افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے باوجود افغان طالبان کی پوری قوت سے اقتدار میں واپسی نے اس ملک میں بیس سالہ لبرل سامراجیت کو پاش پاش تو ضرور کر دیا ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ امریکا کو اس کا اندازہ نہیں تھا تو میں اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ 20سال پہلے امریکا نے افغانستان میں طالبان، القاعدہ کو تباہ کرنے اور افغانستان کو پرامن، خوشحال اور جمہوری ملک بنانے کے ارادے ظاہر کرکے دھاوا بولا تھا۔ امریکی میڈیا اور اس وقت کی امریکی قیادت‘ یہ تاثر دے رہے تھے کہ امریکا، افغان خواتین کو حقوق دلوانے اور خواتین کو برقعہ سے نجات دلا کر باقی دنیا اور امریکا کی خواتین کے برابر لا کھڑا کرنیکے مشن پر ہے۔
آج 2021ء میں جب امریکا وہاں سے اپنے شہری اور مددگار افغان شہریوں کو نکالنے کے جتن کر رہا ہے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغانستان میں نہ تو امن آیا اور نہ ہی خوشحالی، جبکہ جن طالبان سے نجات دلانے انکل سام یہاں آیا تھا وہ پوری قوت سے دوبارہ کابل میں بیٹھے ہیں اور امریکی عقوبت خانوں میں برسوں اذیتیں برداشت کرنے والے طالبان رہنما وزارتوں پر براجمان ہو رہے ہیں۔ دراصل انکل سام یہاں جھوٹ گھڑ کر پہنچا تھا‘ اس نے افغانستان کو نجات دلانا تھی اور نہ ہی خوشحالی عطا کرنا تھی، بلکہ اس کے مقاصد فوجی اور سٹریٹیجک تھے۔ امریکا بہادر، دراصل روس، چین اور ایران کو اپنی فوجی، سکیورٹی اور انٹیلی جنس طاقت دکھانا چاہتا تھا۔ افغانستان اس مقصد کیلئے امریکا کا ایک ہدف تھا اور افغان عوام کی یہ بد قسمتی تھی۔
اب امریکی یہاں سے نکل رہے ہیں تو ان کے صدر جو بائیڈن کہتے ہیں: ہم قریباً 20 سال پہلے یہ واضح اہداف لے کر افغانستان گئے تھے کہ 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ القاعدہ، افغانستان کو ہم پر حملے کے لیے ٹھکانے کے طور پر دوبارہ استعمال نہ کر سکے۔ ہم نے اپنا ہدف حاصل کیا۔ ہم نے افغانستان میں القاعدہ کو شدید نقصان پہنچایا۔ ہم نے اسامہ بن لادن کی تلاش کبھی ترک نہ کی اور اسے جا لیا۔ یہ ایک دہائی پہلے کی بات ہے۔ افغانستان میں ملکی تعمیر کبھی ہمارا مقصد نہیں تھا۔ یہ کبھی نہیں سوچا گیا تھا کہ ہم نے وہاں ایک متحدہ مرکزی جمہوریت قائم کرنا ہے۔ افغانستان میں ہمارا واحد اور اہم قومی مفاد بدستور وہی ہے جو ہمیشہ رہا ہے کہ اسے امریکہ کی سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔ میں کئی سال سے کہتا چلا آیا ہوں کہ ہمارا مقصد انسداد بغاوت یا قومی تعمیر کے بجائے صرف انسداد دہشت گردی تک محدود و مرکوز ہونا چاہیے۔ اسی لیے 2009ء میں نائب صدر کے عہدے پر ہوتے ہوئے میں نے اس طرح کی زوردار تجاویز کی مخالفت کی تھی۔
جو بائیڈن وہی شخصیت ہیں جنہوں نے 2001ء میں افغان تنازع کے آغاز میں‘ جب وہ امریکی سینیٹر تھے‘ امریکی فوجی مداخلت کے طویل مدتی مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم افغانستان میں ایک نسبتاً مستحکم حکومت دیکھیں گے جو کہ اس ملک کے مستقبل میں تعمیر نو کی بنیاد بنے گی۔ اور پھر 2003ء میں ایک اور بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ قوم کی تعمیر نو کا متبادل انتشار ہے، ایک ایسا انتشار جو خونخوار جنگجوؤں، منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کو پیدا کرتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے بیانات کا تضاد انکل سام کی پرانی فطرت کا عکاس ہے۔ اب یہی امریکی حکام ایک اور بات کر رہے ہیں کہ طالبان اب بدل گئے ہیں۔ دراصل وہ امریکی جو کئی ماہ تک دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر سے مذاکرات کرتے رہے تھے انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ ان کے انخلا کی دیر ہے، طالبان ایک بار پھر پورے افغانستان کو کنٹرول کر رہے ہوں گے۔ سب کچھ امریکا کے منصوبوں کے مطابق ہوتا چلا گیا لیکن ایک بات جس کا اسے اندازہ نہ ہو سکا وہ کابل ایئرپورٹ کی صورت حال تھی۔ کابل ایئرپورٹ کی صورت حال کی وجہ سے امریکا بہادر کو اب خفت اور تنقید کا سامنا ہے‘ باقی سب منصوبے کے مطابق ہوا۔ امریکیوں کا یہ دعویٰ کہ طالبان بدل گئے ہیں کچھ کچھ درست لگا‘ جب کابل میں طالبان کے ترجمان نے پہلی پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس سے واقعی لگا کہ طالبان بدل گئے ہیں اس بار انہیں اندازہ ہے کہ ان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کئے جانے کی ضرورت ہے اور اسی میں ان کی بقا ہے۔ اس بار انہیں حکمرانی کرنی ہے کسی کو خوفزدہ نہیں۔
اس بار طالبان واقعی بدلے ہوئے ہیں کیونکہ وہ نہ صرف عالمی برادری کے ساتھ مذاکرات میں بیٹھے، دنیا گھومے اور بڑے میڈیا چینلز کو غور سے دیکھتے اور سنتے رہے، بلکہ اب انہیں بات کرنے کا ہنر بھی آ گیا ہے۔ اب وہ لٹھ لے کر پیچھے نہیں پڑتے بلکہ باقی دنیا کی طرح لپیٹ کر بات کرنے کا ہنر جان گئے ہیں۔ اس بار شرمندگی اور خفت امریکی اور مغربی میڈیا کو جھیلنا پڑ رہی ہے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے جھوٹ پر آنکھیں بند کر کے یقین کرتا رہا۔ جب کابل چند دنوں میں طالبان کے کنٹرول میں آگیا تو امریکی اور مغربی میڈیا کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں لیکن امریکی انتظامیہ کو چنداں حیرت نہ ہوئی کیونکہ انہیں اپنے جھوٹ کا اندازہ تھا۔ امریکی میڈیا کی شرمندگی اور خفت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اسی میڈیا نے افغانستان پر حملے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے یہ جھوٹ بیچا تھا کہ وہ افغانستان میں طالبان اور انتہا پسندی کے نظریے کو شکست دینے، جمہوریت قائم کرنے، امن اور خوشحالی کے مشن پر پہنچے ہیں۔ اس وقت امریکی اور مغربی میڈیا، اسلاموفوبیا کے زہر سے بھرا ہواتھا لیکن حقیقت میں صدر بش اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کا مقصد کچھ اور تھا۔
امریکا نے بیس سال اپنے ملٹری انڈسٹری کمپلیکس میں کھربوں ڈالر جھونکے، یہ مشن امریکا کے لیے جنگی مشق تھا جس میں اس نے اپنے حریفوں پر اپنے اسلحے کی نمائش سے دھاک بٹھائی۔ اب جب مشن پورا ہو گیا تو جو بائیڈن نے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی بنائی گئی افغان حکومت اور نظام کا کیا انجام ہو گا؟ انخلا کا اعلان کر دیا۔ امریکا نے افغان سیٹ اپ اور اس کے لیے کھڑی کی گئی سکیورٹی فورس کو کرائے کے ٹٹوؤں کی طرح استعمال کیا اور انہیں انجام بھگتنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ جب بھاڑے کے ٹٹوؤں نے حالات کو بھانپا تو دیر ہو چکی تھی، سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا، اسی لیے دنیا نے دیکھ لیا کہ طالبان نے ایک بھی گولی چلائے بغیر کابل پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
بیس سال کی جنگ اور تباہی کے بعد طالبان اب پھر اقتدار میں ہیں، جو چاہیں کرنے کو آزاد ہیں لیکن اس بار انہیں محتاط رہنا ہو گا، سوچ سمجھ کر چلنا ہو گا، ملک میں ہونے والی تباہی اور ہلاکت سے سبق سیکھ کر سب فریقوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ طالبان کے دوبارہ طاقت میں آنے پر دو طرح کی سوچ سامنے آئی ہے۔ ایک‘ طالبان کی فتح پر جشن منانے کی سوچ اور دوسری‘ طالبان کے بارے میں پروپیگنڈا کا نظریہ۔ دونوں ہی قبل از وقت اور انتہا پسندی ہیں، اب طالبان کے اقدامات ہی بتائیں گے کہ ان کے آنے پر خوشی منائی جائے یا پھر ان کے آنے اور دوبارہ اقتدار سنبھالنے پر افغان شہریوں اور دنیا کو پریشان ہونا چاہئے۔