تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     26-08-2021

بدنامی کے بڑھتے سائے

مہذب معاشروں میں جرم کی کوئی دلیل ہوتی ہے نہ مجرم کا دفاع کیا جاتا ہے۔ ہاں البتہ ! کچھ بیمار ذہن جرم کی تاویل ضرور ڈھونڈتے ہیں اور مجرم کو سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تجوری کھلی ہو تو کیا سونا چوری کرنے کا اختیار میسر آ جاتا ہے؟ رات کالی ہو تو کیا دیے بجھانے کا حق مل جاتا ہے؟ آگ کا دریا بپھرا ہوتو کیا ہر کوئی تیر کر عبور کر سکتا ہے؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ کٹی پتنگ اور جیتی جاگتی عورت کا فرق بھی نہیں جانتا؟ بدنامی کے سائے بڑھ رہے ہیں اور ہمیں دکھائی بھی نہیں دے رہے۔
بستیوں میں ہونے کو حادثے بھی ہوتے ہیں
پتھروں کی زد پر کچھ آئینے بھی ہوتے ہیں
ایک معروف اداکارہ‘ جو ستر اور اسّی کی دہائی میں اپنے فن کے عروج پر تھیں۔ ایک رات کچھ اُوباش ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ لوٹ مار کی اور گینگ ریپ بھی۔ کیس چلا اور خوشاب سے تعلق رکھنے والے فاروق بندیال سمیت پانچ ملزمان کو سزائے موت سنا دی گئی۔ پھر وہی ہوا جو بااثر افراد کیا کرتے ہیں۔ اداکارہ کو ڈرا دھمکا کر راضی نامہ کیا گیا جس کے بعد وہ پاکستان چھوڑ کر ہمیشہ کیلئے بنگلہ دیش چلی گئیں۔ اس واردات کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی مگر ملزمان کا پہلا مقصد ریپ ہی تھا۔ معروف اداکارہ کو انصاف نہیں ملا تو مینارِ پاکستان پر ہجوم کا نشانہ بننے والی عائشہ اکرم کو انصاف کیسے ملے گا؟ فاروق بندیال عدالت سے سزائے موت پانے کے بعد آج بھی زندہ ہے تو رکشے میں لڑکی سے سرعام بدسلوکی کرنے والا کیسے سزا پائے گا؟ معروف اداکارہ اگر خوف کے سائے میں صلح کر سکتی ہیں تو چوہنگ کے قریب رکشہ ڈرائیور کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بننے والی ماں بیٹی کیسے ڈٹ کر کیس لڑ سکیں گی؟ کیا کوئی ہے جو اِن سوالات کے جوابات دے سکے؟ کیا کوئی ہے جو قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کر سکے؟ کیا کوئی ہے جو انصاف کی بنجر ہوتی زمین کو سیراب کر سکے؟ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جرائم پوری دنیا میں ہوتے ہیں مگر اصل امتحان تو نظام انصاف کا ہوتا ہے۔ اگر نظامِ انصاف کی نبض چلتی ہو تو جرائم کی جڑیں خود بخود کھوکھلی ہو جاتی ہیں ورنہ وہی حال ہوتا ہے جو اداکارہ کے کیس کا ہوا تھا۔ ملزمان سزا پا نے کے بعد بھی چھوٹ گئے اور متاثرہ عورت روح اور جسم چھلنی ہونے کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔ عدل ہوا نہ وقار بحال۔ عزت بھی گئی اور فلمی کیریئر بھی۔ کیا ساری دنیا میں انصاف کے پیمانے ایسے ہی ہوتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ہمارے حکمران کس مرض کی دوا ہیں؟ نئی اور جامع قانون سازی کیوں نہیں کرتے؟ عدالتوں کی استعداد کیوں نہیں بڑھاتے؟ اور سب سے بڑھ کر پراسیکیوشن کے نظام میں بہتری کیوں نہیں لاتے؟ کراچی کے بعد لاہور میں بدامنی عام ہورہی ہے مگر حکمرانوں کا خمار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ کیوں؟ عباس تابش یاد آتے ہیں ؎
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے
لاہور ایک بار پھر خبروں میں ہے کیونکہ یہاں کے پارکس اور سٹرکیں خواتین کے لیے غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہیں۔ خواتین سے دست درازی، زیادتی اور بدزبانی کے واقعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ قانون کی ہیبت ہے نہ سزا پانے کا خوف۔ جرم پر ندامت ہے نہ معافی کی جستجو اور اوپر سے ستم بالائے ستم کہ پوری قوم نے مباحثے کا رخ ہی دوسری طرف موڑ دیا ہے۔ کوئی ملزمان کی وکالت کرتا نظر آتا ہے تو کوئی متاثرہ خاتون کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ کوئی عورت کو گالی دیتا تو کوئی مرد کو۔ یہاں ہر کوئی وکیل بھی ہے اور منصف بھی۔ ہر کوئی الزام دوسرے پر لگا رہا ہے۔ خدا جانے ہمارے رویوں کو کیا ہو گیا ہے۔ ہم اتنے انتہا پسند تو نہ تھے۔ ہم جرم کو جرم کیوں نہیں کہتے؟ ہر بار اگر مگر کا سہار ا کیوں لیتے ہیں؟ ہم ایک ہی وقت میں مقتول سے ہمدردی اور قاتل سے عشق کیسے کر سکتے ہیں؟ یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہم عورت اور مرد پر تنقید کرنے کا جواز ڈھونڈتے رہتے ہیں اور جب موقع ہاتھ آتا ہے ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری شروع کر دیتے ہیں۔ نجانے کیوں ہم ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں نہ ساری عورتیں۔ نجانے کیوں ہماری گفتگو سے توازن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارا سوشل میڈیا ایسی بے مقصد کی تکرار کو ایندھن مہیا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کا کوئی بھی پلیٹ فارم ہو‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی، کسی کو بھی، کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں‘ کوئی ٹوکنے والا نہیں۔
اگر آپ لاہور میں ہونے والے پے درپے واقعات کا نفسیاتی تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ ویب سیریز ''دہلی کرائم‘‘ ضرور دیکھیں۔ یہ سیریز چند سال قبل دہلی میں چلتی بس کے اندر لڑکی سے کیے گئے گینگ ریپ پر بنائی گئی ہے۔ اس سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ ایسے گھناؤنے واقعات میں ملوث لوگ ذہنی عارضو ں اور احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹے شہروں سے آکر بڑے شہروں کو بدنام کرتے ہیں۔ انہیں جب کچھ نہیں ملتا تو یہ دوسروںسے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہالت ان کے کندھوں پر ہر دم سوار رہتی ہے۔ یہ برے سے برا اور غلط سے غلط کام کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ یہ دوسروں سے حسد کرتے ہیں اور اسی آگ کو ٹھنڈاکرنے کے لیے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہیں اپنے کیے پر ندامت ہوتی ہے نہ شرمندگی۔ یہ زور زبردستی اور بدکلامی کوا پنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اتنے جاہل ہوتے ہیں کہ انہیں قانون کی پروا ہوتی ہے نہ قانون کے رکھوالوں کا خوف۔ یہ گائوں‘ دیہات سے شہروں میں کام کرنے آتے ہیں اور تھوڑے وقت میں زیادہ پیسے کمانے کی ہوس میں جرائم کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پھر چوری چکاری سے لے کر دست درازی تک، بدکلامی سے لے گینگ ریپ تک، سبھی جرائم کی کالک ان کے ماتھے پر لگتی جاتی ہے مگر یہ اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔ لاہورکے واقعات میں ملوث ملزمان کا ڈیٹا اکٹھا کریں تو آ پ کو حیرت ہوگی کہ ان میں سے 95 فیصد لوگ لاہور سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ یہ لاہور ہلہ گلہ کرنے آئے تھے اور معاشرے کے ماتھے پر کالک مل کرچلے گئے۔ انڈین میڈیا نے گریٹر اقبال پارک پر ہونے والے واقعے کو خوب اچھالا اور جی بھر کر ہمیں بدنام کرنے کوشش کی مگر ملوث افراد کو کیا، انہیں تو احساسِ ندامت بھی نہیں ہوا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کیکر کے درخت پر آم اُگ آئیں اور سرسوں کے کھیت میں گندم۔ قدرت کا قانون ہے کہ آپ جو بوتے ہیں‘ وہی فصل تیار ہوتی ہے۔ سارا قصور ان والدین کا ہے جو اپنے بچوں کی تربیت ڈھنگ سے نہیں کرتے۔ انہیں غلط اور صحیح کی تمیز سکھاتے ہیں نہ اپنے پرائے کا ادب۔ والدین اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں اور بچے اپنی زندگی میں مست۔ بچہ کہاں جاتا ہے‘ کس سے ملتا ہے والدین کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ بچہ، ماں سے جھگڑتا ہے تو وہ ہنس دیتی ہے، بچہ باہر کسی کو پتھر مار کر آتا ہے تو باپ عذر پیش کرتا ہے مگر جب یہی بچہ کوئی انہونی کر بیٹھتا ہے تو تب جا کر والدین کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ حکومت کو بھی اگر معاشرے کا چلن بدلنا ہے تو قانون کا خوف لوگوں کے دلوں میں اتارنا ہوگا اور ہر صورت انصاف کرنا ہو گا۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔ ورنہ یوں نہ ہو صبح کے بھولے شام کو گھر آنا چھوڑ دیں۔
شہر طلب کرے اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved