حکومت نے عوام کے روزگار پر ڈاکا
ڈالا، معاف نہیں کریں گے: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ''حکومت نے عوام کے روزگار پر ڈاکا ڈالا، معاف نہیں کریں گے‘‘ اس لیے بہتر ہے کہ وہ ہم سے معافی کی درخواست ہی نہ کرے اور جس کی وجہ صرف ہماری مصروفیت ہے کیونکہ ہم عوام کے وسائل کے بندوبست میں مصروف ہیں، جس سے فارغ ہونے کے بعد ہی ہم کسی درخواست پر غور کر سکتے ہیں کیونکہ ہم سارے کا سارا زور اسی کارِ خیر پر صرف کر رہے ہیں جو کہ ایک مستقل کام ہے اور اس میں آرام وغیرہ کا کوئی وقفہ یا گنجائش بھی نہیں ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جس کام میں ہاتھ ڈالا جائے اس میں پوری تندہی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے تا کہ وہ بخیر و خوبی اپنے انجام کو پہنچ سکے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت پورے ملک کی یکساں ترقی
پر یقین رکھتی ہے: اعجاز چودھری
سینیٹ میں حکمران جماعت کے پارلیمانی لیڈر اعجاز چودھری نے کہا ہے کہ ''حکومت پورے ملک کی یکساں ترقی پر یقین رکھتی ہے‘‘ اور اسے حکومت کی نصف کامیابی سمجھا جائے کیونکہ کسی بات میں یقین رکھنا ہی شرطِ اول ہے جس کے بعد کام کی اپنی مرضی ہے کہ وہ ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ یقین رکھنے کے بعد حکومت کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور حالات کا کام شروع ہو جاتی ہے کہ وہ کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور جس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ حالات تو حالات ہوتے ہیں، انہیں آزادانہ طور پر اپنا رخ اختیار کرنے یا بدلنے کا موقع ملنا چاہیے جو حکومت تمام تر فراخدلی کے ساتھ دے رہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک میں کرپشن کے خاتمے پر
ایمانداری سے سیاست کی: خورشید شاہ
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''ملک میں کرپشن کے خاتمے پر ایمانداری سے سیاست کی‘‘ اور جو کام کرنا ہوتا ہے پہلے اس کے اندر داخل ہو کر اس کے طول و عرض کا اندازہ بھی لگانا ہوتا ہے، اس کے علاوہ منصوبہ یہ بھی تھا کہ اس سے احتسابی اداروں کی کارکردگی کا بھی اندازہ لگایا جائے کہ یہ کیا کچھ کرتے یا کر سکتے ہیں، اور اس میں رسک لینے والی بھی کوئی بات نہیں تھی، کیونکہ زیادہ تر مقدمات عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہو رہے تھے، مزید یہ کہ اثاثے بنا کر بھی ان اداروں کا امتحان لیا جائے کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
ویکسین کے بارے میں غلط فہمیاں
ختم ہونی چاہئیں: ڈاکٹر ظفر مرزا
وزیراعظم کے سابق معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ ''ویکسین کے بارے میں غلط فہمیاں ختم ہونی چاہئیں‘‘کیونکہ اگر حکومت کے دیگر متعدد اقدامات کے بارے میں بے شمار غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں اس نے رفع کرنے کی نہ کوششیں کی ہیں نہ ضرورت محسوس کی ہے تو اس بارے میں غلط فہمیاں کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہیں؛ تاہم بہتر ہے کہ انہیں ختم کرنے کی کوئی صورت نکالی جائے جبکہ خود کوروناکے بارے میں بھی غلط فہمیاں موجود ہیں اور زیادہ تر لوگ ایس او پیز کی خلاف ورزی کر رہے ہیں تو انہیں ہسپتالوں کا دورہ کر کے کورونا کے مریضوں سے کچھ عبرت حاصل کرنے چاہئے اور جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی‘ انہیں فوری ویکسین لگوانی چاہیے۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
قانونی جنگ لڑیں گے: عطا تارڑ
نواز لیگ کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ''انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، قانونی جنگ لڑیں گے‘‘ اگرچہ یہ بات مجھے بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمیں کون سے جرم کے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن چونکہ چھوٹے بڑے جملہ رہنما اسی دلیل سے کام لے رہے ہیں جبکہ اس کے علاوہ اتفاق سے کوئی دلیل دستیاب بھی نہیں ہے، اگر حکومت ناجائز اثاثے بنانے کا انتقام لے رہی ہے تو اس کا فیصلہ جلد ہو جائے گا کہ یہ جائز تھے یا ناجائز، اس لیے اس وقت کا انتظار کیا جائے اور جہاں تک منی لانڈرنگ کا تعلق ہے تو چونکہ ملک عزیز میں اس قدر لانڈریاں موجود ہیں تو انہیں بیکار رکھنے کا کیا فائدہ کہ خواہ مخوا ہ ان کے روزگار پر لات مار دی جائے؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ بزدار خاموشی سے عوام
کی خدمت کر رہے ہیں: محمود الرشید
وزیر بلدیات پنجاب میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ بزدار خاموشی سے عوام کی خدمت کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ خدمت کے کچھ حصے ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن کے بارے میں خاموشی ہی اختیار کی جا سکتی ہے اگرچہ خدمت کا سارا کام ہی خاموشی سے سر انجام دینا چاہیے تاکہ ہر قسم کی خدمت کا موقع ملتا رہے کیونکہ حکومت خاموش نہ رہے اور کوئی دعویٰ وغیرہ کرے تو لوگ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں جبکہ شور ماحول کو خراب بھی کرتا ہے نیز اس سے صوتی آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے اور حکومت کے خاموشی بجا لانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ماحول صاف ستھرا رہتا ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے ویسے بھی بے حد ضروری چیز ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں شاہکام چوک فلائی اوور کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں رستم نامی کی غزل:
میں ہوں اِک دریائے فانی میں رواں
بے خس و خاشاک پانی میں رواں
مجھ پہ چلتا ہے تمہارا اختیار
ہوں تمہاری ہی کہانی میں رواں
میں کھٹکتا ہوں بہت سوں کو بہت
جب سے ہوں اپنی روانی میں رواں
اب نہیں لگتا کنارے لگ سکیں
لوگ ہیں جس بیکرانی میں رواں
ہے وہ نوحہ ایک اجڑے شہر کا
ہے چمن جس نغمہ خوانی میں رواں
ہے نظامِ کوچۂ بیداد گر
مدتوں سے کھینچا تانی میں رواں
منزلیں میرا نہیں ہیں مسئلہ
میں ہوں راہِ لامکانی میں رواں
کیا خبر مجھ کو کہ تُوہے سامنے
میں ہوں اپنی بے دھیانی میں رواں
تھی توانائی ہماری بے مثال
ہم بھی تھے نامیؔ جوانی میں رواں
آج کا مطلع
چار سُو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا