ہر انسان مرتے دم تک کامیابی کے لیے جیتا ہے یعنی جو کچھ بھی وہ کرتا ہے‘ وہ صرف اور صرف کامیابی کے حصول کی خاطر ہوتا ہے۔ کسی بھی عمل کا نتیجہ ناموافق نکل سکتا ہے اور نکلتا بھی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ عمل صرف کامیابی یقینی بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ کامیابی ملے یا نہ ملے، کوئی بھی انسان یہ بات کبھی نہیں کہتا کہ اُس نے کوئی بھی قدم ناکام ہونے کے لیے اٹھایا تھا۔ انتہائی نااہل اور ناکام افراد بھی اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرتے کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ اصلاً ناکامی کے لیے ہوتا ہے نہ کہ کامیابی کے لیے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کا ذہن اس بات کو تسلیم یا ہضم نہیں کرتا کہ اُن کے کسی بھی عمل کا اصل مقصد ناکام ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ عام حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ بہت کوشش کرنے پر بھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ پاتے۔ اِس میں حالات اور دوسروں کی نیت سے زیادہ اُن کی اپنی خامی، کمزوری یا کوتاہی کا دخل ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے یا معاملے میں کامیابی کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ ہم کامیابی کے کس حد تک خواہش مند ہیں۔ جن لوگوں میں بھرپور کامیابی کی خواہش پائی جاتی ہے وہ دوسروں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ اُن کے شب و روز اُن کی سوچ کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بیشتر معاملات میں بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کامیابی کی شدید خواہش انسان کو اندر ہی سے نہیں، باہر سے بھی بدل دیتی ہے۔ دن رات صرف اور صرف کامیابی کے بارے میں سوچنے والوں کو لوگ کسی اور ہی رنگ ڈھنگ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہوا پاتے ہیں۔ ان کے شب و روز یوں بدلتے ہیں کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کامیابی کی خواہش رکھنے پر بیشتر کے حصے میں ناکامی کیوں آتی ہے۔ نفسی امور کے ماہرین اور شخصی ارتقا کے موضوع پر لکھنے والوں نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے۔ نفسی امور کے ماہرین کی تحریریں تکنیکی ہیں اس لیے پیچیدہ ہیں اور عام آدمی انہیں زیادہ دلچسپی سے نہیں پڑھتا۔ شخصی ارتقا اور ''اپنی مدد آپ‘‘ کے موضوع پر لکھنے والوں نے عام آدمی کے لیے بہت کچھ لکھا ہے۔ لوگ ''سکسیس لٹریچر‘‘ پڑھ کر خود کو بدلنے کی تھوڑی بہت تحریک ضرور پاتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں خاصے سرسری اور بودے انداز سے لکھی گئی ہیں۔ ایسی کتابیں پڑھتے رہنے سے عام آدمی کا کچھ بھی بھلا نہیں ہوتا، وہ بھرپور زندگی بسر کرنے اور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے حوالے سے کوئی تحریک نہیں پاتا۔ ہاں! معیاری انداز سے لکھی گئی کتابیں انسان کو بہت کچھ دیتی ہیں، اُسے کامیابی کی راہ سجھاتی ہیں اور کچھ کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ صرف اُس وقت ہوتا ہے جب انسان کچھ بھی پڑھتے وقت اپنی سوچ مثبت رکھے اور اہلِ دانش کے مشوروں کو خاطر خواہ اہمیت دے۔ سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت پائی جاتی ہو تب بھی بہت سے معاملات میں دوسروں کی طرف سے رہنمائی ہماری مشکلات آسان کرتی ہے۔
کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی دیوار ہے کامیابی کے لیے ذہن بنانے سے گریز۔ جو لوگ دن رات یہ کہتے نہیں تھکے کہ وہ کامیاب ہونا چاہتے ہیں‘ اُن سے اگر پوچھئے کہ آپ نے کامیابی یقینی بنانے کے حوالے سے اب تک کون سے قدم اٹھائے ہیں تو اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ہو بھی کیسے؟ محض سوچنے اور خواہش کرلینے سے کوئی کہاں کامیاب ہو پاتا ہے؟ کامیابی کا حصول یقینی بنانے کی راہ میں پہلا قدم ہے کامیابی کے بارے میں ذہن کا بالکل واضح ہونا۔ جو بھی کامیاب ہونا چاہتا ہے اُسے اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ اس راہ میں کہاں کون سا موڑ آتا ہے اور رفتار کب کتنی رکھنی ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ذہن واضح ہو۔ اور ذہن اُس وقت واضح ہوتا ہے جب کامیابی یقینی بنانے سے متعلق تمام امور کے بارے میں سوچا جائے، استفسار کے ذریعے معلومات میں اضافہ کیا جائے اور اپنے آپ کو کسی بھی صورتِ حال کے لیے ہمہ وقت تیار رکھا جائے۔
کامیابی کی گنجائش کم و بیش ہر شعبے میں رہتی ہے۔ سوال حالات سے زیادہ شخصی اوصاف کا ہے۔ اگر کسی نے طے کرلیا ہے کہ کامیاب ہونا ہے تو پھر کامیابی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ خالصتاً قوتِ ارادی کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی انسان جب واقعی طے کرلیتا ہے کہ اُسے کامیاب ہونا ہے تو اُس کی راہ میں حائل ہونے والی ہر دیوار گرتی چلی جاتی ہے اور وہ کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو بھرپور کامیابی تک پہنچاکر ہی سکون کا سانس لیتا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان طے کرلے کہ وہ کسی بھی مشکل سے گھبرائے گا نہیں اور طے کردہ راہ پر گامزن رہے گا۔ ناکام ہونے والوں سے پوچھئے کہ وہ ناکام کیوں ہوئے تو اُن کی اکثریت گھما پھراکر یہی جواب دے گی کہ حالات نے اُنہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ حالات میں لوگوں کا رویہ بھی شامل ہے۔ عمومی سطح پر ذہنوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ لوگ دوسروں کی ناکامی چاہتے ہیں۔ چند لوگ تو ایسے ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بیشتر معاملات میں کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور مزید کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی اگر آپ کو کامیابی سے ہم کنار نہیں دیکھنا چاہتا تو ناکامی سے دوچار ہوتا ہوا دیکھنے کا بھی خواہش مند نہیں ہوتا۔ مسائل تو سبھی کے لیے ہیں اور اچھے خاصے ہیں۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ اپنے معاملات کو نظر انداز کرکے آپ کی زندگی میں تاک جھانک کرتا پھرے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ ہر وقت آپ کے بارے میں اور منفی انداز سے سوچتا رہے؟ ایسا ممکن ہی نہیں۔ لوگ کسی کے بارے میں ایک خاص حد تک ہی سوچتے ہیں۔
بہت سوں کا یہ حال ہے کہ زندگی بھر اپنے لیے واضح اہداف مقرر کرتے ہیں نہ سکت بڑھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنی مہارت کا گراف بھی بلند نہیں کرتے۔ کسی بھی شعبے میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ سیکھتے وہ ہیں جو سیکھنا چاہتے ہیں۔ اور جو سیکھنے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ بن کر ہی واپس آتے ہیں اور پھر کچھ نہ کچھ کر دکھاتے ہیں۔ بہت سوں کے ذہنوں میں یہ خوف جاگزیں ہوتا ہے کہ اُن کی کامیابی اُن کی مشکلات بڑھائے گی۔ یہ سوچ اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماحول میں کامیاب ہونے والوں کو مختلف الجھنوں سے دوچار دیکھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بھرپور کامیابی بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے مگر بھرپور محنت کے ذریعے اور کسی کا حق مارے بغیر یقینی بنائی جانے والی کامیابی انسان کے دل کو ایسا سکون عطا کرتی ہے جس کے سامنے کوئی الجھن ٹِک نہیں سکتی۔
یہ سوچنا سادہ لوحی سے بڑھ کر حماقت ہے کہ ہماری کامیابی سے کسی کے لیے الجھنیں پیدا ہوں گی۔ بہت سے لوگ یہ سوچ سوچ کر خواہ مخواہ اپنی ذہنی الجھنیں بڑھاتے رہتے ہیں کہ اُن کی کامیابی سے کسی کی حق تلفی ہوگی۔ جب مقابلہ ہوتا ہے تو ایک فریق ہارتا ہے۔ اُس کی ہار ہی فریقِ ثانی کی جیت ہوتی ہے۔ ایسے میں جیتنے پر ہارنے والے کے لیے دکھ محسوس کرتے ہوئے احساسِ جرم پالنا کسی بھی طور دانش کا مظہر نہیں۔ کامیابی یقینی بنانے کے لیے ذہن کا واضح کیا جانا لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جائز طریقے سے کامیابی یقینی بنانے پر توجہ دے اور باقی تمام معاملات کو نظر انداز کرے۔
کامیابی کا حصول اُتنا مشکل نہیں جتنا اُس کا برقرار رکھنا ہے۔ بہت سے لوگ کامیابی برقرار رکھنے کے معاملے سے گھبرا جاتے ہیں اور بھرپور کامیابی یقینی بنانے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کامیابی کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے جو ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ انسان کو تو ناکامی کی بھی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے تو پھر کامیابی کی قیمت ادا کرنے میں ہچکچاہٹ کیوں؟ بھرپور کامیابی کی خواہ کوئی قیمت ادا کرنا پڑے، دل کی حقیقی تسکین اور احساسِ فخر کسی اور صورت ممکن نہیں۔ ایسے میں کامیابی سے خوفزدہ ہونا سراسر غیر منطقی ہے۔