیکس کا کارنامہ جن کیلئے انجام دیا گیا‘ وہ اس قدر احسان مند ہوئے کہ خود چل کر بغیر کسی سرکاری دعوت اور بغیر کسی ویزے کے‘ اپنی ٹیم کے ساتھ شادی میں شرکت کیلئے گھر تک پہنچ گئے۔ ڈان لیکس کے بعد کوئٹہ طرز کی ایک خصوصی فلائٹ اسلام آباد سے ملتان بھی روانہ کی گئی تھی جب سپریم کورٹ سے نااہل قرار پانے والے معزول وزیراعظم ملتان میں موجود تھے۔ ''مشن کوئٹہ‘‘ کی طرز پر خفیہ مشن پر اسلام آباد سے ملتان پہنچنے والے خصوصی جہاز سے اترنے والی شخصیت کو وی وی آئی پی پروٹوکول دینے کے ساتھ ساتھ اس کا نام خفیہ رکھنے کا حکم بھی جاری کیا گیا۔ ڈان لیکس کا یہ اہم کردار ایک مرتبہ پھر ریاستی مفاد کے خلاف مشن پر ملتان پہنچ چکا تھا جہاں سابق وزیراعظم کا ایک انٹرویو کیا جاتا ہے جس میں صرف اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ26/11 کے ممبئی حملوں کیلئے دہشت گرد یہاں سے بھیجے گئے تھے۔ اب یہ بات ہم سب کیلئے انتہائی اہم ہے کہ اس انٹرویو کیلئے سیرل المیڈا کو ہنگامی طور پر ملتان کیوں بلایا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگلے روز عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس میں بھارت کے وکلا کی ٹیم سابق وزیراعظم کے سیرل المیڈا کو دیے گئے اس انٹرویو کے چنیدہ الفاظ جج صاحبان اور وہاں موجود لوگوں کو سناتے ہوئے بتا رہی تھی کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریا ست ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا معاملہ‘ جو ابھی تک پاکستان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسا ہوا ہے اسی دور کا تحفہ ہے‘ جو آج بھی پاکستان کو گھن کی طرح چاٹے جا رہا ہے۔