تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     27-08-2021

عربی شاعری کی چاشنی

ایک روایت کے مطابق قبل از اسلام مکۃ المکرمہ سے چند میل کے فاصلے پر ''سوق عُکاظ‘‘ ہر سال ایک ادبی میلہ لگتا تھا۔ اس میلے میں ہر سال جو قصیدہ بہترین قرار پاتا اسے آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ امرائوالقیس کا معلقہ عربی شاعری قبل از اسلام کا بہترین شاہکار ہے۔ عربی شاعری کی روایات کے مطابق یہ قصیدہ محبوب کے اس دیار کے ذکر سے شروع ہوتا ہے جہاں اب محبوب ہے نہ اس کا رنگین خیمہ۔ قصیدے کا آغاز یوں ہوتا ہے:
ساتھیو! ٹھہرو
کہ ہم گریہ کریں
محبوب اور منزلِ محبوب کی یاد میں
(مقاماتِ) دخول و حومل کے مابین
خمیدہ ریگ تودے کے اختتام پر
امرائوالقیس کے قصیدے میں حسینوں کے تذکرے کے بعد چند اشعار طولِ شب فراق کے ہیں جن میں رات کی بھرپور انگڑائی، امڈتی ہوئی ظلمت اور ستاروں کا بیان بڑی خوبصورتی اور مؤثر تشبیہوں اور استعاروں میں کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اردوئے مبین میں ان عربی اشعار کا ترجمہ یوں کیا ہے:
کتنی ہی راتیں گزری ہیں
سمندر کی موج کی طرح
تاریک و ہمہ گیر
جنہوں نے
مجھے آزمانے کے لیے
طرح طرح کے غموں کے ساتھ
اپنے دبیز پردے مجھ پر تان دیئے
نابغہ ذبیانی بھی قبل از اسلام کا ہی نامور شاعر ہے۔ ذرا اس کی عربی شاعری کی چاشنی کا لطف اردو میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے شعری ترجمے سے اٹھائیے:
جذبۂ عشق نے تجھے صدا دی
اور (اجڑے) گھروں (کے منظر) نے
تیری نادانی کو ہوا دی
مگر (سوچ تو سہی)
بالوں میں سفیدی چھا جانے کے بعد
آدمی کی بے راہروی کا کیا جواز رہ جاتا ہے!
عربی مبین میں نازل ہونے والا قرآن پاک عربی زبان و ادب کا عظیم ترین اور اعلیٰ ترین شاہکار ہے۔ رسولِ خدا کی زبانِ صدق و صفا کے علاوہ خود قرآن اپنی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی لیے قرآن نے کفارِ مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اگر تم قرآن کو کلامِ بشر کہتے ہو تو پھر اس جیسی ایک ہی سورت پیش کرو اور یقینا تم ایسا نہ کر سکو گے۔ بلاشبہ ایسے ہی ہوا اور اس دور کے منکرین ایک سورت تو دور کی بات قرآن کے ادبی و لسانی معیار کی ایک آیت بھی منظرعام پر نہ لا سکے۔
برصغیر پاک و ہند میں صدیوں سے عربی زبان کی تدریس تو جاری ہے مگر اس تدریس سے عربی زبان و ادب کے ذوق کی وہ آبیاری نہیں ہو رہی جس ذوق کے بعد قاری قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے ایک ایک لفظ ایک ایک آیت پر اش اش کر اٹھتا ہے‘ اور سید قطب کے الفاظ میں انسان کا دل عربی زبان کی فنی و صوری خوبصورتی اور دلآویزی دیکھ کر گواہی دیتا ہے کہ یہ کلامِ بشر نہیں کلامِ ربانی ہے۔ عربی تدریس سے عربی زبان و ادب کی آبیاری نہ ہونے کے یوں تو کئی اسباب ہوں گے مگر میری براہِ راست معلومات کے مطابق اس کا بڑا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہاں عربی براہِ راست طریقۂ تدریس سے نہیں بلکہ ترجمے اور گرائمر کے ذریعے پڑھائی جاتی ہے۔
عربی زبان سیکھنا اور اس پر عبور حاصل کرنا آسان نہیں‘ جان جوکھوں کا کام ہے۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے ڈپٹی نذیر احمد کے ہونہار شاگرد اور اپنے زمانے کے مشہور ادیب و مصنف مرزا فرحت اللہ بیگ نے بھی چوم کر چھوڑ دیا تھا؛ تاہم عربی زبان کے مایہ ناز استاد اور کیمبرج یونیورسٹی سے عربی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے ڈاکٹر صوفی محمد ضیاالحق مرحوم نے 1950ء کی دہائی میں اپنے شاگرد خورشید رضوی میں لسانی و ادبی ذوق دیکھا تو انہوں نے رضوی صاحب کو عربی پڑھانے کی ٹھان لی۔ رضوی صاحب نے سعادت مند شاگردوں کی اعلیٰ ترین روایات کے مطابق صوفی صاحب سے پہلے گورنمنٹ کالج ساہیوال اور اُن کے گھر پر اور بعدازاں اورینٹل کالج لاہور میں کسبِ فیض کیا اور آج خورشید رضوی صاحب کی عربی دانی کا نہ صرف برصغیر پاک و ہند معترف ہے بلکہ اُن کا ڈنکا عربی ادب کے مصر و عراق اور لبنان جیسے مراکز میں بھی بجتا ہے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی آج بھی جی سی یونیورسٹی لاہور میں عربی کے پروفیسر ایمریطس ہیں۔ انہوں نے اردو داں طبقے کو عربی ادب سے روشناس کرانے کے لیے کم و بیش تین دہائیوں کی ریاضت و مشقت سے ''عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کے نام سے عربی شاعری کے بارے میں کتاب تحریر کی جو تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اردوداں علمی و ادبی طبقے نے کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔ اب مزید دس برس کی محنت شاقہ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ''عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کی دوسری جلد بھی اسی ذوق و شوق سے مرتب کی ہے۔ دوسری جلد بھی تقریباً اُتنی ہی ضخامت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر خورشید رضوی نے عربی کے خوبصورت ادب پاروں اور شعری نمونوں سے واضح کیا کہ قدیم عرب، دنیا کے عظیم شعرا کی صف اوّل میں ممتاز و نمایاں نظر آتے ہیں۔ عربی زبان کی وسعتوں اور لفظی نزاکتوں اور لسانی مترادفات کا شاید دنیا کی کوئی زبان مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قبل از اسلام کے اس ادبی بحر بیکراں کو دو جلدوں میں سمیٹنا اور عربی ادب پاروں کو شعری چاشنی کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھالنا ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب جیسے ''نجیب الطرفین‘‘ کا ہی کام ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی مادری زبان اردو ہے مگر وہ عربی پر مکمل عبور رکھتے ہیں‘ نیز ایک طرف ڈاکٹر صاحب محقق اور دوسری طرف صف اوّل کے ممتاز شاعر بھی ہیں۔ وہ ایک ایسے عبقری ہیں کہ جن کی ذات میں کئی متنوع رنگ کمال کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ وہ عربی زبان و ادب کے استاد ہیں اور انہوں نے عربی میں ہی پی ایچ ڈی کی ہے۔
میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے جملہ کمالات و اوصاف کے بارے میں قدرے تفصیل سے لکھوں تو بعض قارئین اسے ایک شاگرد کی اپنے استاد کے لیے مبالغہ آمیزی قرار نہ دے ڈالیں اس لیے میں یہاں در مدح استاد اپنے قلم کو روکتا ہوں اور ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ممتاز ادیب و شاعر جناب احمد ندیم قاسمی مرحوم کے تفصیلی مضمون سے صرف ایک مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں:
''...آہستہ آہستہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی شخصیت کی ہمہ جہتی مجھ پر منکشف ہونے لگی۔ معلوم ہوا کہ عربی کے علاوہ اردو‘ فارسی شعروادب کے متوازن تجزیے کا بھی انہیں کمال حاصل ہے اور وہ علمِ عروض پر بھی حاوی ہیں... اب اُن کی تصنیف تالیف کے نام سے سامنے آئی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ اُن کی مثال مثمن ہیرے کی ہے کہ اسے روشنی کے سامنے گھمائو تو اس کے ہر پہلو سے الگ الگ رنگ منعکس ہوں گے‘‘۔
ڈاکٹر خورشید رضوی معلم بھی ہیں، محقق بھی ہیں، مربی بھی ہیں، ماہر لسانیات بھی ہیں، اعلیٰ ادبی ذوق کے مالک بھی ہیں، ممتاز شاعر بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر حقیقی معنوں میں نہایت متواضع انسان ہیں۔ اہل ذوق اُن کی جملہ صفات کا عکس جمیل اُن کی کتب ''عربی ادب قبل از اسلام‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved